جنسی جرائم، واضح اور سخت قوانین وضع کرنے کا وقت

راضیہ سید  پير 21 ستمبر 2020
جنسی جرائم کے جلد خاتمے کےلیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

جنسی جرائم کے جلد خاتمے کےلیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دنوں عصمت دری کا جو واقعہ موٹر وے پر پیش آیا اس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن کیا ہم سب یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ ان مسائل کا حل کیا ہوگا؟ اور آئندہ کےلیے کیسے ان واقعات سے بچا جاسکے گا؟ ایک اسلامی معاشرے میں جہاں ہمیں بظاہر خواتین اور بچوں کی عزت و آبرو محفوظ نظر آتی ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟

ہرگز نہیں۔ میڈیا سے ملنے والی خبروں کے مطابق اس سانحے کا مرکزی ملزم عابد علی جس کا ڈی این اے میچ کرگیا، وہ تو 2013 سے ہی اسی طرح کے جنسی جرائم میں ملوث رہا ہے اور اس کا ڈی این ریکارڈ پہلے ہی سے موجود ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مجرم کو کھلے عام کیوں چھوڑ دیا گیا تھا؟ اسے تو سات سال پہلے ہی کال کوٹھڑی میں ہونا چاہیے تھا تاکہ آئندہ کسی بہن بیٹی کی عزت کو تار تار نہ کرسکے۔

دیکھا جائے تو جنسی جرائم کی بنیادی وجہ مجرموں میں قانون کا خوف نہ ہونا ہے۔ یہ تاثر اور یقین کہ ہم کسی بھی خاتون یا بچے کی عصمت دری کرلیں گے اور ہمیں کچھ نہیں ہوگا، برائی کی جانب اکساتا ہے اور معاشرے میں بدکار عناصر جنم لیتے ہیں۔ یہی نام نہاد مردانگی کا زعم انسان کو انسانیت کے درجے سے بھی گرا دیتا ہے۔ جب ایک بدکار انسان جنم لیتا ہے تو وہ پوری انسانیت کےلیے ننگ و عار کا باعث بن جاتا ہے اور یہ گناہ عظیم کرنے کے بعد بے خوف ہوکر ہر اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے جو احترام آدمیت کے خلاف ہے۔

خاندانی تربیت میں اچھائی کا فقدان، گھروں میں بچوں کو توجہ نہ ملنا، بالخصوص بچوں کے دوستوں، ان کے سوشل میڈیا گروپس، دلچسپیوں اور رحجانات پر نظر نہ رکھنا بھی اہم وجوہات ہیں۔ لیکن بعض اوقات حقیقت اس کے برعکس بھی ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ماں باپ اچھے بھی ہوتے ہیں لیکن ان کی اولاد کسی اور ڈگر پر چل نکلتی ہے اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر ان کی عزت خاک میں رول دیتی ہے۔

جنسی جرم دراصل ایک نفسیاتی مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ کئی لوگوں کو زندگی میں خواتین کے حوالے سے تلخ تجربات کا سامنا رہتا ہے، اب خواہ وہ بچپن میں سوتیلی ماں کے روپ میں ہو یا آفس میں آپ سے ذہین اعلیٰ عہدے پر فائز کوئی خاتون۔ اب ریپ ایسی خواتین سے حسد اور انھیں نشان عبرت بنانے کےلیے بھی ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔

یہ نہیں ہے کہ مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ مہذب سے یہاں میری مراد مغربی نام نہاد مادر پدر آزاد معاشرے ہیں، وہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اب سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی وجہ سے یہ معاملات منظر عام پر آئے ہیں اور ان موضوعات پر بات بھی ہونے لگی ہے۔ ہمارے معاشرے میں زیادتی کا شکار ہونے والی عورت یا بچوں کو ہی قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ کیونکہ طاقت ور کو پکڑا نہیں جاسکتا تو کمزور کے خلاف ثبوت اکٹھے کرلیے جاتے ہیں کہ تمھیں خود ہی احتیاط کرلینی چاہیے تھی یا فلاں رشتہ دار ایسا نہیں کرسکتا۔

یہ سب ہمارے منفی رویے ہیں جو مجرم کو اور بھی طاقت ور بنادیتے ہیں۔ میں جلد شادی اور نکاح کے حق میں ہوں کہ حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے نکاح کیا اس نے گویا آدھا ایمان محفوظ کرلیا۔ لیکن زناکاری کے بارے میں ہمیشہ یاد رکھیے کہ یہ ایک علت ہے، ایک برائی اور گھن ہے جس میں شادی شدہ اور کنوارے کی کوئی تخصیص نہیں۔ بس جس کا جہاں داؤ چل جائے وہاں ہی اپنا آپ دکھا دیتا ہے۔ ایسے درندوں کےلیے نکاح جیسے مقدس رشتے بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ اس قبیح فعل کو اپنے لیے ایک میڈل تصور کرتے ہیں۔

المختصر جنسی جرائم کے جلد خاتمے کےلیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک والدین کو الزام دیں گے؟ ہم کب تک میڈیا کو قصوروار ٹھہرائیں گے؟ ہم کب تک ذہنی مریضوں کو اس معاشرے میں بسائے رکھیں گے اور ان کے گناہوں کی پردہ پوشی کریں گے؟

ہم کب تک اپنے قوانین کو صرف دستاویزات کی زینت ہی بناتے رہیں گے؟ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ اس گھناؤنے جرم کے خاتمے کےلیے ریاستی طاقت کی تلوار ہی واحد اور موثر حل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔