انصاف کا ترازو

محمد عنصر عثمانی  بدھ 16 ستمبر 2020
پاکستان میں انصاف کی بروقت فراہمی آج بھی ایک سوال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں انصاف کی بروقت فراہمی آج بھی ایک سوال ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’صاحب! میرا نام عارف ہے اور یہ میرا بھائی اکرم ہے۔ ہم لوگ اپنا سارا مال مویشی بیچ کر آئے ہیں اور اب ہمارے پاس گاؤں واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں ہم والد کا علاج کیسے کرائیں گے؟ ظالموں نے تو ہماری ساری جمع پونجی چھین لی ہے۔ ہمارے بوڑھے باپ نے منتیں کیں، پاؤں پکڑے، ہاتھ جوڑے۔ لیکن پتھر دل انسانوں کو ترس نہ آیا۔‘‘ یہ 2011 کا واقعہ ہے۔ ان دیہاتیوں کا بوڑھا باپ جسے بیماری نے سوکھا پتا بنادیا تھا، فٹ پاتھ پر بیٹھا کھانس رہا تھا اور کھانس کھانس کر بوڑھے کی حالت غیر ہورہی تھی۔ اس کی جھریوں بھری آنکھوں سے بہنے والے سیلاب میں مجھے اس کے سارے خواب بہتے نظر آرہے تھے۔

میں نے ان بھائیوں سے ماجرا پوچھا تو وہ والد کو دیکھتے ہوئے نم ناک آنکھوں سے بولا: ’’ہمارا گاؤں پنجاب کے پسماندہ علاقے میں ہے، ہم بہت غریب ہیں، دونوں بھائیوں کا زراعت سے گزر بسر ہوتا ہے۔ ہمارے والد کو دمہ اور ٹی بی کی بیماری ہے۔ وہاں کے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ کراچی لے جاؤ، وہاں اچھے اسپتال ہیں، قابل ڈاکٹر ہیں وہاں ان کا علاج اچھا ہوگا۔ ہم نے اپنے مویشی بیچے اور والد کو یہاں لے آئے۔ بس اڈے سے تھوڑا آگے ہمارے رکشے کو کچھ پولیس والوں نے روکا اور تلاشی کی آڑ میں ہمارے پیسے ماہرانہ انداز میں نکال لیے۔ ہم نے اسے روٹین چیک سمجھا۔ لیکن جیسے ہی ہم لوگ واپس رکشے میں بیٹھے تو ایک پڑھے لکھے آدمی نے ہمیں توجہ دلائی کہ اپنی رقم دیکھ لو۔ ہم نے رقم دیکھی تو وہ موجود نہیں تھی۔ ہم ان پولیس والوں کے پاس گئے اور اپنے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے الٹا ہمیں زودکوب کیا، دھمکیاں دیں اور یہ کہہ کر تشدد کیا کہ کیا ہم تمہیں چور و ڈاکو نظر آتے ہیں‘‘۔

اس کہانی کی طرف دوبارہ آتے ہیں، پہلے یہ پڑھ لیجیے۔ ایک دوست جو کئی سال سے روزگار کےلیے پریشان تھا، اس کی پولیس میں نوکری لگ گئی۔ پوسٹنگ کے تین چار ماہ بعد ملاقات ہوئی تو وہ بڑا خوش اور زندگی سے مطمئن نظر آیا۔ اب پہلے والی فقیرانہ چال ڈھال میں سرکاری اکڑ اور وردی کا رعب آگیا تھا۔ سرکاری نوکری کا ایک فائدہ تو یہ بھی ہے کہ بندہ خود کو معززین کی فہرست میں شامل سمجھتا ہے اور آسمانوں کا فرشتہ سمجھنے لگ جاتا ہے۔ زمین والوں سے اس کا تعلق رسمی اور انسانی ہوتا ہے۔ اس بے تکلف دوست نے بتایا کہ اب دونوں ہاتھ مع دس انگلیوں کے گھی کی دیگ میں ہیں۔ چار ماہ سے تنخواہ کا ایک روپیہ خرچ نہیں کیا۔ گھر کا چولہا اور دوسرے لوازمات صاحب لوگوں کی مرہون منت وافی اور کافی پورے ہورہے ہیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس میدان میں بندے کو ’’جی جی‘‘ کا ورد کرتے رہنا چاہیے اور کامیابی اور بقائے نوکری کےلیے اوپر والوں کی ہاں میں ہاں ملانی ہوتی ہے۔ تیل اور تیل کی دھار کے ساتھ اگر چلتے رہے تو دنیا بھی آپ کی اور دنیا والے بھی۔

چین کے عظیم مفکر کنفیوشس نے کہا تھا اور بالکل ٹھیک کہا تھا ’’اگر ناانصافی کھلا سانڈ بن گئی تو لوگ عزت نہیں کریں گے، بلکہ گالیاں دیں گے اور دھتکاریں گے‘‘۔ اگر عوام کو مطیع و فرمانبردار بنانا ہے اور ان کے دلوں میں عزت و تکریم کے بیج بونے ہیں تو انھیں انصاف دینا ہوگا۔ ایسے ایماندار لوگ ہر شعبے میں لے کر آنے ہوں گے جو اپنی کوتاہیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوکر خود کو بھی ملزم سمجھیں۔ یہ نہ ہو کہ الٹا مقتول سے سوال کرنے لگ جائیں کہ تم قتل ہی کیوں ہوئے تھے اور تمہیں ضرورت ہی کیا تھا آلہ قتل کے سامنے آنے کی؟

اگر پولیس کے محکمے میں یہ احساس ندامت جاگ جائے کہ اس محکمے کی تاریخی بنیادیں اس عظیم انسان نے رکھی تھیں جسے عدل و انصاف کا پیکر کہا جاتا ہے اور جس کے عدل و انصاف کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ شاید کہ اس محکمے کی کل کو یہ احساس سیدھا کردے۔ اس محکمے کی ابتر حالت میں سدھار کا جو خیال پیدا ہوا ہے اس کی حقیقی صورت ہماری کون سی نسل دیکھے گی؟

عارف اور اکرم کی کہانی نئی نہیں اور نہ ہی موٹر وے واقعے جیسے دردناک سانحات کوئی پہلی بار وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ یہ الف لیلوی داستان ہے جس کا سرا تو ہے مگر انتہا نظروں سے اوجھل ہے۔ یہ ہمارے جیسے عوام کےلیے اس دوا کی طرح ہیں جسے صبح، دوپہر، شام ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لینا ہے۔ عوام کے محافظوں کا موٹروے واقعے پر غیر ذمے دارانہ کردار و اقوال سے عوام کے دلوں میں انصاف کی بلاتفریق فراہمی پر شک کو جگہ ملتی ہے۔ کئی سانحات کی ایک طویل داستان سے بھی ہمارے نظام انصاف کا سر نہیں جھکا۔ ویسے تو بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ دنیا کا صاف وشفاف عدالتی نظام ہمارے پاس ہے۔ ہر جگہ یہی ڈگڈگی بجائی جاتی ہے کہ انصاف کے سارے اسٹاک کے ہم مالک ہیں اور اب کسی کے ساتھ ناانصافی کا کوئی تصور بھی نہ کرے۔ قانون کی حاکمیت لازمی ہوگی اور لاقانونیت کا گلا دبا دیا جائے گا۔ مگر پھر ایک جھنجھوڑ دینے والا سانحہ ہوجاتا ہے اور عوام کو یاد آتا ہے کہ انصاف کا ترازو تو عنقا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عنصر عثمانی

محمد عنصر عثمانی

بلاگر جامعہ کراچی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے کرچکے ہیں۔ صحافت اور کالم نگاری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ اسلام پسند قلم کاروں کی تنظیم کے صوبائی عہدیدار ہونے کے علاوہ ایک مقامی روزنامہ میں مارکیٹنگ ایگزیکٹیو کے عہدے پر فائز ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔