پولیس، سسٹم اور ہم

سالار سلیمان  جمعرات 17 ستمبر 2020
اس کیس میں پولیس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ (فوٹوَ: انٹرنیٹ)

اس کیس میں پولیس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ (فوٹوَ: انٹرنیٹ)

گزشتہ دنوں موٹروے پر ہونے والی واردات نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ تصور بھی محال ہے کہ کسی کی ماں کی عزت اس کے اپنے بچوں کے سامنے لٹ جائے اور وہ اپنے بچوں کی خاطر بے بس ہو۔ اور یہ ماں بھی وہ ہو جو فرنگی دیس چھوڑ کر پاکستان میں اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کےلیے آئی ہو۔

کیا ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ عورت، اس کے بچے، اس کا شوہر اور اس کی دیگر فیملی کس قدر شدید ٹراما سے گزر رہے ہوں گے۔ یہ تو ان کے ساتھ حادثہ ہوا اور پھر رہی سہی کسر سوشل میڈیا بریگیڈ، پولیس اور اس سسٹم نے پوری کردی۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی دانشور بنا ہوا ہے۔ لائیکس کے چکر میں الٹی سیدھی تحریریں گردش کررہی ہیں۔ کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ یہ حرکتیں متاثرہ فیملی کے ذہنی دباؤ میں کس حد تک اضافے کا باعث بنیں گی؟ تجزیہ کرنا ہے تو پہلے حقائق دیکھیں، اس کے بعد اپنے قلم کو حرکت دیں اور غیر جانبدار ہوکر صرف اور صرف حقائق کی روشنی میں بات کریں۔

لاہور میں جس جگہ پر یہ وقوعہ ہوا، وہ ایک ویرانہ ہے اور اطراف میں چھوٹا سے جنگل بھی ہے۔ یہ جنگل گزشتہ دور حکومت میں خود اگایا گیا تھا تاکہ علاقے کو فائدہ حاصل ہوسکے۔ فائدہ کیا حاصل ہونا تھا، یہ جنگل چور اچکوں اور ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن گیا۔ جب یہ علاقہ نوگو ایریا بنا تو یہاں پر پولیس آپریشن کیا گیا اور اس کو جرائم سے پاک کیا گیا۔ سینئر صحافی رضوان رضی کے مطابق اس کے بعد یہاں پر ایک پولیس چوکی بھی قائم کی گئی جو شاید 7 یا ۸ سال تک رہی اور پھر آج سے لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلے ختم ہوگئی۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے وہ علاقہ جس کو کرمنلز سے پاک کیا گیا تھا اور پھر پولیس چوکی قائم کی گئی تو یہ پولیس چوکی کیوں ختم ہوئی؟ یہ کس نے ختم کروائی؟

وقوعہ کے بعد پولیس کی تفتیش خود سے ایک مذاق ہے۔ ابھی جب وزیراعلیٰ نے اس مسئلے پر پریس کانفرنس کی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رونا چاہیے کہ ہنسنا چاہیے۔ جب یہ جرم ہوا، پولیس پر عوامی پریشر بنا تو پھر اس پر کام کا آغاز ہوا۔ اس ضمن میں نادرا سے ڈیٹا لیا گیا، موبائل کمپنیوں سے ریکارڈ لیا گیا اور میں اپنے گمان کے حد تک یقین سے کہتا ہوں کہ اس ڈیٹا کا سائنٹیفک تجزیہ نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو محض سم کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر مجرموں کا تعین نہ ہورہا ہوتا۔ کیا پولیس کی اس حرکت پر وقارالحسن بدنام نہیں ہوا، جس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ اس کا سالا یہ سم استعمال کرتا ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق وہ سالا عادی مجرم ہے اور اب سالے صاحب غائب ہیں۔ دو میں سے ایک مجرم نے تو خود ہی گرفتاری دے دی۔ یہ بھی تب ہوا جب عورت کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے کا فرانزک ہوا تو پہلے سے موجود ڈیٹا ریکارڈ سے ایک ڈی این اے میچ کرگیا۔ لیکن پولیس اس کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہی اور اس مجرم نے خود ہی گرفتاری دے دی۔ وہ اب ریمانڈ پر جیل میں ہے اور اس کی شناخت پریڈ ہونا باقی ہے۔

اس سارے معاملے میں پولیس نے کیا کیا ہے؟ جیو فینسنگ اور دیگر سائنٹیفک طریقوں سے وہ دوسرے مجرم تک کیوں نہیں پہنچے؟ اور مجھے کوئی یہ بتا دے کہ یہ کیسی تفتیش ہے کہ جب مجرم کو گرفتار کرنے پولیس جاتی ہے تو وہ اپنی فیملی سمیت کھیتوں سے فرار ہوجاتا ہے۔ یعنی یا تو کوئی مجرم کو انفارمیشن دیتا ہے اور وہ پولیس کے آنےسے پہلے ہی فرار ہوجاتا ہے۔ ایسا کوئی اندر کا بندہ ہی کرسکتا ہے اور یا پھر پولیس کی گاڑی کو دیکھ کر مجرم اسپورٹس کار میں ڈرفٹ لگاتا ہوا کھیتوں میں فرار ہوجاتا ہے اور پولیس بے چاری منہ تکتی رہتی ہے۔

ہر صورت میں اس کیس میں پولیس کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس معاملے میں نو آمد آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور جواب دہ ہیں۔ سی سی پی او نے بھی متاثرہ خاتون کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے متنازعہ بیان دے کر ایک نئی بحث کو جنم دیا اور دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے بعد میں معافی مانگ بھی لی۔ یہ کیا ہے؟ ہم پولیس چیف سے یہ توقع کرتے ہیں؟ وزیراعظم بھی جواب دہ ہیں کہ دو سال میں انہوں نے پنجاب پولیس میں ریفارمز کیوں نہیں کیں؟ کیوں ہر دو دن کے بعد آئی جی پنجاب کو تبدیل کردیا جاتا ہے؟ جہاں آئی جی جیسا عہدہ سوالیہ نشان بن جائے تو کیا وہاں پولیس خود اپنے کام میں سنجیدہ ہوگی؟

یہ تو واضح ہے کہ پولیس انویسٹی گیشن رائٹ ڈائریکشن میں نہیں ہے۔ اس کیس کی تمام پیش رفت قدرت کی مہربانی ہے، پولیس کارکردگی کا نتیجہ ہرگز نہیں۔ زینب قتل کیس بھی قدرت کی مہربانی سے ہی حل ہوا تھا۔ تب بھی یہ آوازیں آئی تھیں کہ اب پولیس میں ریفارمز کی ضرورت ہے اور اس کو جدید طور پر استوار کیا جانا چاہیے۔ لیکن اس کے بعد بھی ایسا نہ ہوا۔ اب اس کیس میں بھی یہ بات بالکل واضح ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں جدید ریفارمز ہونی چاہئیں۔ اُن کو صرف دور جدید کی سہولیات ہی نہیں بلکہ اس کے استعمال کا طریقہ بھی آنا چاہیے۔ سسٹم کو فوری طور پر اپ گریڈ کیا جانا چاہیے۔

اور آخر میں عرض ہے کہ جرم کی سزا سب کے سامنے دینی چاہیے۔ کیوں؟ کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے اور میرے علم کی حد تک اس کی حکمت یہی ہے کہ باقی لوگ عبرت حاصل کریں۔ چھوڑ دیجئے کہ مغرب کیا کہتا ہے اور وہ کیا دباؤ ڈالتا ہے۔ دباؤ کو ہینڈل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیا مغرب ہمارے گھروں، جان و مال کا محافظ ہے؟ یہ لازمی تو نہیں کہ جو قانون مغرب میں کامیاب ہے، وہی مشرق میں بھی کامیاب ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے اور ذہنیت کو دیکھتے ہوئے قانون سازی کرنی ہوگی۔ سزائیں سب کے سامنے دینی ہوں گی۔ اس سے معاشرے میں ہرگز بھی انتہاپسندی نہیں پھیلے گی بلکہ یہ معاشرے میں جرائم سے تحفظ کی ضمانت ہوگی۔ ہم کالم نویس لکھ سکتے تھے، ہم نے لکھ دیا، اب اگلا کام قانون سازی کرنے والوں نے کرنا ہے۔ وہ اسمبلی میں خالی تقریریں کرنے کے بجائے قانون سازی پر توجہ دیں جو ان کی جاب ہے، تاکہ کل کو ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔