میری مٹی کہاں کی ہے؟

سعد اللہ جان برق  جمعـء 18 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

داغ دہلوی بھی مرشد کے شاگرد تھے اور علامہ اقبال کے استاد۔چنانچہ جب کہتے ہیں توخوب بلکہ بہت خوب کہتے ہیں۔ اخباروں میں یہ خبر تو آپ نے پڑھ لی ہو گی کہ ہماری ’’وژن‘‘ والی کابینہ نے جو پہلے تبدیلی والی کابینہ تھی پھر نیا پاکستان ہو گئی پھر ریاست مدینہ کی اور آج کل وژن والی کابینہ کہلاتی ہے۔

اس دہری شہریت رکھنے والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت فراہم کرنے کے لیے ’’بل‘‘ منظور کر لیا گیا ہے اور یہ بات سمجھ میں آنے والی بالکل فطری ہے۔ کہ جب خود کابینہ کئی نام اور مقام تبدیل کر چکی ہے تو کسی کو دہری شہریت رکھنے اور پھر دونوں ’’سینگوں‘‘ سے الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں نہیں دے گی اور یہی وہ موقع ہے جس کے لیے داغؔ دہلوی نے کہا ہے کہ

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

مجھ کو خبر نہیں میری مٹی ’’کہاں‘‘ کی ہے

اب اگر مٹی ہی دو مقامات کی ہو تو یہی تو ہو گا اس طرح کی مٹی بلکہ مٹیوں میں اس سے پہلے مرشد نے بھی کہا تھا کہ:

ایماں مجھے روکے ہیں تو ’’کھینچے‘‘ ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

اور یہ انھوں نے اپنے لیے نہیں کہا تھا بلکہ مستقبل کے لیے کہا ہے اور اس میں ’’رمز‘‘ یہ ہے کہ کعبہ ’’پیچھے‘‘ ہے یعنی جانے والے کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔ مطلب یہ کہ کعبے سے نکل کر سوئے کلیسا رخ کیے ہوئے ہے۔ اس ’’دو۔سری‘‘ یا دوشہری نے وہ تمام فلسفے، نظریے گانے ترانے وغیرہ یکسر رد کر دیے جن میں زمانے زمانے کے احمقوں نے وطن، حب وطن اور فضول وطن وغیرہ کی باتیں کی ہیں۔بے وقوف کہیں کے۔ کونسا وطن، کیسا وطن کس کا وطن۔؟ بیک وقت دو کشتیوں کے سوار کس کشتی کے سوار سمجھے جائیں گے؟

داغ کا پہلا شعر بھی دہرایے اور غالبؔ کا بھی اور پھر یہ بھی:

وہ اُسے کیوں نہ بیچ کھائے برقؔ

جو اسے ’’ماں‘‘ نہیں ’’زمیں‘‘ سمجھے

کمال کا خیال ہے منطق ہے فلسفہ ہے نظریہ ہے اور دستور ہے کہ رہیں باہر کسی دوسرے ملک میں اور یہاں صرف حکومت کرنے آئیں۔ ’’کھیت‘‘ سے فصل اٹھائیں اور ’’گھر‘‘ لے جا کر کھائیں وہ گھر جو کہیں اور ہے۔

انگریز بھی تو یہی کرتے تھے پھر وہ ’’جنگ‘‘ کس لیے لڑی گئی جس میں لاکھوں کھوپڑیاں اور عصمتیں خرچ ہوئیں صرف ’’چہروں‘‘ کا رنگ بدلنے کے لیے؟ دنیا میں مروج ہر قانون ہر دستور اور ہر انصاف (سوائے تحریک انصاف کے) کے قطعی برخلاف۔ کسی ملک پر وہ لوگ حکومت کیسے کر سکتے ہیں جو اس ملک کے نہ ہوں۔ اگر صحیح ’’انصاف‘‘ سے فیصلہ کیا جائے تو وہ ’’آدھے‘‘ شہری ہوتے ہیں اصول کے مطابق ان کا ووٹ بھی ’’آدھا‘‘ ہونا چاہیے لیکن وہ یہاں حکومت کرتے ہیں اور اس کے لیے کھلا کھلا لائسنس بھی دیا گیاہے۔

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

ہم ابھی انصاف کی اس ’’میت‘‘ پر رو رہے تھے کہ اخبار پر نظر پڑی جس میں ایک جہازی قسم کا اشتہار دیا گیا ہے اشتہار کا عنوان ہے ’’میرا پاکستان، میرا گھر‘‘۔ نیچے تفصیلات میں لکھا ہے، حکومت پاکستان کا لاکھوں پاکستانیوں کو سستی رہائش وغیرہ وغیرہ اور پھر وہی وغیرہ وغیرہ جو ہمیشہ سے وغیرہ وغیرہ تھا وغیرہ وغیرہ ہے۔ اور وغیرہ وغیرہ رہے گا۔

یعنی کچھوے کا سر، اور ہاتھی کے دانت اور اس ملک کے کالانعام۔ کافی زمانے لگ بھگ ستر سال سے ہم سوچ رہے ہیں لیکن شاید ہماری سمجھ دانی میں کوئی قصور ہے کہ ایسی بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں جو صاف صاف بے ایمانی اور بددیانتی کے ضمن میں آتی ہیں لیکن یہاں ثواب دارین سمجھ جاتی ہیں۔ مثلاً اب یہ کہاں کا انصاف بلکہ تحریک انصاف ہے کہ جن پرندوں نے اپنے گھونسلے دوسرے باغوں اور پیڑوں میں بنائے ہوئے ہیں۔

ان کو اس باغ میں چرچُگ کر دانہ پانی اپنے گھونسلے میں لے جانے کی اجازت کیوں؟ اگر کسی کا یہ کہنا ہو کہ یہ ’’پرندے‘‘ وہاں سے کچھ ’’یہاں‘‘ لاتے ہیں یا لائیں گے تو وہ گاڑی کے پیچھے گھوڑا باندھنے، چھپر کے اوپر بھینسا چڑھانے اور بلی کو سبزی خور بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ہمیں تو اس وقت شدت سے یہ احساس رہا ہے کہ کہیں ’’جہاز‘‘ ڈوبنے والا تو نہیں ہے جہاز ڈوبے یا نہ ڈوبے لیکن چوہوں کو جب پتہ چل جاتا ہے تو وہ جہاز ’’چھوڑنے‘‘ لگتے ہیں بلکہ:

صبر و قرار تاب و تواں سب جا چکے ہیں

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

ویسے یہ بات اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ  اس ملک کے عوام کبھی اپنے اوپر حکومت کرنے کے لائق ہو سکیں گے کہ ہمیشہ حکمران باہر سے ’’درآمد‘‘ کیے جاتے ہیں بھٹو سے لے کر شوکت عزیز تک سارے کے سارے یہی ’’دومونہے‘‘ تھے جو ایک منہ سے ’’یہاں‘‘ کھاتے ہیں اور دوسرے منہ سے جو ’’دمُ‘‘ میں ہوتا ہے ’’وہاں‘‘ اگلتے ہیں۔

سانپوں میں ایک قسم کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے دو منہ ہوتے ہیں بلکہ منہ بدلتے ہیں۔ ایک سال ایک طرف منہ ہوتا ہے جس سے ’’کاٹتے‘‘ ہیں اور دوسرا منہ دم کی طرف ہوتا ہے جس سے ’’کھاتے‘‘ ہیں پھر آہستہ آہستہ ان کے منہ ’’الٹے‘‘ ہو جاتے ہیں سر والا دُم میں نکل آتا ہے اور دم والا منہ سر میں آ جاتا ہے اور وہی ’’کاٹنے اور کھانے‘‘ کا سلسلہ الٹا ہو جاتا ہے لیکن ہم نے جو دومونہے پال رکھے ہیں ان کے ساتھ اگر ایسا ہوتا تو پھر بھی اچھا ہوتا کہ کبھی کبھی کو ’’کاٹنے اور کھانے‘‘کے عمل میں ’’تبدیلی‘‘۔ یا ’’انصاف‘‘ تو ہو جاتا۔

کیا خیال ہے کہ یہ ’’بل‘‘ اتنی جلدی کابینہ میں کیسے منظور ہو گیا اور بہت جلد ایسے ہی آسانی کے ساتھ ’’اوپر‘‘ کے مقامات میں بھی منظور ہو جائے گا۔ کیوں؟ آپ اس کیوں؟ کا جواب ڈھونڈیے اور ہم دو مونہے سانپوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔