شیخ عبدالمجید سندھی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی  اتوار 20 ستمبر 2020
سندھ کے عظیم سیاست داں، صحافی اور مصنف۔ فوٹو : فائل

سندھ کے عظیم سیاست داں، صحافی اور مصنف۔ فوٹو : فائل

 حیدرآباد: صوبہ سندھ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ پاکستان کے نقشے پر سندھ وہ مردم خیز زمین ہے جس نے نام ور، قدآور اور عہدساز شخصیات کو جنم دیا ہے، جنھوں نے علمی، تحقیقی، دینی اور روحانی اعتبار سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جو نیل گوں آسمان پر آفتاب و ماہتاب کی طرح رہتی دنیا تک روشن رہیں گے۔

کتنے مجاہدین، دانش وروں، سیاست دانوں اور اولیائے کرام نے سندھ دھرتی پر جنم لیا ہے۔ یہاں ہر دور میں تحریکیں چلتی رہی ہیں اور ہر زمانے کے مجاہدین، دانش وروں، سیاست دانوں اور اولیائے کرام نے اپنے اپنے دور کے ظالموں اور طاقت ور حکم رانوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔

تاریخ کے صفحات اس کے گواہ ہیں کہ تحریک پاکستان میں سندھ کے مسلم دانش وروں اور راہ نماؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دن رات انتھک محنت کرکے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج بھی ان راہ نماؤں کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ انھی اہم شخصیات میں ایک تاریخی ساز شخصیت نام ور سیاست داں، مصنف اور صحافی شیخ عبدالمجید سندھی بھی تھے۔

شیخ عبدالمجید سندھی 7 جولائی 1889 کو سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹھ کے ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سیلارام تھا جو محکمۂ مال میں منشی تھے۔ یہ اپنے والد کی چوتھی اولاد تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ٹھٹھ میں حاصل کی۔

1896 میں ان کے والد کو پنشن ملی اور وہ کراچی میونسپلٹی میں ملازم ہوگئے۔ شیخ عبدالمجید سندھی بھی اپنے والد کے ساتھ کراچی چلے آئے۔ انہوں نے سندھی کے پہلے درجے میں اس پرائمری اسکول میں داخل لیا جہاں اب بولٹن مارکیٹ کے سامنے انسپکٹر آف اسکولز کا دفتر ہے۔

شیخ عبدالمجید سندھی کی فطرت ابتدا ہی سے نیک تھی۔ وہ شروع ہی سے ہندو مندروں اور مسلمان خانقاہوں میں حاضر ہوتے اور تلاش حق میں لگے رہتے۔ یہاں تک کہ انھوں نے ہدایت ابدی کو پالیا۔ وہ بیس برس کی عمر میں ڈاکٹر ضیا الدین کے جد امجد جناب عبدالرحیم کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور ان کا نام جیٹھانند کی جگہ عبدالمجید رکھا گیا۔ میٹرک کے امتحان میں وہ کام یاب ہو چکے تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے پر ہونے والے ہندوؤں کے احتجاج پر انھیں کچھ عرصے کے لیے لدھیانہ (مشرقی پنجاب) بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی۔

پنجاب میں قیام کے دوران انہوں نے علامہ اقبال سے بھی ملاقات کی۔ علامہ اقبال سمیت مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کے باعث ان کا ذوق آگاہی بڑھا اور ان میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔ 1911 میں عبدالمجید سندھی ہلال احمر میں شریک ہوئے اور ترکوں کے لیے نہایت سرگرمی سے اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1913 میں ڈی جے کالج میں داخلہ لیا۔ کالج چھوڑنے کے بعد سکھر سے نکلنے والے سندھی ہفت روزہ ’’الحق‘‘ سے اپنی صحافت کی ابتدا کی۔

انہوں نے ہفت روزہ ’’الحق‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ وہ تحریک خدام کعبہ کے رکن بھی بنے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسجد کانپور کا حادثہ ہو چکا تھا۔ شیخ عبدالمجید سندھی نے مسجد کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کی اور اس سلسلے میں مظہرالحق صاحب سے خط و کتابت کی۔

1914 میں وہ ہفت روزہ ’’الحق‘‘ کی ادارت سے علیحدہ ہوگئے، تو غریب ہاریوں کے بچوں کے لیے ایک مدرسہ قائم کیا۔ وہاں سے علیحدہ ہوئے تو رام سوامی کوارٹرز کراچی میں اسی طرز کا ایک مدرسہ قائم کیا، لیکن شیخ عبدالمجید سندھی کی سیاسی مصروفیات بہت تھیں، اس وجہ سے انہوں نے مدرسے کا انتظام مولانا تاج محمود امروٹی کے سپرد کردیا جو ان کے پرانے دوست تھے۔

1915 میں رئیس غلام محمد بھرگڑی کے اخبار ’’الامین‘‘ کی ادارت انھیں سونپ دی گئی۔ 1916 میں دوسری مرتبہ عبدالمجید سندھی نے شیخ عبدالرحیم کے ساتھ ہندوستان کا دورہ کیا۔ اسی زمانے میں ان کے مولانا عبید اللہ سندھی سے تعلقات قائم ہوئے۔ ریشمی رومال تحریک کا انکشاف ہونے کے بعد شیخ عبدالرحیم روپوش ہوگئے۔ پھر اس کے بعد ان کا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا۔

مولانا عبیداللہ سندھی بھی کابل چلے گئے۔ 1918 میں شیخ عبدالمجید سندھی کو ریشمی رومال تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے رتنا گری جیل میں 3 سال کے لیے نظر بند کردیا گیا۔ 1920 میں تحریک خلافت میں سرگرم حصہ لینے کی بنا پر انہیں دو سال اور سیاسی پابندیوں کی خلاف ورزی پر ایک سال کی سزا ہوئی۔ انھوں نے قیدفرنگ کی سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔

شیخ عبدالمجید سندھی نے 1924 میں سندھی روزنامہ الوحید جاری کیا اور اس کے ذریعے سندھی مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا کرتے رہے۔ سندھ سے بمبئی کی علیحدگی کے بعد انھوں نے الوحید کا سندھ آزاد نمبر شایع کیا۔ یہ تاریخی نمبر 16 جون 1936 کو شایع ہوا۔

1928 میں مسلم لیگ دہلی کے اجلاس میں انھوں نے سندھ کو ممبئی سے الگ کرکے علیحدہ صوبہ بنانے کی قرارداد پیش کی۔ اس سے پہلے انہوں نے مئی 1927 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس بمبئی میں حاجی عبداللہ ہارون کے ساتھ سندھ کی علیحدگی کا مسئلہ پیش کیا تھا اور اجلاس نے اس کی حمایت کی تھی۔

شیخ عبدالمجید عوام و خواص میں بے حد مقبول تھے۔ عبدالمجید سندھی نہ صرف سندھ اور انڈیا بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی سیاسی پیش گوئیاں ہمیشہ سچ ثابت ہوتی تھیں۔ اس حوالے سے ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ سندھ کے نام ور سیاست داں بھی ان کو اپنا راہ نما مانتے تھے۔ شیخ عبدالمجید انتخابی سیاست سے بخوبی واقف تھے اور ان کے انتخابی فیصلے ہمیشہ درست ثابت ہوئے۔ انھوں نے ایسا ہی ایک فیصلہ 1937 کے انتخابات کے موقع پر کیا۔

انھوں نے 1937 کے انتخابات میں سر شاہ نواز بھٹو کے خلاف سندھ اسمبلی کے لیے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ لاڑکانہ میں سرشاہ نواز بھٹو کے خلاف انتخاب لڑنا ایک معرکہ سے کم نہیں تھا۔ عبدالمجید سندھی انقلابی اور عوامی لیڈر تھے۔ ان کی انتخابی مہم میں لاڑکانہ کی عوام نے بھرپور پورے جوش و خروش ولولے سے حصہ لیا۔ سندھ اسمبلی کے اس انتخاب میں شیخ عبدالمجید سندھی آزاد سندھ پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔

قیام پاکستان سے قبل 1937 میں انھوں نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات لاڑکانہ کی نشست سے سر شاہنواز بھٹو کو شکست دی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل انھوں نے وزارت تعلیم اور مالیات کے قلم دان سنبھالے۔ انھوں نے سندھ کی ہر اس سیاسی اور ملی تحریک میں حصہ لیا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ کچھ عرصہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی شامل رہے۔

1949 میں انھوں نے آل پاکستان عوامی پارٹی قائم کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے معاشرتی انصاف کی مہم چلانے اور بدعنوانیوں سے پاک سیاست اور صحیح جمہوریت چلانے کے جذبے سے آل پاکستان عوامی پارٹی کی شکل میں بنائی جانے والی جماعت کے پلیٹ فارم سے بھرپور جدوجہد کی، لیکن جیسے جیسے ملک کے سیاسی امور میں بدعنوانیاں، بے انصافیاں اور خود غرضیاں بڑھتی گئیں، وہ سیاست سے کنارہ کش ہوتے گئے۔

بدقسمتی سے شیخ عبدالمجید سندھی کو پاکستان کی خدمت کا موقع نہیں دیا گیا۔ شیخ عبدالمجید سندھی ہندوستان کی سیاست میں پیش پیش رہے اور انھیں آل پارٹیز کانفرنس کا صدر بھی بنایا گیا۔ ہندوستان کی سیاسی قوتوں اور جملہ قوموں کو بھی ان کی صلاحیتوں کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ شیخ عبدالمجید سندھی انتہائی سادہ قسم کے انسان تھے۔ مسلم لیگ سے ان کا بے حد لگاؤ تھا اور وہ مسلم لیگ کو منظم کرنا چاہتے تھے۔

اس حوالے سے انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی سندھ میں ایک شاخ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام کے لیے انھوں نے کچھ سیاسی شخصیات کو مشاورت کے لیے اپنے گھر مدعو کیا۔ تقریباً 12 افراد نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی سندھ میں شاخ قائم کرنے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی۔ انھوں نے اس کی اہمیت بھی بتائی اور اس حوالے سے انھوں نے بہت پختہ دلائل دیے۔ اس کانفرنس میں شیخ عبدالمجید سندھی کو متفقہ طور پر نئی قائم ہونے والی سندھ مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا۔

1938 میں منعقد ہونے والی کراچی مسلم لیگ کانفرنس میں شیخ عبدالمجید سندھی نے تاریخی قرارداد پیش کی جس نے تحریک تقسیم برصغیر و قیام پاکستان کی بنیاد ڈالی۔ اس کانفرنس کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ عبدالمجید سندھی کی خدمات کو سراہا۔

اللہ تعالیٰ نے شیخ عبدالمجید سندھی کو خطابت کی زبردست صلاحیت سے نوازا تھا اور وہ شعلہ بیان مقرر تھے۔ ان کے الفاظ لوگوں کے دل میں اتر جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ شخص جس نے ہندو سے مسلمان ہونے کے بعد جس جوش و جذبے سے ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے لیے نہ صرف آواز بلند کی، بلکہ عملی طور پر اپنے قلم اور سیاسی جدوجہد سے مسلمانوں کے مسائل اجاگر کیے، ان کی ان تمام خدمات کا صلہ دینے کے بجائے انھیں سیاسی طور پر بالکل نظر انداز کردیا گیا اور وہ سیاسی طور پر ناپسندیدہ شخصیت ٹھہرے۔ ان کا کردار مثالی تھا اور وہ کثیرالجہت شخصیت کے مالک تھے۔

عمر کی طوالت اور ضعف پیری نے بھی انھیں مجبور کردیا تھا کہ وہ سیاست سے دست کش ہو جائیں۔ 90 برس کی عمر میں انھوں نے حیدرآباد کے لیاقت میڈیکل کالج اسپتال میں وفات پائی۔ 24 مئی 1978 کو مسلمانوں کا یہ بے لوث خدمت گار، علاقائی عصبیت سے پاک راہ نما، سرمایہ افتخار، قیادت کا یہ روشن چراغ بجھ گیا۔ شیخ عبدالمجید سندھی کی وصیت کے مطابقت انھیں ٹھٹھ کے مشہور قبرستان مکلی میں مرزا عیسیٰ ترخان کے مقبرے کے قریب دفن کیا گیا۔ اسپین کی فتح (تاریخ) 1929 ، حضرت عمر بن عبدالعزیز (سوانح) 1933، المرتضیٰ (سوانح)، تاریخی جواہر (تاریخ) آپ کی یادگار تصانیف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔