وولف واریئر، نئی چینی خارجہ پالیسی

وقار کنول  منگل 15 ستمبر 2020
وولف واریئر ملکی مفاد کےلیے کسی بھی حد سے گزرنے پر یقین رکھتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وولف واریئر ملکی مفاد کےلیے کسی بھی حد سے گزرنے پر یقین رکھتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دو ستمبر کو امریکی وزارت دفاع کی جانب سے کانگریس میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں چینی فوج کو امریکا کے قومی مفاد اور عالمی امن کےلیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ اہلکاروں کے ساتھ چین دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھتا ہے اور اس کے علاوہ سیکڑوں بحری فریگیٹ جہازوں اور آبدوزوں کے ساتھ چینی فوج کی استعداد امریکا سے بڑھ چکی ہے، نیز چین قریبی اور دور مار بلیسٹک میزائل کی ایک وسیع تعداد کا مالک ہے۔

اس رپورٹ کے جواب میں چینی وزارت دفاع نے کھل کر امریکا کو عالمی امن کےلیے خطرہ قرار دیا کہ یہ امریکا ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں آٹھ لاکھ سے زیادہ جانیں گئیں اور کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے۔ چین نے واضح اور دو ٹوک انداز میں امریکا کو عالمی امن میں نقص کا ذمے دار قرار دیا ہے۔

چین اور امریکا کی حالیہ کشیدگی اور تعلقات تاریخ کے بدترین موڑ پر ہیں، لیکن اس مرتبہ چین خاموش نہیں ہے۔ سافٹ پاور اور پوری دنیا کے سامنے دفاعی بیانیے کے بجائے چین بھی جارحانہ رویہ اپنا رہا ہے اور چینی سفیر اور اہم عہدیدار جوابی حملے کرنے میں بالکل نہیں ہچکچا رہے۔ جبکہ اس سے قبل چین کی خارجہ پالیسی جارحانہ رویے سے گریز کرتی رہی ہے۔ چین کی اس بدلتی خارجہ پالیسی کے پیچھے کئی ایک وجوہات ہیں اور یہ یکدم بالکل نہیں ہے۔

2015 میں وولف واریئر نامی فلم کی ریلیز ہوئی، جس کا سیکوئل 2017 کو منظرعام پر آیا۔ اس فلم میں محب وطن اور جانباز چینی اسپیشل فورسز کے ایجنٹ کو دکھایا گیا، جو ملکی مفاد کےلیے کسی بھی حد سے گزرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس فلم کو چین میں شاندار مقبولیت حاصل ہوئی اور بدلتی ہوئی چینی خارجہ پالیسی کا نام بن گئی۔ اب چین کے پاس سفارتکاروں کی ایک بڑی فوج سخت زبان کا استعمال کرتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں کورونا وبا کے دوران جب ٹرمپ اور مائیک پومپیو نے چینی وائرس کی اصطلاح کا طنزیہ استعمال شروع کیا تو چینی آفیشل کی جانب سے جوابی الزام لگایا گیا کہ امریکی فوج ووہان میں وائرس لے کر آئی۔ اگرچہ اس بیان کو بعد ازاں ٹویٹر سے ہٹا دیا گیا لیکن دنیا کےلیے یہ بدلتی چینی خارجہ پالیسی کا ایک اہم واقعہ بنا رہا۔

اس سال اپریل میں چین نے بحیرہ جنوبی چین میں ایک ماہی گیر ویت نامی کشتی کو حراست میں لیا تو ویت نام کی طرف سے شدید احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے چین نے دو سو کے لگ بھگ بحیرہ جنوبی چین کے جزائر کو نام الاٹ کیے۔ واضح رہے کہ کسی جزیرے کو نام دینا اور اسے اپنے نقشے میں شامل کرنے کی اس سے قبل حرکت چین نے 1983 میں کی تھی۔ اس کے علاوہ چینی سفراء نے کورونا وبا کے دوران سخت بیانات کا سلسلہ جاری رکھا اور چینی میڈیکل سامان کے غیر معیاری ہونے پر کی گئی تنقید کو یہ کہہ کر جواب دیا کہ آپ چینی ماسک اور دوسرا سامان استعمال نہ کیجئے۔ اس وبا کے دوران چین نے ایک عالمی لیڈر کی ذمے داریاں بخوبی انجام دیں اور دنیا کو اپنی قابلیت سے آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ نہر سوئز تنازع کے بعد اور اسے تحویل میں لینے کی برطانوی حکومت کی ناکامی اس کے سپر پاور ہونے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی تھی اور کورونا وبا کے دوران امریکا کہیں بھی عالمی لیڈر کی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام رہا۔ اس کے بجائے ٹرمپ کے غیر سفارتی بیانات امریکی خارجہ پالیسی کی سبکی کا باعث بنتے رہے ہیں۔

چین کا بھارت کے ساتھ تنازع بھی اسی زمرے میں لیا جاسکتا ہے۔ 1962 کی جنگ جیتنے کے بعد اروناچل پردیش کی ریاست کو چین نے رضاکارانہ طور پر بھارت کو واپس کردیا تھا، لیکن اب لداخ تنازع کے بعد حالیہ دنوں میں سرحدی کشیدگی اور چین کا اروناچل پردیش کو بھارت کی ریاست ماننے سے انکار بلکہ اسے جنوبی تبت کا حصہ قرار دینا چین کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کا غماز ہے۔

اس سے قبل چین نے تبت کو قبضے میں تو لیا لیکن ہانگ کانگ، تائیوان اور جاپان کے ساتھ ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا اور ان تنازعات میں الجھنے کے بجائے ملکی ترقی اور سافٹ پاور کا امیج برقرار رکھا۔ لیکن حالیہ واقعات کو دیکھا جائے تو چین کی بدلتی خارجہ پالیسی اور وولف واریئر کی اصطلاح بدلتے چین کا نیا چہرہ ہے جو اپنے حق پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔

چین کے اس اعتماد کے پیچھے چین کا 2010 میں جاپان کو پچھاڑ کر دوسری عالمی معیشت بن جانے کا بھی ہاتھ ہے۔ اب چین نہ صرف معاشی معاملات میں بلکہ خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم ترین مہرہ ہے۔ افریقہ و روس سمیت چین کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بھی بہترین ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی پابندیوں کے پرواہ نہ کرتے ہوئے ایران کے ساتھ معاہدہ بھی چینی پالیسیوں کا نیا رخ ہے۔

چین کی نئی خارجہ پالیسی چین کےلیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے یا نہیں، لیکن یہ امر واضح ہے کہ چین اپنی سالمیت اور اپنے اداروں کے تحفظ کےلیے پہلے سے کہیں زیادہ پراعتماد ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار کنول

وقار کنول

بلاگر ایم فل ماس کمیونی کیشن کے طالب علم ہیں۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے بھی کیا ہوا ہے۔ مشاغل میں پڑھنا، فلمیں دیکھنا اور بالخصوص ادبی مطالعہ شامل ہیں۔ ان سے فیس بُک آئی ڈی waqar.kanwal.184 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔