پنجاب کابینہ میں تبدیلیوں کا آغاز، کارکردگی بہتر بنانے کا موقع

رضوان آصف  بدھ 16 ستمبر 2020
پنجاب کابینہ جو کہ 45  وزراء اور معاونین و مشیروں پر مشتمل ہے اس کی اکثریت ناکارہ اور بے فائدہ ثابت ہوئی ہے۔ فوٹو : فائل

پنجاب کابینہ جو کہ 45 وزراء اور معاونین و مشیروں پر مشتمل ہے اس کی اکثریت ناکارہ اور بے فائدہ ثابت ہوئی ہے۔ فوٹو : فائل

 لاہور:  پنجاب حکومت کی کارکردگی کو تنقید کی سونامی سے نکال کر عوامی امیدوں سے ہمکنار کرنے کا معاملہ وزیر اعظم عمران خان کیلئے بہت سنجیدہ ہو گیا ہے۔

گزشتہ دو برس کے دوران انہوں نے پنجاب میں وسیع پیمانے پر انتظامی افسروں کے تبادلوں کے ذریعے مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے ہیں ۔

پنجاب کابینہ جو کہ 45  وزراء اور معاونین و مشیروں پر مشتمل ہے اس کی اکثریت ناکارہ اور بے فائدہ ثابت ہوئی ہے۔دو درجن کے لگ بھگ وزراء تو اپنے محکموں کیلئے بھی ’’لاپتہ‘‘ ہیں اور ان کا تمام زور صرف جھنڈے والی گاڑی اور پروٹوکول کے مزے لینے تک محدود ہے،گزشتہ کئی ماہ سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ وزیر اعظم پنجاب کابینہ میں تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار انہیں وزراء کی کارکردگی رپورٹ سے مسلسل آگاہ کرتے رہے ہیں۔

خود عمران خان نے متعدد بار کابینہ ارکان کو کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مہلت دیتے ہوئے سخت وارننگ بھی دی لیکن جو نکمے تھے وہ نکمے ہی رہے۔ دو روز قبل وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر اعلی نے دو وزراء کے قلمدان تبدیل کرنے کے ساتھ کابینہ میں مرحلہ وار تبدیلیوں کا آغاز کردیا ہے۔

ملک نعمان لنگڑیال سے زراعت کا قلمدان واپس لیکر حسین جہانیاں گردیزی کو سونپ دیا گیا ہے اور حسین جہانیاں گردیزی کے پاس موجود محکمہ ایم پی ڈی ڈی کا قلمدان نعمان لنگڑیال کو دے دیا گیا ہے۔ملک نعمان لنگڑیال پر جہانگیر ترین کی گہری چھاپ ہونے کی وجہ سے وہ اس وقت سے مسائل کا شکار تھے جب سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے تعلقات خراب ہوئے۔

عمران خان اور سردار عثمان بزدار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پونے دو سال تک پنجاب میں زراعت کے حوالے سے نعمان لنگڑیال کی اپنی کاوشیں اور وزارتی کارکردگی غیر نمایاں رہی اور وہ صرف جہانگیر ترین کے زیر سایہ آگے بڑھتے رہے۔ نعمان لنگڑیال ضلع ساہیوال کے ایک بڑے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں اس طرح اچانک سے غیر اہم وزارت دینا آگے چل کر نئے سیاسی مسائل کا سبب بن سکتا ہے اور اگر ان کے قریبی عزیز چیئرمین پامرا نوید بھنڈر کو بھی تبدیل کیا جاتا ہے تو پھر صورتحال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔

سید حسین جہانیاں گردیزی ایک جہاندیدہ سیاستدان ہیں , وہ میاں منظور وٹو، سردار عارف نکئی، چوہدری پرویز الہی کی کابینہ میں بھی وزیر کی حیثیت سے شامل رہے ہیں جبکہ زراعت کے ساتھ ان کی پیدائشی وابستگی ہے ان کے والد محترم معروف کسان تھے اور خود حسین جہانیاں گردیزی ’’فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان‘‘ کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔ان کے آنے سے پنجاب میں محکمہ زراعت کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔

پنجاب کابینہ میں مزید تبدیلیاں بھی ہونی ہیں ،چند وزیروں کو فارغ کرنے اور کچھ کے محکمے تبدیل کیئے جانے کا قوی امکان ہے جبکہ سب سے اہم یہ کہ لاہور سے رکن اسمبلی اور سابق وزیر وائلڈ لائف ملک اسد کھوکھر کو دوبارہ کابینہ میں شامل کیئے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

ملک اسد کھوکھر نے مختصر وقت میں تحریک انصاف اور حکومت میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔وہ سردار عثمان بزدار کے قابل اعتماد ساتھیوں میں شمار کیئے جاتے ہیں جبکہ محکمہ جنگلی حیات جیسے نظر انداز شدہ اور وسائل سے محروم محکمے کو انہوں نے چند ماہ کے دوران بھرپور طریقہ سے متحرک کر دیا تھا۔

چند ہفتے قبل لاہور رنگ روڈ کے ایک میڈیا سکینڈل کی وجہ سے کمشنر لاہور آصف بلال لودھی اور سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب اکبر کو صوبہ بدر کیا گیا تو اس معاملے میں نام آنے پر ملک اسد کھوکھر نے رضاکارانہ طور پر استعفی دے دیا تھا تاکہ شفاف تحقیقات ہو سکیں۔

ذرائع کے مطابق تمام ایجنسیوں نے اپنی رپورٹس میں ملک اسد کھوکھر کو رنگ روڈ معاملے میں کلیئر قرار دے دیا ہے جس کے بعد اسد کھوکھر کو دوبارہ کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے اور انہیں اہم وزارت دیئے جانے کا امکان ہے۔ اس سے قبل بھی پنجاب کابینہ کے متعدد وزراء کچھ عرصہ کیلئے مستعفی ہو چکے ہیں۔

نیب کی جانب سے گرفتاری کے فوری بعد عبدالعلیم خان نے سینئر وزیر کے عہدے سے استعفی دیا تھا اور اب انہیں دوبارہ شامل کیا گیا ہے، سبطین خان بھی گرفتاری کے بعد مستعفی ہوئے اور اب دوبارہ واپس آئے ہیں۔

وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اقلیتوں بارے ایک متنازعہ بیان دیا تو ان سے استعفی لیا گیا پھر کچھ عرصہ بعد انہیں دوبارہ وزیر کالونیز کی حیثیت سے شامل کیا گیا اور پھر انہیں اطلاعات کا قلمدان سونپ دیا گیا۔

کابینہ کی اجتماعی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 35 وزراء میں سے بہترین کارکردگی والے چند وزراء ہی ہیں جن میں سینئر وزیر عبدالعلیم خان، وزیرقانون راجہ بشارت، وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت، وزیر صنعت میاں اسلم اقبال، وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید، وزیر ایکسائز حافظ ممتاز احمد، وزیر توانائی ڈاکٹر اختر ملک شامل ہیں۔

تحریک انصاف کے بارے میں گزشتہ دس برس سے دو باتیں کہی جا رہی ہیں اور دونوں ہی آج تک درست ثابت ہوئی ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت کی بجائے لوگوں کے ہجوم کا نام ہے اور دوسری بات یہ کہ تحریک انصاف اکھاڑے میں کھڑا وہ پہلوان ہے جسے گرانے کیلئے کسی دوسرے پہلوان کی ضرورت نہیں بلکہ یہ خود اپنے وزن سے ہی گر جاتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر قیادت کو ’’یرغمال‘‘ بنانے کیلئے پریشر گروپس بنائے جاتے ہیں اور اگر کوئی ایسا رہنما پارٹی میں شامل ہوجائے جو قیادت کو ’’آزاد‘‘ کروانے کیلئے متحرک ہوجائے اور قیادت بھی اس کی رائے کو اہمیت دینا شروع کردے توپھر تمام ’’وار لارڈز‘‘مشترکہ اور متفقہ طور پر یک نکاتی ہدف کے طور پر نئے رہنما کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں۔ یہی صورتحال عبدالعلیم خان کی ہے، تحریک انصاف لاہور کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی شہباز شریف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔3 مرتبہ مینار پاکستان میں بڑے پارٹی جلسے کامیابی سے منعقد کیئے۔

لانگ مارچ کا لاہور سے کامیاب آغاز کروایا،لاہور کی تاریخ کا سب سے موثر لاک ڈاون بھی علیم خان کی کریڈٹ لسٹ پر ہے لیکن سب سے اہم یہ کہ بطور صدر سنٹرل پنجاب انہوں نے پہلی مرتبہ کارکنوں اور عمران خان کو ایک جگہ ملاقات کا موقع دیا ،چیئرمین سیکرٹریٹ میں ہونے والا یہ ایونٹ آج بھی ورکرز کو جوش دلاتا ہے۔سینئر وزیر کے طور پر بھی علیم خان کی کارکردگی دیگر وزراء کے مقابلے نمایاں رہی ہے۔

اپنی وزارت کے پہلے دور میں بطور سینئر وزیر و وزیر بلدیات  نئے بلدیاتی نظام کا تمام ڈھانچہ انہوں نے ہی تیار کروایا تھا اس کے ساتھ ساتھ وزیرا عظم کے 100 روزہ پروگرام کے لئے انہوں نے 30 دن میں 10 سے زائد صوبائی محکموں کے 60 سے زائد اجلاس منعقد کیئے تھے لیکن شاید ان کی یہی محنت ان کی’’خامی‘‘ بن گئی اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کو بعض  شر پسند اور سازشی افراد نے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ان کی وزارت اعلی کیلئے سب سے بڑا خطرہ علیم خان ہی ہے۔

اس وجہ سے تعلقات خراب ہوئے اور اب جبکہ وزیر اعظم نے سردار عثمان اورعلیم خان کے درمیان اپنی موجودگی میں تجدید تعلقات کروائی تو پہلے چند ماہ بہت خوشگوار تعلقات رہے لیکن اب پھر پرانے سازشی عناصر متحرک ہو کر دونوں کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا ایک ثبوت یہ  ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کی تیاری میں چھ ماہ تک بھرپور محنت کرنے والے عبدالعلیم خان کو  بلدیاتی الیکشن کیلئے بنائی گئی کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان  چاہتے ہیں کہ عثمان بزدار اور علیم خان میں اب دوریاں پیدا نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔