مائنڈ سیٹ کی تبدیلی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 19 ستمبر 2020
tauceeph@gmail.com

[email protected]

موٹروے پر ایک خاتون کی بچوں کے سامنے زیادتی کے بعد ملک میں ایک بے چینی اور بحث و مباحثہ جاری ہے۔ اس سانحہ کے بعد عوام کا ردعمل بہت مثبت ہے۔ سیاسی جماعتیں احتجاج کررہی ہیں، خواتین تنظیموں اور سول سوسائٹی نے ملک بھر میں احتجاج کیا ہے۔

دائیں بازو کی جماعت اسلامی نے بھی کراچی میں برقع پوش خواتین کی ریلی منظم کی تھی۔ بعض ناقدین نے خواتین تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اراکین کے احتجاجی نعروں پر اعتراضات شروع کردیے ہیں ۔ سینیٹ میں زیادتی کے مجرموں کو نامرد بنانے کی سزا کا قانون پیش ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس تجویز سے متفق ہیں۔ قومی اسمبلی میں مجرموں کو سرعام پھانسیاں دینے کی تجویز پر بھی رائے لی جا رہی ہے۔

جب بھی ملک میں اس طرح کا سانحہ ہوتا ہے کچھ دنوں تک یوں ہی شور شرابہ ہوتا ہے اور کسی نئے جرم ہونے تک خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں عورتوں اور بچوں سے جرائم کے حوالے سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح شاید ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ پھانسیاں دی جاتی ہیں، اگر سائنسی طور پر عورتوں اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو دور رس اقدامات ممکن ہیں۔

ملک میں ہزاروں سال سے پدرسری نظام رائج ہے۔ لاہور پولیس کے سربراہ کا بیان بھی جس پر انھوں نے معذرت کر لی ہے مجموعی طور پر پدرسری نظام کے تحت مردوں کے ذہنی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ سی سی پی او نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، یہ ثابت کرتا ہے کہ تحریک انصاف کی مرد قیادت خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کو شعوری طور پر درست نہیں سمجھتی۔ ان حقوق میں خواتین کی آزاد نقل و حرکت کا حق بھی شامل ہے۔

ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اس طرح کا نظام بنائے کہ ہر عورت رات دن کی تفریق کے بغیر ملک کے کسی بھی علاقے میں اکیلی سفر کر سکے۔ اسی طرح خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ کوئی فرد خواہ اس کا تعلق پولیس یا دیگر اداروں سے ہو یا عام آدمی ہو کسی خاتون کے اسٹائل اور اس کی نقل و حرکت کی بناء پر اس کے کردار کے بارے میں کوئی منفی خیال اپنے ذہن میں نہ لائے نہ ایسے خیال کا اظہار کرے۔

سائنسی طرز فکر نہ ہونے کی بناء پر قدامت پسند خواتین بھی مردو ں کی طرح اسی سوچ کی حامل ہیں۔ یہ خواتین گھروں میں اپنی سوچ کا اظہار کرتی ہیں، یوں بچوں کے ذہن اسی طرف مائل ہوتے ہیں اور مردوں کا ذہن بھی ویسا ہی تیار ہوتا ہے۔ جب قصور میں معصوم بچی زینب کا قتل ہوا تو پنجاب پولیس نے مجرموں تک پہنچنے کے لیے جدید طریقے استعمال کیے، یوں مجرم پکڑا گیا اور پھر خصوصی عدالت نے اس مجرم کو سزائے موت دی۔

گورنر، وزیراعظم اور اس وقت کے صدر نے اس مجرم کی رحم کی اپیلیں مسترد کیں اور ملک کے قانون کے تحت پھانسی کی سزا پر عملدرآمد ہوا۔ ذرایع ابلاغ نے اس ملزم کی سزا کے معاملے کی خوب تشہیر کی مگر ایک سیاہ حقیقت یہ ہے کہ اس مجرم کے عبرت ناک انجام کے باوجود بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم میں کمی نہیں ہوئی، مگر نہ توکسی صوبائی حکومت نہ وفاقی حکومت نے اس بات پر تحقیق کرنے پر توجہ دی کہ آخر جرائم کے بڑھنے کی کیا وجوہات ہیں۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ضیاء الحق کے دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستانی سماج کی ساخت تہس نہس ہو چکی ہے۔ نوجوان کیوں ان جرائم کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کی نفسیاتی، سماجی اور اقتصادی و سیاسی وجوہات ہیں۔

بعض افراد اس کا الزام ذرایع ابلاغ خاص طور پر سوشل میڈیا پر بیان کیے جانے والے مواد پر عائد کرتے ہیں۔ کچھ صاحبان دانش اس صورتحال کو امریکا، یورپ اور اسرائیل کی سازش قرار دیتے ہیں مگر کسی بھی مدبر نے اس صورتحال کے حقیقی محرکات کا پتہ چلانے کے لیے سائنسی تحقیق کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ حکومت کا فرض ہے کہ پہلے نفسیات، سماجیات، سیاسیات، اقتصادیات،ابلاغ عامہ، طبی ماہرین، پولیس افسران پر  مشتمل کمیٹیاں بنائے۔ یہ کمیٹیاں شہروں اور گاؤں میں تحقیق کریں۔ والدین، اساتذہ، علماء، دکاندار، گھریلو خواتین اور مجرموں کے خاندانوں سے تحقیق کی جائے۔

یہ ماہرین مختلف جیلوں میں جا کر ملزموں اور مجرموں سے بھی معلومات حاصل کریں اور ان وجوہات کا کھوج لگائیں کہ ایک نوجوان اور بعض کیسوں میں بلوغت تک نہ پہنچنے والے لڑکے جنسی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، یہ تحقیق مستقل کی جائے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں لڑکے لڑکی کی تفریق لڑکوں میں ہیجان پیدا کرتی ہیں۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نچلی سطح تک مخلوط تعلیم کو رائج کیا جائے، والدین اور اساتذہ بچوں کو سمجھائیں کہ لڑکیاں اور لڑکے ایک جیسے ہیں اور لڑکے جب لڑکیوں کے ساتھ پڑھیں گے تو ان کا ذہن تعمیری انداز میں سوچے گا۔ سوشل میڈیا پر جنسی مواد کی بھرمار ہے، ہر بچہ کی اسمارٹ فون تک رسائی ہے۔ ویب سائٹ پر کتنی ہی پابندیاں عائد کی جائیں یہ جدید ٹیکنالوجی ہر رکاوٹ کو عبور کر لیتی ہے۔ بچے اور نوجوان پراکسی کے ذریعے ممنوعہ مواد حاصل کر لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب نصاب میں تبدیلی کی جائے۔

ماہرین کے مشورہ سے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں مخصوص تعلیم کے باب شامل کیے جائیں، اگر ایسی تعلیم کے باب شامل ہونگے تو لڑکیوں کو الگ مخلوق سمجھنے کا تصور ختم ہو گا اور لڑکے ہیجان کی کیفیت سے بچ جائیں گے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے پولیس افسروں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ملزموں تک پہنچنے کا دعویٰ کیا اور مبینہ ملزمان کی تصاویر ذرایع ابلاغ کے حوالے کر دیں۔

تفتیش کے بین الاقوامی اصولوں کے تحت جب تک پولیس ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش نہیں کرتی ملزمان کی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی۔ پولیس افسران نے ٹی وی چینلز پر یہ کارنامہ بیان کیا کہ ایک ملزم کی بیٹی ، باپ اور بھائیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے، یہ قطعی درست عمل نہیں ہے کہ جن لوگوں نے جرم نہیں کیا ان کو مجرمانہ انداز میں تھانہ میں بند کیا گیا ہے۔

یوں ایک طرف ملزمان میں انتقام کا جذبہ پیدا کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ملزمان کو سرکاری طور پر اطلاع فراہم کی جا رہی ہے تا کہ وہ فرار کا راستہ اختیار کریں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے سپریم کورٹ میں اس حقیقت کا اقرار کیا کہ پاکستان کا کریمنل جسٹس سسٹم ملزموں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اگر یہ معاملہ ذرایع ابلاغ پر نشر نہ ہوتا تو متاثرہ خاتون اور ان کے اہل خانہ کے لیے ایف آئی آر درج کرانا مشکل ہو جاتا۔

پولیس کا انحصار ڈی این اے ٹیسٹ پر ہے۔ اب تک شایع ہونے والی تحقیقات کے مطابق اس واقعہ کا براہ راست کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک فتویٰ کے تحت ڈی این اے کو بطور شہادت استعمال نہیں کیا جا سکتا، یوں ملزمان کے بری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کو ایک جامع قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ متاثرہ افراد کی فوری طور پر دادرسی ہو سکے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ پولیس فورس میں خواتین کی تعدداد زیادہ ہو جائے تو بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کا تدارک ہو سکتاہے۔

عدالتوں میں مقدمات کی سماعت اتنی طوالت کا شکار ہوتی ہے کہ جرائم سے متاثرہ خواتین و بچے عدالتوں کا چکر لگا کر خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں۔ ان مقدمات میں صفائی کے وکلاء متاثرہ خواتین سے جرح کے دوران ان کی کردار کشی کرتے ہیں۔

اعلیٰ عدالتوں اور وکلاء کی منتخب تنظیموں کو اس صورتحال کا تدارک کرنے کے لیے کریمنل جسٹس سسٹم میں تبدیلی کے لیے تجاویز مرتب کرنی چاہئیں۔ جب سے الیکٹرونک میڈیا کی نشریات شروع ہوئی ہے ابلاغ عامہ کے اساتذہ نے غیر سرکاری تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کی مدد سے ریپ سے متاثرہ خواتین اور بچوں کی شناخت نہ جاری کرنے کے بارے میں مختلف مہمیں چلائی ہیں۔

یہ اطمینان کی بات ہے کہ موٹر وے کے اس سانحے کی رپورٹنگ میں اصول و قواعد کا مکمل احترام کیا گیا اور متاثرہ خاتون اور ان کے اہل خانہ کی شناخت ظاہر نہ ہوئی۔ مسئلہ کا حل سرعام پھانسی اور نامرد بنانے کے قانون میں نہیں بلکہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔