پاور پلانٹس ایل این جی خریداری کی لازمی شرط سے مستثنیٰ

ظفر بھٹہ  ہفتہ 19 ستمبر 2020
کابینہ کمیٹی توانائی کا جنوری 2022 نے 66 فیصد لازمی آف ٹیک ختم کرنیکا فیصلہ
 فوٹو: فائل

کابینہ کمیٹی توانائی کا جنوری 2022 نے 66 فیصد لازمی آف ٹیک ختم کرنیکا فیصلہ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  پٹرولیم ڈویژن کی مخالفت کے باوجود کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی نے ایسے تمام پاور پلانٹس جو کہ ایل این جی استعمال کررہے ہیں انھیں66 فیصد ایل این جی کی لازمی خریداری کی شرط سے مستثنیٰ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد ان پاور پلانٹس پر سالانہ 100 ارب روپے کا اضافہ بوجھ پڑے گا۔

سرکاری افسران کے مطابق اس فیصلے کا مقصد ایل این جی سے چلنے والے پاور پلانٹس کو نج کاری کے لیے پیش کرنا ہے۔ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی پروجیکٹس اسد عمر نے وزیر نجکاری کے مطالبے کے بعد یہ سمری تیار کروائی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کو سالانہ 45 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ اس وقت ایل این جی کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 6 ڈالر ہے جس کے نتیجے میں گردشی قرضوں میں سالانہ100 ارب روپے کا اضافہ ہوگا جس سے ان پاور پلانٹس کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاور ڈویژن نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ توانائی سے وابستہ تمام کمپنیوں سے نئے معاہدوں کی ضرورت ہوگی تاکہ موجودہ 800 ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی جو معاہدے کے تحت فراہم کرنی ہے اسے کھپایا جاسکے۔ اس وقت 73 ارب روپے سالانہ گردشی قرضوں کی صورت میں بڑھ رہا ہے کیونکہ ایل این جی کو مقامی سیکٹر کو بھی فراہم کیا جارہا ہے۔

قطر سے معاہدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پہلا جائزہ 2025 میں لیا جائے گا۔ اس دوران اگر عالمی مارکیٹ میں ایل این جی کی قیمت بڑھتی ہے تو پاکستان میں گردشی قرضوں میں مزید 100 سے 150 ارب روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ حکومت تو ان پاور پلانٹس کو شرط سے آزاد کررہی ہے کہ انھیں اتنی مقدار میں ایل این جی خریدنی ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔