بلدیاتی انتخابات کی دیگ اختلافات کی آنچ پر

عارف عزیز  بدھ 18 دسمبر 2013
سنی تحریک کا شیرازہ بکھر جائے گا؟  فوٹو : فائل

سنی تحریک کا شیرازہ بکھر جائے گا؟ فوٹو : فائل

کراچی: صوبے کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی بلدیاتی انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور نئے شیڈول کے اعلان سے قبل مختلف سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے راہ نماؤں کے درمیان ملاقاتوں میں تیزی آگئی ہے۔

مختلف جماعتوں کی طرف سے سیاسی اتحاد کر کے اپنے مخالفین کے مقابلے پر امیدوار لانے کے فیصلے کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم، حلقہ بندیوں اور الیکشن کے انعقاد پر اختلافات سے عوام میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے بلدیاتی الیکشن مارچ تک مؤخر کرنے اور الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ پر اصرار بھی انہیں الجھاتا رہا ہے۔ بلدیاتی نظام کے تحت اپنے مسائل کا حل اور سہولیات کے طلب گار کراچی کے شہریوں کا ایک بڑا مسئلہ بدامنی اور ہدفی قتل بھی ہے، جس میں دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود کمی نہیں آسکی ہے۔ ان حالات میں شہریوں کی اکثریت حکومت سے بدظن اور نالاں نظر آتی ہے۔

گذشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے سندھ میں حلقہ بندیوں اور لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کے معاملے پر سندھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں مشترکہ ریکوزیشن جمع کرائی جائے گی۔ یہ فیصلہ مسلم لیگ فنکشنل کے راہ نما جام مدد علی کی رہائش گاہ پر اجلاس میں کیا گیا، جس کے بعد صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے مسلم لیگ فنکشنل کے صوبائی صدر پیر صدر الدین شاہ راشدی نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں تیسری ترمیم کا آرڈیننس غیر آئینی ہے، اسے ہم تسلیم نہیں کرتے اور اس کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے۔ حکومت سندھ نے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے لیے ترمیمی آرڈیننس جاری کیا اور اسے اسمبلی میں نہیں لایا گیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر ارباب غلام رحیم نے کہا کہ پچھلے پانچ سال میں صوبے کو خوب لوٹا گیا۔ سندھ میں حلقہ بندیوں کے لیے اپیلیں بھی نہیں سنی گئیں۔ الیکشن کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ صوبائی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ اسمبلی کی موجودگی میں بلدیاتی آرڈیننس جاری کرنا غیر قانونی ہے، جسے مسترد کرتے ہیں، لیکن الیکشن کا کسی صورت بائیکاٹ نہیں کریں گے۔

ادھر جمعے کے روز وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق قائم کردہ وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ حکومت 18 جنوری کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے، کیوں کہ ہم کسی ادارے سے ٹکراؤ نہیں چاہتے۔ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ انتخابات کا انعقاد کام یاب ہو، ووٹر لسٹوں میں ووٹرز کے نام کا ان کے اپنے علاقے میں درست اندراج اور مقناطیسی سیاہی کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ مارچ میں انتخابات چاہتی تھی تاکہ تمام امیدواروں کو مکمل تیاری کا موقع مل سکے۔ لیکن الیکشن کمیشن تاریخ بڑھانا نہیں چاہتا، پوری کوشش کریں گے کہ اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کر لیے جائیں۔ بلدیاتی انتخابات صاف اور شفاف طریقے سے کروانے کے لیے حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اس کے ساتھ انہوں نے پی پی پی کو عوامی پارٹی بتاتے ہوئے کہا کہ عوام نے ہمیشہ پی پی پی کو ووٹ دیے ہیں اور اس مرتبہ بھی دیں گے۔

ہفتہ کے دن پیپلز پارٹی (سندھ) کے صدر کی حیثیت سے سید قائم علی شاہ کے زیر صدارت پارٹی راہ نماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں 18 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں، امیدواروں کے چناؤ اور ان انتخابات میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے ممکنہ اتحاد پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔ پارٹی ذرایع کے مطابق پیپلز پارٹی بھرپور طریقے سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے گی اور ہر سطح پر مربوط انداز میں انتخابی مہم چلائی جائے گی۔

اجلاس میں صوبائی صدر نے تمام پارٹی راہ نماؤں اور اراکین اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ عوام سے رابطے میں رہیں۔ اجلاس میں مقامی حکومتوں کی نشستوں پر پارٹی کے امیدواروں کے حتمی چناؤ سے متعلق غور کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ ضلعی صدور کی نگرانی میں الیکشن بورڈ قائم کیے جائیں گے، جو یونین کونسلوں اور یونین کمیٹیوں کی نشستوں پر امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دیں گے، جب کہ میٹرو پولیٹن اور ڈسٹرکٹ کارپوریشن کی نشستوں پر امیدواروں کا حتمی تعین صوبائی الیکشن، ضلعی الیکشن بورڈ کی سفارشات پر کرے گا۔ اجلاس میں طے پایا کہ شہید بے نظیر بھٹو کی 27 دسمبر کو برسی کے موقع پر عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی۔

سنی تحریک میں اختلافات کے بعد دھڑے بندی کا معاملہ بھی مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے اثرات سندھ کے دوسرے علاقوں میں بھی دیکھے گئے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان سنی تحریک کے نئے دھڑے کی طرف سے دعوی کیا گیا کہ سنی تحریک کی موجودہ قیادت معطل ہے اور ان کی تحریک میں کوئی تنظیمی حیثیت نہیں ہے جس کی تردید سنی تحریک کے ترجمان فہیم الدین شیخ نے کی۔ گذشتہ دنوں پاکستان سنی تحریک علماء بورڈ کے ڈپٹی کنوینر مفتی خضرالاسلام نقشبندی نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سنی تحریک کی موجودہ قیادت کی جگہ تحریک کے بانی محمد سلیم قادری کے صاحب زادے محمد بلال سلیم قادری، محمد بلال عباس قادری اور عبداللہ اکرام قادری کو نگراں بنایا گیا ہے، معطل قیادت زبردستی عہدوں پر قابض ہے اور تحریک میں ان کی کوئی تنظیمی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہماری موجودہ قیادت 12 ربیع الاول کو کراچی میں شہداء کے عرس کے موقع پر تنظیمی امور سے متعلق اہم اعلان کرے گی۔ اس موقع پر محبوب علی سہتو، محمد سجاد قادری، خان محمد جتک اور دیگر بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام علمائے اہل سنت سے اپیل کرتے ہیں کہ سنی تحریک کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور کارکنان نااہل قیادت سے تحریک کو آزاد کرانے میں ہمارا ساتھ دیں۔ دوسری جانب سنی تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے فہیم الدین شیخ نے کہا کہ تحریک میں گروپ بندی کی اطلاعات درست نہیں، چند تحریک سے نکالے ہوئے عہدے دار اپنے مفادات کے حصول کے لیے تحریک کا نام استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکرٹری غلام سرور سیال نے صوبائی صدر حلیم عادل شیخ سے مشاورت کے بعد کراچی سمیت سندھ کی تمام ضلعی، ڈویژنل اور ونگز کی تنظیمیں توڑ دی ہیں اور کہا ہے کہ اگلے ہفتے کے دوران پارٹی کی تنظیم نو کا عمل مکمل کر لیا جائے گا۔ یہ بات انہوں نے پارٹی کے اراکین سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر حیدرآباد، نواب شاہ، لاڑکانہ اور سکھر سے آئے ہوئے پارٹی کے عہدے دار بھی موجود تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔