اردو کے ماخذات (پہلا حصہ)

سعد اللہ جان برق  منگل 15 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

سب سے پہلے توہوسکتاہے، عین ممکن ہے بلکہ یقینی ہے کہ بعض لوگ اس بات پرناک بھوں چڑھالیں کہ ایک پشتون، وہ بھی بہت دور دراز کا اجڈ دیہاتی ’’اردو کے ماخذات‘‘جیسے اہم اور علمی موضوع پرخامہ فرسائی کرے، اسے یہ حق کس نے دیاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حق ہمیں خود اردو نے دیاہے۔

اردو جو کسی کی زبان نہیں لیکن سب کی زبان ہے اور اس کا کوئی قانونی مالک یا میراث خور نہیں ہے۔کیونکہ معروف معنی میں یہ کوئی’’زبان‘‘نہیں بلکہ زبانوں کا سنگم اور ممجمع البحرین ہے۔

جولوگ اس کے اہل زبان کہلاتے ہیں یا خود کو کہلواتے ہیں وہ بھی چند صدیاں اوپر کسی اور ’’زبان‘‘کے ہواکرتے تھے جن میں تقریباً ہرزبان کے لوگ شامل ہیں اور ان لوگوں میں پشتونوں یا افغانوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے، میں تفصیلات میں جاکر ان سارے اردو ادیبوں کی نسلی تحقیق پر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اردو کے بڑے بڑے ادیبوں، عالموں اور شاعروں کے نام سب کے سامنے ہیں اور ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جو نسلاً لساناً اورنژادً پشتون ہیں۔اسی طرح دوسری اقوام اور زبانوں جیسے پنجابی،  سندھی بلوچی کشمیری اور عربی فارسی کے بھی تھے۔

اس کے بعد اصل موضوع پرآتے ہیں جن جن اقوام یا زبان والوں کا اردو پر دعویٰ ہے کہ اردو ان کی زبان سے نکلی ہے، وہ غلط بھی ہیں اور صحیح بھی۔غلط اس لیے کہ ’’اردو‘‘ ’’صرف‘‘ان کی زبان سے نہیں نکلی ہے، بہت ساری دوسری زبانوں کا بھی اس میں حصہ ہے اور یہی  بات ان کے دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بھی کافی ہے۔ اپنی بات ایک مرتبہ پھر دہراوں گا کہ اردو ’’زبان‘‘ نہیں بلکہ زبانوں کا سمندر ہے اور یہی تشبیہہ اسے دی جاسکتی ہے، سمندر میں ’’اپنا‘‘پانی نہیں ہوتا بلکہ بہت سارے نالوں، دھاروں، ندیوں اور دریاوں کا پانی آکر اکٹھا ہوتا  ہے اور اسے سمندر بناتاہے۔

اس لیے کہاجاسکتاہے کہ سمندر کا باپ بوند اور قطرہ ہے لیکن اگر کوئی قطرہ یا چلو یا نالہ یا ندی یا دریا پورے سمندر پر دعویٰ کرے تویہ ہرلحاظ سے غلط ہوگا۔اور اکثر لوگ یہی غلطی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو کا مآخذ صرف ان کی زبان ہے۔ اگر ’’مآخذ‘‘ سے مراد ’’بنیاد‘‘نہ لیاجائے تو بے شک یہ دعویٰ کرنے والی زبانیں ’’مآخذات‘‘میں سے ہوسکتی ہیں لیکن ’’واحد‘‘ ماخذ نہیں۔اب چلیے اردو کے مآخذات کا پیچھا کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم ابتدا اس لفظ ’’اردو‘‘سے کرتے ہیں جسے عام طور ترکی زبان کا لفظ بتایا اور سمجھا جاتا ہے۔

لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ یہ لفظ قدیم بابل کی اشوری یا نینوائی زبان کا ہے اور اس کے دو حصے ہیں۔ ایک’’اُر‘‘بمعنی شہر،بستی آبادی یا گھر کے۔جب کہ دوسرا حصہ ’’دو‘‘ ’’یدو‘‘ بمعنی غلام،نوکر، ملازم۔ اس خطے میں ’’نینوا‘‘کے قریب ایک بستی یا کیمپ بنایا گیاتھا جہاں اشوری بادشاہ اردگرد کے علاقوں سے لڑائی میں غلام بھی پکڑ کرلاتے تھے لیکن ان غلاموں یا جنگی قیدیوں کوایک ایک کیمپ میں رکھتے تھے اور اس کیمپ کانام ’’اریدو‘‘رکھاگیا تھا بمعنی غلاموں کا شہر یا بستی۔ ببلونیا سے متعلق اکثرکتابوں میں یہ بات آئی ہے جن میں ابن حنیف کی دنیا کاقدیم ترین ادب،بھولی بسری کہانیاں اور داستان گل گامش کے علاوہ دیگر تحریریں بھی شامل ہیں۔

جب کہ سیدقاسم محمود کی بیش بہا تالیفات،آدم وآدمیت ، دجلہ وفرات وغیرہ میں بھی ذکر ہیں۔ اردو کے ان دو علماء نے بے شمار انگریزی وغیرہ کی تالیفات سے استفادہ کرکے اپنی تالیفات مرتب کی ہیں۔ لفظ ’’ار‘‘(ur) کا لسانی تجزیہ ہم کریں جو (ar) اور (ur)دونوں شکلوں میں شہر یا بستی یا گھر کے لیے استعمال کیاجاتا رہاہے۔ دجہ وفرات میں اریدو کے علاوہ ارویک، ارغو،اردیک نام کے شہروں میں اس کا مادہ موجود ہے۔یاد رہے کہ علم الاشتقاق یا آئٹمالوجی میں لفظ کا بنیادی مادہ لیاجاتاہے، اضافتیں یا علتیں یعنی زیر،زبر،پیش شمار نہیں کیے جاتے۔ یوں یہ لفظ ’’ار‘‘ ہندیورپی نژاد زبانوں میں ’’آر‘‘ کی شکل میں انھی معنی میں موجود ہے،جیسے قندہار، ننگرہار پوٹھوہار یا پھر ’’گند۔ ہار۔یعنی خوشبوں کی سرزمین یا خطہ یا علاقہ یا بستی شہر ۔ خود لفظ ’’شہر‘‘ بھی ’’شہ ہار‘‘ہے۔

بات ایک اور جہت میں چلی جائے گی ورنہ اس’’آر‘‘کا پیچھا کرتے کرتے ہم ہار۔یا ہر کے الفاظ تک پہنچتے ہیں جوگھر اور بستی کوکہتے ہیں۔ یہ ہار یا ہر وہی ہے جو ایک اور لہجے میں ’’غر یا ’’غار‘‘ ہوجاتے ہیں اور گر،گار،گری بھی۔جو ’’گھر‘‘کے معنی دیتاہے اور چونکہ قدیم زمانے میں ان سب کا گھر ’’پہاڑ‘‘ تھا اس لیے سارے الفاظ ’’پہاڑ‘‘کے معنی بھی دیتے ہیں یعنی ’’گھر‘‘ پہاڑ تھا۔ پشتو میں پہاڑ کو غر کہتے ہیں جو غار بھی ہے۔ یہی لفظ ہے جس سے بہت ساری اقوام کا تعلق ہے جوکہیں گری، کہیں گوری اور کہیں غری، غوری ہیں۔

’’ہن‘‘لوگ جب یورپ کی طرف نکلے توانھوں نے جو پہلی بستی قائم کی وہ ’’ہن گری‘‘(موجودہ ہنگری‘‘ تھی لیکن یہ ’’گری‘‘ پھر آگے غراد اور گراڈ میں بھی بدل گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سامی زبان عربی میں بھی اس کی شکل قر، قریہ،مستقر یعنی قرار اور ٹھہرنے یا رہنے کی جگہ مردا لی جاتی ہے۔بہت زیادہ قدیم زمانوں میں جب انسانی مخرج(ووکل سسٹم) ابھی کھردرا اور ابتدائی مرحلے میں تھا، اس کی شکل ’’اڑ‘‘کی تھی۔جو پشتو میں اب بھی زمین یا روک ٹکنے کی جگہ کوکہتے ہیں۔ ’’اڑتاو‘‘ اڑتول،اڑتو کا مطلب ہے پھینکنا اور پھینکے یا نیچے ٹکنے کا مقام ’’اڑنہ‘‘یعنی زمین کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ اردو میں بھی اس کی ایک شکل آڑ،اڑنا ، اڑا،اڑت پڑت استعمال ہوتاہے۔

پشتو میں ’’اڑول‘‘زمین جوتنے کے لیے آج بھی مستعمل ہے اور علم الاشتقاق کا ایک اصول یہ بھی ہے۔جولفظ اپنی اصلی شکل میں جس زبان میں موجود ہو، وہ اسی زبان کا ہوتا ہے اور دوسری زبانوں میں اس کے اشتقاقات مجازی اور اصطلاحی ہوتے ہیں۔ زبانوں کے دوسرے مرحلے میں جب انسانی مخرج صاف ہوگیا تو اس ’’اڑ‘‘کا ار ہوگیا۔ وہی’’ار‘‘جو ہم انگریزی ’’ارتھ‘‘ اور عربی ’’ارض‘‘میں دیکھتے ہیں۔

اس مرحلے میں پشتو کے اندر بھی تبدیلی نظرآتی ہے۔ لفظ’’ار‘‘ہوجاتاہے جس سے لفظ ارت ارتہ آرت بمعنی وسیع پھیلا ہوا اور چوڑا نکلتے ہیں۔عربی عرض یا عریض کے معنی میں۔ بات دوسری طرف میرے نہ چاہتے ہوئے نکل رہی ہے، بہرحال حرف آخر یہ کہ پشتو میں لفظ’’ارت‘‘نہ صرف وسعت اور فراخ کے معنی میں مستعمل ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔