دیوار برلن، حقیقت میں دیوار نفرت تھی

منور علی شاہد  منگل 15 ستمبر 2020
دیوار برلن اس دور کی ایک قابل نفرت یادگار ہے جس کو گرانے میں 28 سال لگے۔ (فوٹو: فائل)

دیوار برلن اس دور کی ایک قابل نفرت یادگار ہے جس کو گرانے میں 28 سال لگے۔ (فوٹو: فائل)

برلن کی سیر ہو اور دیوار برلن نہ دیکھی جائے یہ ممکن ہی نہیں۔ جرمنی کا دارالخلافہ برلن محض ایک شہر ہی نہیں بلکہ یہ اپنے اندر عروج و زوال کی ایسی عبرتناک تاریخ اور یادگاریں سموئے ہوئے ہے جو یقیناً نہ صرف سیاحوں بلکہ سیاستدانوں، صحافیوں اور تاریخ کے طالب علموں کےلیے انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں۔

یہ دیوار برلن اسی دور کی ایک قابل نفرت یادگار ہے جس کو گرانے میں 28 سال لگے۔ ان اٹھائیس برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جب انسانی المیہ رونما نہ ہوا ہو۔ اپنے پیاروں سے ملنے کےلیے دونوں اطراف کے لوگ صبح و شام دیوار پھلانگنے کا سوچتے اور ناکام کوششیں کرتے تھے۔ سات سال پہلے میں جب جرمنی پہنچا تو اس وقت بھی میرے ذہن میں جو واحد بات موجود تھی وہ دیوار برلن ہی تھی کہ اس کو ضرور دیکھنا ہے جس نے ایک ہی قوم کے ہزاروں، لاکھوں خاندانوں کا بٹوارہ کر رکھا تھا۔

برلن شہر ماضی و حال کا عجیب و غریب امتزاج ہے۔ برلن شہر آج اگر دنیا کے جدید ترین شہروں میں سرفہرست ہے تو کبھی یہ ویران کھنڈرات اور قبرستان کا منظر پیش کرتا تھا۔ تباہی و بربادی کی ایسی المناک تصویر تھی جس کی منظرکشی ممکن نہیں۔ ایک ایسا شہر جس کے مختلف حصوں پر کبھی غیر ملکی اقوام کا قبضہ تھا، اور شہر کا مکمل بٹوارا ہوچکا تھا۔ برلن کا مشرقی حصہ سوویت اتحاد جبکہ برلن کا مغربی امریکا، برطانوی اور فرانسیسی اتحاد کے کنٹرول میں تھا۔ یوں مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان دیوار برلن تعمیر کردی گئی تھی اور لوگ تقسیم ہوگئے تھے۔

ایک ہی خاندان کے لوگ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے ملنے سے قاصر تھے۔ آج بھی بچی کچھی دیوار برلن کے ساتھ اور اس کے ملحقہ علاقے کی سڑکوں، فٹ پاتھوں پر گھومتے پھرتے کہیں نہ کہیں دیوار برلن کی یادگار آپ کو ملے گی۔ کہیں زمین پر کندہ کی ہوئی کوئی تحریر، جملہ یا تاریخ لکھی ملے گی اور کہیں کچھ محفوظ کی ہوئی یا اس وقت کی کوئی یادگار۔ اگر آپ کے ساتھ مکمل معلومات رکھنے والا مقامی بندہ ساتھ ہے تو پھر آپ کا گھومنا پھرنا یقیناً گراں قدر معلومات میں اضافے کا باعث بنے گا۔

آج سے اکتیس سال پہلے جب مشرقی، مغربی جرمنی دونوں کا نیا اتحاد ہوا اور دنیا کے نقشے پر نیا جرمنی ابھرا تو یہ ایک بہت بڑی خبر تھی اور دنیا بھر میں اس کا خوب چرچا ہوا تھا اور ہر خاص و عام کی زبان پر دیوار برلن کا نام تھا۔ آج کی بڑی معاشی، اقتصادی طاقت جرمنی حقیقت میں دیوار برلن کے خاتمے کا مرہون منت ہے۔ دیوار کے انہدام ہی سے Germen reunification کی راہ ہموار ہونا ممکن ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 9 نومبر 1989 کو جب یہ اعلان ہوا کہ مشرقی جرمنی کے لوگ مغربی برلن اور مغربی جرمنی جاسکتے ہیں تو وہ لمحات اور مناظر انتہائی جذباتی قسم کے تھے جن کو جرمن تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے محفوظ کرچکی ہے اور کبھی بھی بھلا نہ پائے گی۔ گھنٹوں میں سیکڑوں لوگوں نے دیوار کو پھلانگنا شروع کردیا تھا اور مغربی برلن جا پہنچے تھے اور اگلے چند ہفتوں میں عوام نے دھاوا بول دیا اور نفرت کی دیوار کے مختلف حصوں کو توڑ دیا۔ اس کےلیے صنعتی آلات بھی استعمال کیے گئے تھے اور بالآخر دیوار مکمل طور پر توڑ دی گئی تھی۔ کچھ حصہ تاریخ کے طور پر محفوظ کرلیا گیا۔

دیوار برلن کو جرمنی زبان میں Berliner Mauer کہتے ہیں۔ اس کی تعمیر 13ا گست 1961 کو شروع ہوئی تھی اور 9نومبر 1989 کو اس تاریخی دیوار کے انہدام کا آغاز ہوا تھا جو 3 اکتوبر 1990 کو مکمل ہوا۔ یوں یہ تاریخی دیوار 28 برس، دو ماہ اور 27 دن تک مشرقی اور مغربی برلن کے درمیان ’’آہنی پردہ‘‘ کا کام کرتی رہی۔ دیوار برلن کے انہدام کی تقریب جو نومبر 1989 میں منعقد ہوئی تھی، میں سوویت یونین کے سابق رہنما میخائل گورباچوف نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔

دیوار برلن 155 کلومیٹر طویل تھی۔ 1952 میں پہلے باڑ لگائی گئی تاکہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کو مغربی جرمنی میں جانے سے روکا جاسکے۔ ناکام ہونے پر دیوار کی تعمیر شروع کرادی گئی تھی لیکن اس کی تعمیر کے آغاز تک لاکھوں لوگ مغربی جرمنی جاچکے تھے۔ 11500 سپاہی اس دیوار کی نگرانی کیا کرتے تھے اور ان کو حکم تھا کہ دیوار پھلانگنے کی کوشش کرنے والوں کو بلادریغ گولی ماری جائے۔ دیوار کے انہدام سے پہلے 136 افراد کو غیر قانونی طور پر دیوار عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ آج بھی 1361 میٹر دیوار یادگار کے طور پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی زمین، سڑک کے کناروں اور اردگرد بھی سیکڑوں کی تعداد میں اس دور کی یادگاریں موجود ہیں۔ اگر آپ اس علاقے میں جائیں اور گھومیں پھریں تو درجنوں جدید ترین بسیں نظر آئیں گی جو سیاحوں سے بھری ہوتی ہیں اور سیکڑوں کی تعداد میں سیاح نظر آئیں گے، جو دیوار برلن اور اس کی یادگاروں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ 1990 میں دنیا کے مختلف پینٹرز نے اس دیوار پر تاریخی پینٹ بھی کیا تھا، جو آج تک محفوظ ہے۔ 2014 میں دیوار برلن کے انہدام کے پچیس سال ہونے پر تاریخی جشن منایا گیا تھا۔ اس جشن کے مناظر برلن شہریوں کو آج بھی یاد ہیں۔ اس وقت جرمن چانسلر انجیلا مریکل نے تاریخی جملے کہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا ’’دیوار برلن کے انہدام سے ثابت ہوا ہے کہ خواب بھی حقیقت بن سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا ’’واقعات کو بھول جانا آسان ہے لیکن ان واقعات کو یاد رکھنا اہم ہے‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔