موٹر وے ٍزیادتی کیس؛ کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کریں، لاہور ہائی کورٹ

ویب ڈیسک / محمد ہارون  پير 14 ستمبر 2020
پولیس کوئی جواز پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے، جسٹس قاسم خان فوٹو: فائل

پولیس کوئی جواز پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے، جسٹس قاسم خان فوٹو: فائل

 لاہور:  

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے موٹروے واقعے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہر چیز ایک قانون کے تحت ہوتی ہے یہ کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کریں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے موٹروے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالتی حکم پر سرکاری وکیل نے واقعے کے لیے قائم حکومتی کمیٹی کا نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کیا.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کمیٹی بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے قانون میں واضح ہے، ہر چیز ایک قانون کے تحت ہوتی ہے ، یہ کمیٹی کمیٹی کھیلنا بند کیا جائے، کیا یہ تفتیش میں مداخلت نہیں، نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی واقعے کے محرکات کے بارے 3 دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی، بتائیں اس واقعے کی رپورٹ کیا ہے، یہ رپورٹیں ٹرائل کا حصہ ہی نہیں بن پائیں گی، مختاراں مائی کیس میں بھی کمیٹیاں بنی تھیں ، کیا ہوا اس کا؟کمیٹی میں ٹیکنیکل افراد کو شامل کرنا چاہیے تھا،ایسے افراد کو شامل کیا جاتا جو بتاتے کہ مستقبل میں کیسے ان واقعات سے بچا جاسکے۔

جسٹس قاسم خان نے صوبے میں امن امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سی سی پی او کو شوکاز دینا گونگلوں پر مٹی جھاڑنے والی بات ہے، جس شخص کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے اس کو بتایا تو جائے اس نے کیا خلاف ورزی کی ہے۔

عدالت کے روبرو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور ایک مرتبہ پھر متاثرہ خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرا گئے اور کہا کہ کامن سینس ہے کہ آپ 15 پر فون کرتے، 130 والے کو یا میجر صاحب ان چاروں کو 15 فون پر فون کرنا چاہیے تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خاتون کو کیوں فون کرنا چاہیے تھا؟ یہ ذمہ داری کسی سمجھدار آدمی تک چلی جاتی ہے، میجر صاحب کو کیوں 15 پر فون نہیں کرنا چاہیے تھا۔

سی سی پی او نے بتایا کہ اس واقعے کے مرکزی کردار عابد مہلی کے خلاف 3 مقدمات ہیں جس میں 2 ڈکیتی اور ایک زنا کا مقدمہ ہے، زنا کے مقدمے میں ملزم عابد مہلی راضی نامے پر بری ہوا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک زنا کار جس نے دوران ڈکیتی ریپ کیا، اب لوگ صلح کرکے ملزموں کو بری کروا دیں تو عدالتیں کیا کریں، ماورائے عدالت قتل کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی، ملزموں کو پکڑیں، شواہد اکٹھے کریں اور ملزموں کو سزائیں دلوائیں ، موٹر وے جیسے واقعات پر حکومتوں کو اپنی قوم سے معافی مانگی چاہیے، کسی کی بہو بیٹی کو سڑک پر سفر کرتے ہوئے خوف پیدا ہو گیا ہے وہ محفوظ تصور نہیں کرتیں۔ عمر شیخ نے اعتراف کیا کہ بدقسمتی سے موٹروے پر سکیورٹی نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے باور کروایا کہ پولیس کوئی جواز پیش کر کے اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ بڑے عہدے کے آدمی کو اپنی زبان کا استعمال بڑی احتیاط سے کرنا چاہیے، سی سی پی او آج کوئی ہو کل کوئی ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے، خاتون ساری زندگی اذیت کا شکار رہے گی، اداروں کے آپس میں جھگڑوں کی سزا عوام کو نہ دیں ، جہاں قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے وہاں اسمبلیوں کو کام کرنا ہے، گواہوں کے تحغفظ کیلئے کیا کیا ہے انہوں نے؟ کسی ایک گواہ ہو تحفظ دیا گیا؟ سسٹم کو بحال کرنا ہے، تحفظ دینا حکومت کے کام ہیں ، شاید ان کی اپنی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے ملزمان کو فوری گرفتاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سی سی پی او سے گینگ ریپ واقعے کی تفصیلی تحریری رپورٹ طلب کرلی، کیس کی مزید سماعت 16 ستمبر کو ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔