اصلاحِ معاشرہ میں خواتین کا کردار

پروفیسر فائزہ احسان صدیقی  جمعـء 18 ستمبر 2020
نئی نسل کی ذات و شخصیت میں  اعلیٰ اقدار اور اوصاف حمیدہ کا رچاؤ ماں ہی کرتی ہے۔  فوٹو : فائل

نئی نسل کی ذات و شخصیت میں  اعلیٰ اقدار اور اوصاف حمیدہ کا رچاؤ ماں ہی کرتی ہے۔ فوٹو : فائل

معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور فرد ہمیشہ اصلاح طلب رہتا ہے۔ افراد کا تشکیل پذیر معاشرہ بھی بالکل افراد ہی کی طرح ہمیشہ اصلاح چاہتا ہے اور خصوصاً ہمارا موجودہ معاشرہ۔ آج کے معاشرے میں اعلیٰ اقدار زوال پذیر ہیں۔

اچھائیوں کا تناسب روز بہ روز کم ہوتا جارہا ہے اور برائیوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا اصلاح معاشرہ کی ضرورت آج کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہے۔ گھروں کا ماحول پاکیزہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہو تو گویا معاشرے کی ہر اکائی بہ ذات خود بہتر، ستھری اور پاکیزہ ہوگی اور اس طرح ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔

اصلاح معاشرہ میں خواتین کے کردار پر غور کرتے ہوئے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ خواتین، مجموعی معاشرے میں تعداد کے لحاظ سے مردوں کے تقریباً مساوی ہوتی ہیں۔ لہٰذا اوّل تو اگر ہر خاتون اپنی ذات کی اصلاح پر توّجہ دے تو پھر اس طرح عورتیں معاشرے کی اصلاح پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔

دوسرے یہ کہ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر، چوں کہ خواتین کے دائرے کار کا محور و مرکز ہُوا کرتا ہے اس لیے معاشرے کے بگاڑ کی اصلاح کے لیے گھر یعنی معاشرے کی بنیادی اکائی کو مستحکم کرنا نہایت بنیادی بات ہے اور خانگی زندگی کا دار و مدار صنفِ نازک پر ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو خانگی اور معاشرتی ہر سطح پر ان کا صحیح مقام و درجہ عطا فرمایا۔ خانگی اور معاشرتی ہر دو سطح پر عورت کو انسانی عظمت و احترام سے سرفراز کیا۔ دراصل کسی معاشرے میں عورت کو جو مقام عطا کیا جائے وہ اس لیے بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک تو اس مقام کی بہ دولت خود عورت کی ذات، شخصیت اور معاشرے میں اس کے کردار کا تعین ہو تا ہے، دوسرے لازمی طور پر خود پورا معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔

اور اگر عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ نہ دیا جائے تو ناصرف معاشرہ اس کی قابلیت و صلاحیت سے استفادہ کرنے سے محروم رہتا ہے بل کہ عورتیں اپنے مخصوص دائرہ کار یعنی گھر میں بھی خاطر خواہ اور بھرپور کردار ادا نہیں کرسکتیں۔

اصلا ح معاشرہ کے عمل میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ عورت ماں ہے اور ماں کی گود میں ہر معاشرے کی نئی نسل پیدا ہو تی ہے اور اسی کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہے۔ ماں اپنی تربیت سے نسلِ نَو کو کردار و عمل کا ایسا نمونہ بنا سکتی ہے جو انسانیت کے لیے باعث فخر ہو۔ نئی نسل تک زندگی کی اعلیٰ اقدار کو پہنچانے میں عورتوں کا حصہ زیادہ ہو تا ہے اور نئی نسل کی ذات و شخصیت میں اعلیٰ اقدار اور اوصاف حمیدہ کا رچاؤ ماں ہی کرتی ہے۔

غیر محسوس طور پر اپنے نظریات، اپنے طرز فکر اور اپنی شخصی خوبیوں کو اپنی گود میں پلنے والی نئی نسل کو منتقل کرتی رہتی ہے۔ ماں کی گود انسان کی اوّلین درس گاہ ہو تی ہے۔ یہ درس گاہ جتنے بلند معیار کی ہوگی، یعنی ماؤں کی تربیت جتنے بلند معیار کی ہوگی، اگر جذبۂ ایمانی کی سچائی کے ساتھ ہوگی اور اسلام کی تعلیمات کی روح کے مطابق ہوگی تو معاشرہ بھی اسی معیار کا ہوگا۔

رسول کریمؐ نے جب صحابۂ کرامؓ کے سامنے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔

مفہوم: ’’اے اہل ایمان! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنّم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘

تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! ہم اپنے آپ کو تو جہنّم کی آگ سے بچا سکتے ہیں، لیکن اپنے اہل و عیال کو جہنّم سے کیوں کر بچاسکتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تم انہیں ایسے کا م کرنے کا حکم دیتے رہو جن سے اﷲ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ان کاموں سے روکتے رہو جن سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہو تا ہے۔‘‘

اصلاح اور معاشرے کے لیے یہی بنیادی عمل ہے، یعنی اچھائی کا پھیلاؤ اور گناہوں سے روکنے کا فریضہ اور تعلیمات نبو ی ﷺ کی روشنی میں اصلاح اور معاشرے میں اہل ایمان خواتین کے کردار کی یہ اساس ہے۔ حدیث مبارک کا مفہوم ہے: ’’تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے (اس کی رعیت کے متعلق) سوال کیا جائے گا۔ اور ماں باپ سے ان کی اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔‘‘

لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ مسلمان خواتین تربیّت اولاد اور اصلاح اولاد کے متعلق ذمّے دار ہیں اور ان سے اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ہم مسلمان خواتین پر ان احادیث کی روشنی میں فرض عاید ہو تا ہے کہ جو اولاد اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے لطف و کرم سے عنایت کی ہے اس کی تربیّت و پرورش پوری ہوش مندی سے کریں۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا اہم فریضہ ہے جس سے پورا معاشرہ بنتا ہے۔ لہٰذا حکیم و بصیر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے تربیّت اولاد، شخصیت سازی اور اصلاح معاشرہ کا جو بے حد اہم اور بنیادی فریضہ مسلمان خواتین کو تفویض کیا ہے اس کے لیے ان سے یوم حشر سوال کیا جائے گا۔

آج جب ہم اپنے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ، اعلیٰ اقدار کی کمی اور عملیت کا فقدان دیکھتے ہیں۔ آج جب ہم مسلمانوں کو کردار سے عاری دیکھتے ہیں تو یہ صورت احوال دراصل اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ آج کی مسلمان مائیں یا تو اخلاصِ عمل سے، جذبۂ ایمانی کے لحاظ سے اس معیار اور اس درجے کی مسلمان خواتین نہیں رہیں یا پھر اپنے فرائض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہیں، جس معیار پر تعلیمات نبوی ﷺ کے مطابق مسلمان ماؤں کو ہونا چاہیے۔

ماؤں کی سیرت و کردار، علم و فضل اور معمولات تو بچے کی شخصیت و ذات پر اس کی ولادت سے پہلے یعنی دوران حمل سے اثرانداز ہوتا ہے اور رحم مادر میں بچے کے ذہن کی ساخت و تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ تمام اولیائے کرام ؒؒ اور نیک ہستیوں کی مائیں ہمیشہ بہت نیک، متّقی اور باعمل خواتین رہیں۔ راسخ العقیدہ اور باعمل مسلمان خواتین کے بطن سے ہی قابل فخر فرزندان اسلام اور بطل جلیل پیدا ہُوا کرتے ہیں۔ یہی حکمت تھی کہ کائنات کے محسن اعظم خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے اہل ایمان خواتین کی تربیّت و تعلیم پر زور دیا اور مسلمان مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کے لیے بھی طلبِ علم کو فرض قرار دیا۔

ماہرین عمرانیات کی نظر میں معاشرتی اصلاح کا جامع اور ہمہ گیر پروگرام یہی ہے کہ افرادِ معاشرہ کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے اجالوں میں لایا جائے۔ یعنی معاشرتی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کو تعلیم یافتہ بنادیا جائے۔

اور یہ صرف ایسی وقت ہوسکتا ہے جب مسلمان خواتین کو حصول علم سے محروم نہ رکھا جائے۔ آج اگر بیٹوں کی تعلیم پر والدین یہ سوچ کر توّجہ دیتے ہیں کہ وہ باشعور شہری بنیں، اپنی معاش بہتر طور پر کما سکیں تو بیٹیوں کو بھی اسی طرح تعلیم سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیں کہ وہ باشعور شہری بنیں نیز بہتر ماں، بیوی، بہن اور بہتر بیٹی بن سکیں۔ مسلمان خواتین حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں اگر طلب علم کے فریضے کو اوّلین اہمیت دیں اور اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے حصول علم کی راہ ہم وار کریں تو یہ معاشرہ تعلیم یافتہ افراد کا معاشرہ ہوگا اور جہالت کے باعث، جو معاشرتی بُرائیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔

قرآن حکیم نے مومن عورتوں کے اوصاف کو بیان کردیا۔ آپؐ نے عورتوں کو حیا کی تلقین کی، عورتوں کو اپنی زینت کی نمائش سے روکا۔ غور فرمائیے! ان تعلیمات نبویؐ سے عورتوں کے معاشرتی طرز عمل سے اصل مقصود معاشرے کو فحاشی، عریانیت اور بے حیائی سے پاک کرنا ہے۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والی خواتین کو معاشرے میں عزّت و وقار اور احترام ملتا ہی ہے۔

تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں معاشرتی اصلاح پر غور کرتے ہوئے اور خواتین کے کردار پر لایعنی بحث کرنے سے بہتر یہ ہوگا کہ آج پاکستانی معاشرے کے قابل اصلاح پہلوؤں کو فرداً فرداً زیر غور لایا جائے۔ نیز یہ جائزہ لیا جائے کہ ان مسائل و نقائص کی اصلاح کے ضمن میں تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں مسلم خواتین کا کیا کردار ہوگا۔

آج ہمارے معاشرے میں راتوں رات دولت مند بن جانے کا جنون عام ہے۔ کسب حلال کی اہمیت کو پس پشت ڈال کر دولت کی ہوس نے معاشرے میں بے شمار خرابیوں کو جنم دیا ہے۔ اگر خواتین نبی کریمؐ کی تعلیمات کے مطابق سادگی سے اپنی زندگی بسر کرنے کو شعار بنالیں، غیر ضروری فرمائشیں اور ہر آسائش کی خواہش سے اپنے آپ کو باز رکھیں تو ان کے گھرانے کے مرد ناجائز حصول دولت پر مجبور نہیں ہو ں گے۔ راشی و مرتشی دونوں کو جہنّم کی وعید دینے والی حدیث کی ناصرف یاد دہانی کروا کے بل کہ غیر ضروری اخراجات سے پہلوتہی کرکے خواتین رشوت کی لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔

معاشرہ، اخلاقی اعتبار سے جس انحطاط کا شکار ہے۔ اوّل تو یہ کہ اگر ہر عورت حیاء اور پردے کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو تو بے حیائی اور فحاشی کا قلع قمع ہوجائے۔ عورت کی نام نہاد آزادی کے رجحان کی بہ دولت اسلامی معاشرت کے خلاف ہمارے رویّے کی اصلاح صرف اس طور پر ممکن ہے جب ہم اپنی زندگی کو نبی کریم ﷺ کی تلقین کے عین مطابق گزاریں۔ آج اگر مسلمان خواتین اپنے اور اپنی اولاد کے معاشرتی رویّے میں تعلیمات نبوی ﷺ کے تحت یہ روش اختیار کریں کہ ہر مسلمان سے، ہر ہم وطن سے یہ سوچ کر کہ میرے آقا مولا ﷺ نے مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور بھائی سے محبّت کی جاتی ہے، اس کا لحاظ کیا جاتا ہے۔

اس سے مروّت برتی جاتی ہے، اس کا احترام کیا جاتا ہے، اس سے درگذر کیا جاتا ہے۔ اس طرح صوبائی تعصب اور منافرت کا وجود پاکستان کے معاشرے سے عورت ہی ختم کرسکتی ہے۔ نئی نسل میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کا صحیح معنوں میں سدباب مسلمان ماں کے فیضان نظر سے ممکن ہے۔ اگر نئی نسل کے لیے ان کی مائیں ان کی حقیقی دوست اور غم گسار بن جائیں۔

ان کے محرومیوں میں ان کا ذہنی و جذباتی سہارا ہوں۔ ان میں ہمّت و حوصلہ پیدا کرنے والی ہوں اور اپنی اولاد کو اﷲ سے لو لگانے کی ترغیب دینے والی ہوں۔ اﷲ پر کامل بھروسا اور مکمل ایمان و ایقان ان کی روح میں اُتار دیں تو ایسے تباہ کن سہاروں کی تلاش یا ایسے سہارے پکڑنا ہمارے بچوں کا مقدّر نہیں بن سکے گا۔

باری تعالی آج کی مُسلم خواتین کو مسلمان ماں کا نُورِ بصیرت اور طرز محبّت عطا کردے۔ تاکہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو زندگی گزارنے کا اصل مقصد اور طریقہ سمجھ آجائے اور ہمارا معاشرہ خالصتاً مادی معاشرے کے بہ جائے ایسا معاشرہ بن جائے جس کا منتہائے مقصود دین و دنیا کی فلاح ہو۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔