یہ ہجرت نہیں ہے

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 20 ستمبر 2020

ہجرت کو اسلامی تعلیمات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہ عمل سنت رسولؐ ہے۔ جب کسی معاشرے میں مسلمانوں پر مظالم اس قدر بڑھ جائیں کہ ان کا اس معاشرے میں رہنا دشوارکردیا جائے ان کے جان، مال، عزت آبرو اور ایمان کو خطرات لاحق ہوں اور حکمرانوں کو خود بھی ان کی جان مال، عزت اور ایمان کے تحفظ کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ خود اس میں برابرکے شریک ہوں اور مسلمان ان زیادتیوں کو برداشت کرنے کی سکت اپنے اندر نہ پاتے ہوں تو انھیں حکم ہے کہ وہ ایسے معاشرے سے ہجرت کرکے کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں انھیں امن میسر آسکے اور جہاں وہ اپنے ایمان اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس سفر کا نام ہجرت ہے۔

ایسی ہی صورتحال میں عہد رسالت مآبؐ میں مسلمانوں نے مکہ سے پہلے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی جانب ہجرت کی۔ فتح مکہ کے بعد اہل مدینہ کے لیے یا یوں کہیے کہ اہل عرب کے لیے ہجرت لازمی نہیں رہی مگر ہجرت کا حکم ان شرائط کے ساتھ تاقیامت قائم رہنے والا ہے۔

گزشتہ کئی سو سالوں سے مسلسل مسلمان زوال کا شکار ہیں وہ اپنی عظمت ہی نہیں کھو بیٹھے ہیں بلکہ ان اصولوں کو بھی فراموش کر گئے ہیں جس کی بنا پر ان کو ہی نہیں کسی بھی انسانی معاشرے کو عروج حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ مساوات، اخوت، رواداری، انسانیت وغیرہ اقدار تو ہمارے معاشروں سے مٹ گئی ہیں تنگ نظری، عصبیت، گروہ بندی، تقسیم در تقسیم کا عمل تمام اسلامی معاشروں اور مسلم ریاستوں میں رائج ہو چکا ہے۔ اس کی اعلیٰ اقدارکو سماجی سطح پر مغربی ممالک نے اختیارکرلیا ہے اور وہ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اس مقام پر آگئے ہیں جو انسانوں کے لیے باعث کشش ہوتا ہے۔

اب گزشتہ ایک صدی سے مسلم ممالک سے لوگ خصوصاً نئی نسل، بہتر مستقبل، اعلیٰ عصری تعلیم، کشادہ رزق اور فراواں آمدنی کے علاوہ پرامن اور بہتر معاشرے میں بااصول زندگی گزارنے کی خواہش میں جوق در جوق مغربی ممالک کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ یہ تمام چیزیں اب ہمارے ملکوں میں مفقود ہوتی جا رہی ہیں بلکہ مفقود ہوچکیں۔

مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ اس سفر معاشی و معاشرتی کو ہجرت سمجھ رہے ہیں جو ہرگز ہجرت نہیں بلکہ بہتر مواقع حیات اور آسائش حیات کے واسطے خریدار خود بکنے کو تیار ہوگئے ہیں اور اس میں خوش بھی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔جو لوگ امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور اسکینڈے نیوین ممالک چلے گئے ہیں جب وہ اپنے گھروں کو کبھی کبھی جھانکنے کے لیے آتے ہیں تو ہم جیسے بے صلاحیت اور ناکارہ لوگ حسرت و یاس سے انھیں دیکھتے اور سوچتے ہیں کاش! ہم بھی وہیں جاتے جہاں کے یہ ہیں۔

اب قصہ یہ ہوا کہ فرانس میں فرانس کی جمہوریت کے قیام کی 150 ویں سالگرہ کے موقعے پر غیر ملکی تارکین وطن کو شہریت عطا فرمانے کی تقریب سے تقریر کرتے ہوئے فرانسیسی صدر عمانویل میکرون نے فرمایا کہ اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو انھیں اپنے دین کی توہین برداشت کرنا ہوگی اور ایسی کسی بات پر خاموشی اختیار کرنا ہوگی۔

اس موقع پر انھوں نے اپنے ملک میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلامی فوبیا کو ہوا دیتے ہوئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے اخبار ’’چارلی ہیبڈو‘‘ کا مکمل دفاع کیا۔ انھوں نے اخبار کے ’’متنازعہ اقدامات‘‘ کی مسلمانوں کی جانب سے مذمت کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دراصل اسلامی ثقافت اسی کا نام ہے کہ کسی کو برداشت نہ کیا جائے۔

انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ فرانس میں رہنے والوں نے شہریت حاصل کرتے وقت کسی ایک دھڑے (یعنی مسلمانوں) کا انتخاب نہیں کیا بلکہ انھوں نے فرانس میں بننے والے قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے جس کی رو سے انھیں علیحدہ سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ عمانویل میکرون کے بقول کوئی آزادی اظہار رائے پر یقین رکھے یا نہ رکھے لیکن اسے گستاخانہ خاکوں کی شکل میں صلاحیتوں کو ’’آزادانہ اظہار‘‘ بہرصورت برداشت کرنا ہوگا۔

فرانسیسی حکومت لوگوں کو محفوظ رکھنے، طنز و مزاح اور تنقید اور اسی قسم کی دیگر سرگرمیوں کی مکمل آزادی دیتی ہے اور اسے فنکاروں کا حق سمجھتی ہے۔ یہ تھا فرانسیسی صدر کا چارٹر برائے اظہار آزادی۔ اس تقریر کے بین السطور جو ارادے چھپے ہوئے ہیں وہ نہ چھپنے والا معاملا ہے۔صدر کی اس تقریر سے قبل ہی حکومت فرانس یہ کہہ چکی تھی کہ آیندہ ماہ مسلمانوں کے ’’اپنی شناخت‘‘ کے ساتھ رہنے کے خلاف قانون بنایا جائے گا۔

ابھی حکومت کے اس اعلان کے خدوخال واضح نہیں ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو کس حد تک اپنی ’’شناخت‘‘ گم کرنا ہے کہ فرانسیسی صدر نے وضاحت کردی کہ اگر ان کے مذہب یا اس مذہب کے بانی کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کی جائے تو اس پر ان کو خاموش رہنا ہوگا کیونکہ یہ دراصل فریق ثانی کی ’’صلاحیتوں کا اظہار‘‘ ہوگا جس سے اس کو روکا نہیں جاسکتا۔ نیز یہ کہ مسلمان فرانس اور اس کے قوانین پر عمل درآمد کا حلف اٹھاتے ہیں۔ ضرور ایسا ہی ہوگا اور اسی قانون میں یہ بھی تو درج ہے کہ آزادی اظہار رائے کی بھی حدود ہوتی ہیں اور اس سے کسی کو تکلیف پہنچانا منع ہے۔

شاید فرانسیسی صدر مسلمانوں کے خلاف اپنے ذہن میں پلنے والے تعصب کے طفیل اپنے ہی قوانین کی دھجیاں اڑانے پر مجبور ہوگئے ہیں اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کو وہ دوسروں کی ’’صلاحیتوں کا اظہار‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ مسلمانوں کا دور زوال ہے اور اپنے دور عروج میں وہ اپنی صلاحیتوں کا خاطر خواہ اظہار کرچکے تھے اور خود فرانس کی زنجیر در کھٹکھٹانے لگے تھے اور بغیر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔

اب مسلمانوں کو سوچنا پڑے گا کہ انھوں نے کن مقاصد کے حصول کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر یہ بے دری اختیار کی تھی اور وہ کس حد تک ذلت برداشت کرکے ان کے در کی کاسہ لیسی کرسکتے ہیں۔ جس بات کو وہ اپنے لیے باعث عزت گردان رہے تھے اب دنیا اور آخرت میں وہ خسران کا سبب بننے والی ہے۔ اب یا تو عزت سے پسپائی اختیار کرلیں یا پھر بے عزتی اور بے غیرتی کے ساتھ خوش حال زندگی گزارتے رہیں کیونکہ حالات کو بدل کر اپنے لیے نئی دنیا کی تعمیر ہمارے لیے خواب بھی نہیں رہا جس کی تعبیر کے ہم منتظر رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔