پاکستانی کوششوں سے افغانستان میں امن کی اُمید پیدا ہوگئی

ارشاد انصاری  بدھ 16 ستمبر 2020
حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوامی توقعات پوری نہیں ہو پا رہیں۔ فوٹو : فائل

حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوامی توقعات پوری نہیں ہو پا رہیں۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد:  اس ہفتے کے اختتام پر دنیا بھر کی نگاہیں خلیجی ریاست قطر کے دارلحکومت دوحا پرلگی ہوئی تھیں جہاں کئی ماہ کی تاخیر کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن مذاکرات شروع ہوئے۔

افتتاحی تقریب میں طالبان نمائندوں، کابل انتظامیہ کی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت کئی ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اسے تاریخی موقع قرار دیا اور کہا کہ طالبان دہشت گرد عناصر کی میزبانی نہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں، مذاکرات کے دوران بلاشبہ چیلنجز آئیں گے تاہم فریقین امن کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، اسی سے دیرپا امن ممکن ہے۔

طالبان کے سیاسی چیف ملاعبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ وہ پرامن، مستحکم، آزاد افغانستان کے لیے پرعزم ہیں، مستقبل کے افغانستان میں اسلامی نظام ہوناچاہیے جب کہ مذاکرات میں مشکلات آسکتی ہیں تاہم انہیں جاری رہنا چاہیے۔ افغان امن کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے ملک کے تمام حصوں میں انسانی بنیادوں پر سیز فائرکامطالبہ کیا اور کہا کہ امن معاہدے کے بعد بھی بین الاقوامی معاونت کی ضرورت ہوگی۔

بین الافغان مذاکرات پر قطری وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ افغان امن معاہدہ کسی ہار جیت کے بغیر ہونا چاہیے، قطر افغان امن مذاکرات میں تعاون کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گا۔ اس حوالے سے چینی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ کسی بیرونی طاقت کو افغان امن عمل میں رکاوٹ نہیں بنناچاہیے جبکہ ترک وزیرخارجہ نے مذاکرا ت کی میزبانی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ افغان امن مذاکرات کے مرحلے کی میزبانی کرکے خوشی ہوگی۔

دوسری جانب طالبان امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لئے پاکستان کی کوششوں کو امریکہ اور پوری دنیا نے تسلیم کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور بین الافغان مذاکرات ہماری مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے جبکہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام نے ہی کرنا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے انتھک کوششوں کے ذریعے افغان امن عمل کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مشترکہ کوششوں سے وہ دن آن پہنچا جس کا افغان عوام کو انتظار تھا۔ 40 سال سے افغان عوام تنازعات اور خون ریزی سے دوچار تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی و مالی نقصان اٹھایا، شروع دن سے میرا یہی موقف تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں۔ اس کا واحد حل مذاکرات اور سیاسی تصفیہ ہے۔

دوسری جانب ہمارا ہمسائیہ ملک بھارت بھی ان مذاکرات پر کافی خوش نظر آتا ہے۔ شاید اسی لیے افغان حکومت اور طالبان کے مابین قطر میں جاری مذاکرات کی آن لائن افتتاحی تقریب میں بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی حصہ لیا اور انہی کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ اس وقت قطر کے دارالحکومت میں بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

تاریخی طور پر طالبان کی پاکستان کے ساتھ قربت ہے اور بھارت، پاکستان کے سرد تعلقات کوئی راز کی بات نہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے کل ایک ٹویٹ کی گئی جس میں انھوں نے طالبان رہنما اور امریکی زیر خارجہ مائیک پومپیو کی تصویر پر تبصرہ کرتے ہو کہا کہ طاقتیں تمھاری ہیں اور خدا ہمارا ہے جس پر سوشل میڈیا پر خواجہ آصف کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

یاد رہے مسلم لیگ (ن) کے گذشتہ دورِ حکومت میں خواجہ آصف پاکستان کے وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ اس بیان پر دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی ردعمل دیا وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹویٹ کیا ’اور یہ صاحب پاکستان کے وزیرِ دفاع اور وزیرِ خارجہ تھے۔‘پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے لکھا ’قاتل طالبان کی اس طرح سے تعریف سمجھ سے باہر ہے۔‘عوامی ورکرز پارٹی کی بشری گوہر بھی ان سے پوچھتی نظر آئیں ’خواجہ صاحب، کوئی شرم؟ کوئی حیا؟‘پاکستان عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک لکھتے ہیں ’دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔

پہلی یہ کہ افغانستان پر طالبان مسلط کرنے والے پاکستان میں ان کے اقتدار کو ٹینکوں اور بمبار جہازوں کے ذریعے روکنے کی حمایت کیوں کرتے رہے ہیں؟دوسری یہ کہ ٹی ایل پی، ملی مسلم لیگ وغیرہ کے ذریعے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹا جانا اورانتخابات میں ہرایا جانا بھی اسی طرح جائز تھا؟‘اسی دوران سنہ 2017 میں نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خواجہ آصف کے خطاب کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا تھا ’تحریک انصاف اور ہم میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ سیاسی اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے ہم بہت لبرل ہیں جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کا جھکاؤ مذہبی طبقات کی طرف ہے۔

پاکستان کی کے لیے (ایف اے ٹی ایف) کا اہم فیصلہ ہونا والا ہے۔ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اپنا کیس تیار کرنے میں مصروف ہے۔ جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کر لیا تھا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان پر یہ جاننے کے لیے مسلسل نظر رکھی جائے گی کہ وہ دہشتگردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے کیا عملی اقدامات کر رہا ہے۔

پاکستان کو ضروری اقدامات کے لیے اکتوبر 2019 تک کا وقت دیا گیا تھا جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ فروری 2020 میں ایف اے ٹی ایف نے تسلیم کیا تھا کہ پاکستان 27 مطالبات میں سے 14 پر عملدرآمد کیا ہے، تاہم تنظیم نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ ہی میں رکھا کہ اس حوالے سے کئی شعبوں میں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

اب 14 سے 21 ستمبر کو ہونے والی ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ باقی 13 معاملات پر پاکستان نے کتنی پیش رفت کی ہے۔ اس کے بعد اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ ہو گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ ہی میں رکھا جائے یا وائٹ لسٹ میں شامل کر لیا جائے۔ اب تک ترکی، ملائیشیا اور چین کی حمایت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے باہر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں اپنے کردار کی وجہ سے بھی یہ امید ہے کہ اگلے اجلاس میں امریکہ پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔اطلاعات ہیں کہ گذشتہ اجلاس میں امریکہ نے سعودی عرب کو پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ واپس لینے پر قائل کیا تھا۔ اگر سعودی عرب اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دے دیتا تو پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل جاتا اور یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہوتی۔

حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوامی توقعات پوری نہیں ہو پا رہیں سرکاری ادارے پاکستان بیورو آف شماریات کے جاری کردہ ہفتہ وار اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود ملک میں مہنگائی پر قابو نہیں کیا جاسکا۔

رپورٹ  کے مطابق ایک ہفتے میں 6 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے جبکہ  گھی، گْڑ، تازہ دودھ اور دہی سمیت 22 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایل پی جی کا ساڑھے 11 کلو کا گھریلو سلنڈر8 روپے مہنگا ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی اوسطاً فی کلو قیمت 33 پیسے کمی آئی جب کہ ٹماٹر5 روپے فی کلو ،لہسن 6 روپے، آلو 69 پیسے اور پیاز 28 پیسے فی کلو سستا ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔