مصباح، حفیظ اور اظہر کو سلام

سلیم خالق  ہفتہ 19 ستمبر 2020
اگر جلد کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو باقی ڈپارٹمنٹس بھی ٹیمیں بند کر دیں گے۔ فوٹو: فائل

اگر جلد کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو باقی ڈپارٹمنٹس بھی ٹیمیں بند کر دیں گے۔ فوٹو: فائل

مصباح الحق ہمیشہ ارباب اختیار کی گڈ بکس میں رہے، اس کی وجہ ان کا فرمانبدار ہونا ہے،جب وہ کپتان تھے تب ان کے بارے میں عام تاثرتھا کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کیلیے فائٹ نہیں کرتے، اب وہ چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ بنے تب بھی یہی کہا جاتا رہاکہ بورڈ جو کہے گا وہی کریں گے۔

ان کی دفاعی بیٹنگ اب بھی شائقین کے دلوں پر نقش ہے، کوچنگ میں بھی دفاعی انداز نظر آتا ہے،انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز ہارنے کے بعد وہ شدید دباؤ کا شکار تھے، ان کی ایک  پوزیشن پر اب بھی کئی لوگ نظریں جمائے بیٹھے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے پریس کانفرنس میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کا مطالبہ اور بے روزگار کرکٹرز کے حق میں آواز اٹھا کر سب کو حیران کر دیا،اسی طرح اظہرعلی بھی انگلینڈ میں  بیشتر وقت آؤٹ آف فارم رہے۔

ان کی زیرقیادت ٹیم جیتا ہوا پہلا ٹیسٹ ہار گئی، آخری میچ میں سنچری بنا کر انھوں نے اپنی جگہ محفوظ کی مگر کب تک یہ واضح نہیں ہے،اظہر پر بھی مصباح کا گہرا اثر ہے اور انھیں ان کا ’’پارٹ ٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔

ان دونوں کے قریب  ایک اور کھلاڑی محمد حفیظ اب خاصے دبنگ ہو چکے اور انھیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں،مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے ان پر تنقید کی مگر تقریباً40 سال کا ہونے کے باوجود حفیظ نے انگلینڈ سے ٹی ٹوئنٹی میچز میں بہترین اننگز کھیلیں، ان تینوں میں سب سے  زیادہ سیف زون میں حفیظ ہی ہیں، ان کے پاس سینٹرل کنٹریکٹ موجود نہیں اس لیے کھل کر بات کرتے ہیں۔

مصباح کے بعد حفیظ نے ہی شعیب جٹ کو انٹرویو میں بے روزگار کرکٹرز کیلیے آواز اٹھائی،اس کے بعد یہ تینوں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کیلیے جا پہنچے، وہاں انھوں نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی پر بات تو کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، البتہ اگلے دن میڈیا میں یہ خبریں چلوائی گئیں کہ ’’وزیراعظم نے ان تینوں کو ڈانٹ دیا‘‘ وغیرہ وغیرہ، میں یہ سن کر ہنستا رہا کیونکہ کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ عمران خان صاحب نے صرف ڈانٹنے  کیلیے ان کھلاڑیوں کواسلام آباد بلایا تھا، اگر انھیں کوئی بات بْری لگتی تو ملاقات ہی نہ کرتے، وزیر اعظم کا اپنا ویڑن ہے۔

ان کے ذہن میں ریجنل کرکٹ کا تصور بیٹھا ہوا ہے، جو پلان بنا اس پر مکمل عمل نہ ہوا جس سے کھلاڑیوں و دیگر کو مشکلات کا سامنا ہے، جب حکومت کوئی پل بنانے کا سوچے اور راستے میں کوئی آبادی آ رہی ہو تو ان لوگوں کو متبادل رہائش فراہم کر کے گھر گرائے جاتے ہیں، یہاں ایسا نہ ہوا تیاریاں کیے بغیر فوراً فیصلے پر عمل درآمد کر دیا گیا جس کی وجہ سے کرکٹرز بے روزگار ہو گئے، اب کوئی ٹیکسی چلا رہا ہے تو کسی نے کوئی اورمعمولی سا کام شروع کر دیا، افسوس وزیراعظم کے سامنے درست تصویر پیش نہیں کی جا رہی، جب مصباح، حفیظ اور اظہر نے کوشش کی تو بورڈ ان کے ہی خلاف ہو گیا۔

ہیڈ کوچ اور ٹیسٹ کپتان کو بلا کر ڈانٹا جائے گا کہ ’’کیوں وزیر اعظم سے خود ملاقات کیلیے گئے‘‘ یہ بات نہ بھولیں کہ عمران خان صاحب سابق ٹیسٹ کپتان اور پی سی بی کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں لہذا ان سے اگر کرکٹرز ملنے چلے گئے تو کون سا گناہ کر دیا، بورڈ کو تو2 روز پہلے ہی پتا تھا کہ یہ سب ملاقات کیلیے جا رہے ہیں تب ہی روک دیتے۔

آپ مختلف انداز سے لوگوں کی آوازیں بند کرنے کے بجائے خود ایسے اقدامات کریں کہ سب تعریف پر مجبور ہو جائیں، جب مصباح جیسا یس مین بھی آپ کی پالیسیز سے متفق نہ ہو تو اندازہ لگا لیں کہ معاملات کس ڈگر پر جا رہے ہیں،یہاں میں انھیں داد دینا چاہوں گا کہ حق کی بات کہی، حفیظ اور اظہر تو پہلے عامر کی واپسی والے معاملے پر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکے تھے۔

ہمیں ایسا ہی ماحول تشکیل دینا چاہیے جہاں آپ ٹاپ پوزیشن پر ہوتے ہوئے بھی سچی بات کر سکیں، کسی کا کوئی ڈر نہ ہو تب ہی بہتری آ سکے گی، وزیر اعظم سے ملاقات پر ان کرکٹرز کو ڈانٹیں نہیں بلکہ بات کریں کہ اب ہمیں بتاؤ کیسے یہ مسئلہ حل کریں، یہ درست ہے کہ ان تینوں کی بھی ڈپارٹمنٹس میں  شاید 10،10لاکھ روپے ماہانہ کی ملازمتیں ہیں لیکن طویل عرصے کرکٹ کھیل کر یہ اچھی خاصی رقم کما چکے۔

اگر ملازمت ختم ہو جائے تو بورڈ سے پیسے مل رہے ہیں، انھیں کسی قسم کے مالی مسائل کا سامنا  نہیں کرنا پڑے گا مگر انھوں نے اپنے غریب ساتھیوں کیلیے آواز اٹھائی، گوکہ فوری طور پر کسی بہتری کا امکان نہیں لیکن اگر واقعی ٹی وی رائٹس ڈیل سے 200 ملین ڈالر آ گئے تو پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس بہت پیسہ ہوگا، تب وہ ان غریب کرکٹرز کی مدد بھی کر سکے گا، ویسے اس ڈیل کے سوا بورڈ کے پاس کوئی آپشن بھی نہیں تھا، کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز کو ٹی وی رائٹس فروخت کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان کو سابقہ کنٹریکٹ کی حامل بھارتی کمپنی پہلے سے بہت کم رقم دینے کا عندیہ دے چکی تھی،  ایسے میں حالیہ معاہدہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اب بورڈ حکام کو چاہیے کہ وہ ایک تفصیلی پریزنٹیشن لے کر وزیر اعظم کے پاس جائیں اور انھیں قائل کرنے کی کوشش کریں کہ کم از کم ڈپارٹمنٹس کا سالانہ ایک ٹورنامنٹ تو کرا دیں، اس سے  تاحال ملازمتوں پر برقرار کرکٹرزتو محفوظ رہیں گے۔

فی الحال تو ایسا لگتا ہے کہ اگر جلد کوئی ایکشن نہ لیا گیا تو باقی ڈپارٹمنٹس بھی ٹیمیں بند کر دیں گے، بعض نے تو اپنے اسٹاف کو آفس یا فیلڈ ورک پر لگا بھی دیا ہے، ہر کوئی وسیم اکرم تو نہیں ہوتا جو صرف نام پر پی آئی اے سے برسوں سے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے رہے، بیچارے عام کرکٹرزکہاں جائیں گے، 192 کھلاڑیوں کو بورڈ کا کنٹریکٹ ملے گا جبکہ ایک ہزار سے زائد ڈپارٹمنٹل کرکٹ کھیلتے تھے باقی کا کیا ہوگا؟،کاش بورڈ حکام کو ان غریب کرکٹرز کا کچھ خیال آ جائے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔