کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 20 ستمبر 2020
گھرا تھا نیند میں خوابوں نے راستہ نہ دیا، مجھ ایک لمحے کو صدیوں نے راستہ نہ دیا۔
فوٹو : فائل

گھرا تھا نیند میں خوابوں نے راستہ نہ دیا، مجھ ایک لمحے کو صدیوں نے راستہ نہ دیا۔ فوٹو : فائل

غزل


سانس میں آپ کی قربت کے اثر سے آئی
صبح دم باغ میں خوشبو گلِ تر سے آئی
شاعری دشت نوردی ہے پہ لازم ہے لگے
کہ یہ شہزادی تو پھولوں کے نگر سے آئی
پیکرِ حسن بنے چاک پہ رکھے جذبات
قالبِ شعر میں لذت تو ہنر سے آئی
اس کو الہام سے موسوم کیا جاتا ہے
آگہی پاس ہمارے جو خبر سے آئی
رنگ لائی کئی برسوں کی رفاقت آخر
اور محبت کی مہک بوڑھے شجر سے آئی
وہ نہیں ہے تو پھر اس چاندنی شب میں جاذبؔ
اس کے ملبوس کی خوشبو ہے کدھر سے آئی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائٔ الدین)

۔۔۔
غزل


گھرا تھا نیند میں خوابوں نے راستہ نہ دیا
مجھ ایک لمحے کو صدیوں نے راستہ نہ دیا
میں سبز رنگ پہاڑوں میں اسم پڑھتا رہا
نکلنا چاہا تو پیڑوں نے راستہ نہ دیا
کواڑ کھولنا چاہا صبا نے صبحِ وصال
اداس بیل کے پھولوں نے راستہ نہ دیا
میں تیرے دستِ حنائی سے بھیک لے نہ سکا
ترے فقیر کو لوگوں نے راستہ نہ دیا
وہ ڈھونڈتا ہوا آیا تھا میرے دل کی گلی
پڑوسیوں کے مکانوں نے راستہ نہ دیا
فلک کو جاتی غریبوں کی بد دعاؤں کو
فضا میں اڑتے جہازوں نے راستہ نہ دیا
(فیضان احمد ۔جہلم)

۔۔۔
غزل


کیا مُضر ہو گی میاں اب،جس قدر رکھی گئی
آگ پانی میں بھگو کر رات بھر رکھی گئی
تب اشاروں سے بھی کرنے لگ چکا تھا شوروغُل
جب مری آواز میرے ہاتھ پر رکھی گئی
میرا سایہ کیا مرا مخبر تھا میرے ساتھ ساتھ
لاکھ تنہائی میں بھی مجھ پر نظر رکھی گئی
یہ تو اب آکر مرے گھر میں ملی اس کو اماں
ورنہ عرصے تک اداسی دربدر رکھی گئی
کم خوشی پر ٹالنے والے تھے پر میں اَڑ گیا
سو خوشی غم کے برابر تول کر رکھی گئی
ٹھونس لی فکرِ معاش اس میں کہ لوٹ آئے گا عشق
اک ذرا خالی جگہ بھی دل میں گر رکھی گئی
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل


مشکل سہی وجود سے باہر نکل کے آ
زندان کی حدود سے باہر نکل کے آ
مجھ پریہ لفظ ہُو بھی ابھی تک نہیں کھلا
واعظ ذرا سجود سے باہر نکل کے آ
پہنے ہوئے ہیں سب نے یہاں پر سیہ لباس
مطرب تُو اب سرود سے باہر نکل کے آ
کرتا ہے خود کو کس لیے روپوش سائیاں
اک بار اس جمود سے باہر نکل کے آ
حُر سا مقام تجھ کو ملے گا اے جنگجو
باطل کے تو جنود سے باہر نکل کے آ
(اسد رضا سحر ۔احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


اک دیا سا کفِ امید پہ دھر جاتے ہو
خواب بن کر چلے آتے ہو گزر جاتے ہو
تم نے سمجھا ہی نہیں آنکھ میں ٹھہرے دکھ کو
تم بھی ہنستی ہوئی تصویر پہ مر جاتے ہو
تمہیں اندازہ نہیں آگ کے پھیلاؤ کا
روز جنگل کی طرف لے کے شرر جاتے ہو
چھاؤں دیتے ہو نہ فرصت سے برستے ہو کبھی
صرف بادل کی طرح سر سے گزر جاتے ہو
اس محبت کے میں آزار اٹھاؤں کیوں کر
جس کے اظہار سے ڈرتے ہو، مکر جاتے ہو
دل کی تنہائی کا تم سے بھی مداوا نہ ہوا
اک نئے زخم سے اِس زخم کو بھر جاتے ہو
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل


ایک ہی شخص پر قناعت کی؟
یار حد ہو گئی شرافت کی
بلبلوں نے سجائی شامِ غزل
اور اک پیڑ نے صدارت کی
جل اٹھے جب دِیے،ہواؤں نے
اک محبت بھری شرارت کی
میں نے ایجاد کر لیا خود کو
جب لگی ہتھکڑی ضرورت کی
اپنا لاشہ اٹھا کے چلتا ہوں
یہ نشانی نہیں قیامت کی؟
میرے متروک نے کہا مجھ سے
کھا قسم دوسری محبت کی
(احمد زوہیب ۔ٹوبہ ٹیک سنگھ)

۔۔۔
غزل
دن کے پلو میں باندھی ہے مہکی رات کی خوشبو
لے جا مسافر زاد ِ سفر میں ان باغات کی خوشبو
تیز ہوا بکھراتی رہتی ہے یہ زر شاخوں کا
مٹی میں ملتی رہتی ہے گرتے پات کی خوشبو
دل کے آتے جاتے موسم یادوں کے اوراق
یاد ہیں اب تک اس کی باتیں اور ہر بات کی خوشبو
یاد آئے تو اب بھی میرا تن من بھیگتا جائے
کچے آنگن میں پہلی پہلی برسات کی خوشبو
تم آنکھوں میں اترو تو مہکیں اس بن کے رستے
تم ہو میرے ساتھ تو پھر پھیلے اس رات کی خوشبو
سانسوں میں اب بھی ہے اس کی قربت کا احساس
ہاتھوں میں اب بھی ہے جاناں اس کے ہاتھ کی خوشبو
( جاناں ملک۔ راولپنڈی)

۔۔۔
غزل


خواب لکّھوں یا کسی خواب کے ارماں لکھوں
داستاں تیری میں کیا دیدۂ حیراں لکھوں
سوزِ فرقت میں ترے ڈوبتے سورج دیکھوں
چاک پھر صحرا نَوردوں کے گریباں لکھوں
زرد موسم میں تجھے آس کا بادل سمجھوں
دشتِ ہجراں میں تجھے سبزۂ درماں لکھوں
تو جو خاموش ہو چھا جائے دو عالم میں سکوت
تو جو بولے تو تجھے شورش ِامکاں لکھوں
چاند کو تجھ سے ملا نور چمک تاروں کو
بلبل و گُل کو ترے نام کا خواہاں لکھوں
تو ہی محور ہے مرے دائرۂ ہستی کا
جان ہر خط کی تجھے جلوۂ جاناں لکھوں
میں نے سرمد اُسے لکھّا تو بہت ہے لیکن
جی میں آتا ہے ذرا اور نمایاںلکھوں
(شاہ نواز سرمد۔محمدپور دیوان، ضلع راجن پور)

۔۔۔
غزل


دستِ قاتل جب ہوا موزوں نگینے کے لیے
دُھول بھی رکھی گئی پھر آبگینے کے لیے
کوچۂ دیوانگی سے جب سے نکلے اہلِ دل
عشق کی ذلّت سنبھالی خوں پسینے کے لیے
کیا مجالِ تشنگی جو آئے اپنے روبرو
غم کا ساغر ساتھ رکھّا ہم نے پینے کے لیے
اِس لیے بدنام ہوں میں یار تیرے شہر میں
نرم لہجہ رکھ نہ پایا میں کمینے کے لیے
اے بھنور مدِ مقابل ہو مگر سن انتباہ!
ہم نے ہستی کو جلایا ہے سفینے کے لیے
پیرہن اِک دل رُبا کا پاس ہے جوگیؔ مرے
داغ دھونے کے لیے اور زخم سینے کے لیے
(حفیظ جوگی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


تمہارے نغمہ و آواز کی طلب رہے گی
دلوں کو چھیڑتے اک ساز کی طلب رہے گی
پروں کو نوچنے والے کبھی یہ سوچا ہے
ہمیشہ ہم کو بھی پرواز کی طلب رہے گی
نظارہ دیکھ کے انجام کا پلٹ آئے
تمہارے پیار کے آغاز کی طلب رہے گی
کہ جیسے پھول میں خوشبو سمائی ہوتی ہے
کچھ ایسے ہی کسی ہمراز کی طلب رہے گی
تلاش کرتے پھریں وہ نئے نئے چہرے
ہمیں ہمارے ہی دم ساز کی طلب رہے گی
(عنبرین خان۔ لاہور)

۔۔۔
غزل


پھول دلوں میں بو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
مل کر کیسے کھو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
پیار وفا کے خواب ہماری آنکھوں کو دے کر
افسانہ پھر ہو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
اپنے لبوں پر پھولوں سی مسکان سجائے
دکھ میں عمریں ڈھو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
روشن سپنے بجھتی آنکھوں میں بھی ساتھ لیے
ابدی نیندیں سو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
کومل جیسے ہاتھوں میں تھے کتنے پھول عمیرؔ
دل میں خار چبھو جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
(عمیر جوئیہ۔ مریالی، ڈیرہ اسمعیل خان)

۔۔۔
غزل


دغا دیتے ہیں جو ان کو وفائیں خوب ملتی ہیں
محبت کرنے والوں کو سزائیں خوب ملتی ہیں
جو رشتوں کے چمن کی آبیاری کرتے رہتے ہیں
انھی کو دور جانے کی صدائیں خوب ملتی ہیں
ہمیں فہرست کے اس خانے میں لکھا گیا ہو گا
بنا مانگے جنہیں غم کی گھٹائیں خوب ملتی ہیں
چلو ہم عشق میں مجنون اور فرہاد بنتے ہیں
جنہیں ہر ہر قدم پر بس جفائیں خوب ملتی ہیں
میں مذہب کے اسی فرقے میں شامل ہوتا ہوں عبدیؔ
فقیروں کی بھی جن کو بد دعائیں خوب ملتی ہیں
(عبیداللہ عبد ی۔اقبال ٹاؤن ،لاہور)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔