نئے قوانین: زیرو جمع زیرو کے سوا کچھ نہیں!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 18 ستمبر 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے 8بلز منظور کرا لیے، ویسے تو یہ تمام بلز ’’ترمیمی بلز‘‘ ہیں جو حکومتیں اپنے مفادات کے لیے پاس کرواتی آئی ہیں لیکن ہمارے ملک میں قوانین کی تعداد جتنی بڑھتی جا رہی ہے عمل درآمد اُتنا ہی کم ہوتا جا رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کیس کے خلاف بننے والے قانون کی بھی مخالفت کی گئی۔

کوئی بھی معاشرہ اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک وہاں امورِ زندگی کو چلانے کے لیے ضروری قوانین نہ بنائے جائیں جب کہ معاشرے کی ترقی کا انحصار ان قوانین پر عمل کرنے میں ہی ہوتا ہے۔ آج  ترقی یافتہ ممالک میں خوشحالی کی ایک بڑی وجہ قانون کا احترام ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں قوانین نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں تا کہ انھیں وقت کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔

قانون طاقتور کے لیے اور جب کہ غریب کے لیے اور بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے طبقاتی تقسیم بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آج وطن عزیز کے ہر چھوٹے بڑے علاقے، شہر ، قصبے، گاؤں میں چھوٹو گینگ دندناتے پھر رہے ہیں،آج ہر روز ایسی خبریں ہمارے اخبارات و ٹی وی چینلز کا ’’ہاٹ‘‘ موضوع بن رہی ہیں جنھیں ہم کبھی صحافتی زبان میں ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کیا کرتے تھے۔

سانحہ لاہور سیالکوٹ موٹروے نے دل  چھلنی کر دیا، اس واقعہ کو گزرے ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو ہے لیکن ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل کی پریشانی لاحق ہے کہ ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ فرانس سے پاکستان شاید اِس امید کے ساتھ آئی کہ ایک اسلامی ملک میں، جسے ریاستِ مدینہ کے عظیم اصولوں کے مطابق چلانے کا وعدہ کیا گیا ہو، وہاں اپنے بچوں کے ساتھ رہے گی۔اُن کو ایک اچھے ماحول میں تربیت دے گی۔

لیکن اُس خاتون کے ساتھ جو ظلم ہوا، جس زیادتی اور درندگی کا سلوک کیا گیا ، وہ بحیثیت قوم ہم سب کے لیے انتہائی شرمندگی کا مقام ہے۔ اُس خاتون کو کیا معلوم تھا کہ یہ تو جانوروں سے بھی بدتر درندوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ موبائل یا انٹرنیٹ عام ہو گیا ہے؟ نہیں ! ایسا بالکل نہیں ہے، ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں غریب اور امیر کے لیے دو الگ الگ قوانین ہیں، آپ کو مختاراں مائی تو یاد ہوگی۔ اگر یاد نہیں تو ذہن پر تھوڑا زور دیجیے۔

2002میں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے ایک گاؤں میر والا میں مختاراں مائی کا گینگ ریپ ہوا ۔ ڈیرہ غازی خان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے اس کیس میں چھ افراد کو سزائے موت سنا دی۔ اس مقدمے میں سزا پانے والوں کو علاقے کی طاقتور شخصیات کی حمایت حاصل تھی۔ کیس ہائی کورٹ آگیا، اور کچھ دن بعد ملزمان کی سزا معطل کر دی گئی، کیس سپریم کورٹ گیا، لیکن پولیس کی طرف سے ٹھوس شواہد فراہم نہ کرنے پر ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

یعنی اس کیس کی شنوائی پورے ملک نے دیکھی، ’’انصاف‘‘ ہوتے بھی دیکھا، اور مختاراں مائی کو متنازعہ بنتے بھی دیکھا گیا، یقین مانیں! میں نے سوچ رکھا تھا کہ لاہور پولیس کے نئے سی سی پی کے لیے ’’ویلڈن عمر شیخ‘‘ کے نام سے کالم لکھوں گا لیکن اس دوران سانحہ موٹر وے ہوگیا اور اس کیس کے حوالے سے سی سی پی او صاحب نے کچھ زیادہ ہی عقلمند بننے کے چکر میں  بونگی مار دی۔ یوں جو ہیرو بن کر آئے تھے ، ایک بے تکے بیان نے انھیں زیرو بنا دیا۔کیوں کہ بیان دیتے وقت اُن کا اسٹائل اور لہجہ بھی عوام کو پسند نہیں آیا۔

یقین مانیں اگر مختاراں مائی کیس میں ریاست  کمزور طبقے کی ایک مظلوم بیٹی کے ڈٹ کر کھڑی ہوتی اور گینگ ریپ کے ملزمان کو عدالتوں سے سزا دلوا دی جاتی تو 2018 میں قصور کی سات سالہ زینب کے ساتھ شاید زیادتی نہ ہوتی اور نہ اُس معصوم کو قتل کیا جاتا۔ چھوٹے بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات  بڑھتے جارہے ہیں ۔گزشتہ دو برس میں پاکستان میں 8ہزار سے زائد ریپ کیس اور 11ہزار بچوں سے زیادتی کے کیس رپورٹ ہوئے۔

کیا حکام بالا یا کسی تھنک ٹینک نے اس بات پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ جرم ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے، حالانکہ زنا بالجبر اور بچوں کے ساتھ زیادتی کی سزائیں موجود ہیں جس میں عمر قید تک کی سزا کا تعین کیا گیا ہے اور اب تو وزیر اعظم عمران خان مجرموں کو ’’نامرد‘‘ بنانے کی باتیں کر رہے ہیں اور اکا دکا وزیروں نے قانون سازی پرکام بھی شروع کر دیا ہے۔

لیکن اصل مسئلہ وہی ہے کہ ناقص تفتیش، مدعیان پر دباؤ ، ریاست کا جھکاؤ طاقتور ملزمان کی حق میں ہونا، ایسے حالات میں کوئی بھی قانون بنا لیں، طاقتور ظالموں کو سزا نہیں مل سکتی کیونکہ عدالتوں کے روبرو ناقص اور ابہام کا شکار مقدمہ آتا ہے، ایسے میں عدالت کیا کرسکتی  ہے، اس نے تو شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے ! ابھی کل ہی پارلیمنٹ نے 8بل پاس کرائے۔ آپ 800بھی پاس کرا لیں، تو ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ عمل درآمد زیرو جمع زیرو ہی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 17لاکھ 70ہزار سے زائد ہے۔

سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 37ہزار 843ہے۔ عدالتوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود فیصلوں کے منتظر مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔اُتنے کیس کے  فیصلے نہیں ہوتے جتنے نئے آجاتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچ کر مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے کہ یہ مسئلہ ترقی پذیر معاشروں تک محدود نہیں بلکہ امریکا اور برطانیہ سمیت سبھی اقوام کے لیے مستقلاً پریشانی اور فکر مندی کا باعث ہے۔

یہ مسئلہ اُن معاشروں کے لیے تو اتنا سنگین نہیں جہاں سزائے موت موقوف ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مبینہ قاتل کی بریت کے فیصلے تک ’’قاتل‘‘ جیل میں ہی فوت ہو چکا ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ’’قاتل‘‘ اپنی سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی منظوری سے کئی سال قبل راہی ملک عدم ہو چکا ہوتا ہے۔ یوں بھی ہوا ہے کہ بااثر دشمنوں کے انتقام کا نشانہ بننے والے نوجوان کو کہیں بڑھاپے میں جاکر بریت نصیب ہوئی۔

انصاف کے حصول میں جائیدادیں بِک جاتی ہیں۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے کنگال ہوجاتے اور انتقام کی آگ زندہ بچے نوجوانوں قتل در قتل کی راہ پر ڈال دیتے ہیں ، بعض گھرانوں میں تو صرف بیوہ خواتیں اور چھوٹے بچوں کے سوا تمام مرد قتل ہوجاتے ہیں ۔ بقول ساحر لدھیانوی

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا

جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا

بہرکیف جرائم تو دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن عدم تحفظ کا احساس جس قدر یہاں ہے، شاید کہیں اور ہو۔ کمزور طبقات اور گروہوں میں خواتین اور بچیاں سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہمیں ان حالات کو بدلنا ہوگا۔ورنہ ہمارا معاشرہ ، معاشرہ نہیں بلکہ درندوں کاجنگل بن جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔