کراچی پر بھی توجہ فرمائیے !

قمر عباس نقوی  اتوار 20 ستمبر 2020

حالیہ موسلا دھار بارشوں کے یکے بعد دیگرے سپیل کے بعد شہر کی مین شاہراہوں پر سیلاب امڈ آیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پانی کو اپنے راستے پر نکلنے کی جگہ نہیں مل پا رہی ہے اور یہ سیلابی پانی کا ریلہ راستہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنے مقرر کردہ روٹ سے بھٹک کر جہاں اسے پناہ ملی ، رک گیا ۔

کچھ عوامی حلقے یہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے سنے گئے کہ نکاسی آب کے مقررہ راستے بلدیاتی اداروں کے اہل کاروں نے دانستہ بلاک کیے، تاکہ بلدیاتی ادارے کو صوبائی اور وفاق کو بدنام کر نے کا مضبوط ہتھیار مل سکے۔ دوسری وجہ یہ ظاہر کی جا رہی ہے کہ شہر میں فلائی اوورز کی تعمیر کے دوران ہرے بھرے درختوں کی کٹائی کے ساتھ کئی کئی فٹ گہری زمین کی کھدائی بھی زیر زمین پانی اور گٹر کی لائن میں خرابی کا سبب بنی۔

اپنے چار سالہ دور میں متحدہ کے فاضل میئر صاحب نے میڈیا پر وفاق اور صوبائی حکومت سے اختیارات کے فقدان اور مالیاتی ٖفنڈز کی عدم فراہمی کے نوحے ، مرثیے پڑھنے میں گزار دیے ۔ کسی حد تک ہم ان کی باتوں کو سچ مان بھی لیتے ہیں کیونکہ آبادی کے تناسب اور انتظامی تقسیم کے لحاظ سے اس شہر کی بلدیہ سکڑ کر رہ گئی ہے۔ پہلے نکاسی آب کا شعبہ شہر کے منتخب نمایندوں کی بلدیہ کے دائرہ اختیار میں تھا ۔

بدقسمتی کہیے کہ اس کو بلدیہ سے ختم کرکے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ساتھ ضم کر دیا گیا جو منتخب جمہوری نمایندوں کے بجائے خالصتاً ملک کی بیوروکریسی کا حصہ ہے۔ دونوں عوامی خدمات کے جمہوری ادارے ہیں جو حکومت سندھ محکمہ بلدیات کے تحت کام کرتے ہیں۔

اس ادارے کے قیام کا مقصد شہر کے باسیوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی تھا، پانی کی فراہمی کے سلسلہ میں ادارہ کی کارکردگی میرے اور آپ کے سامنے ہیں۔ یہ ادارہ فلاحی عوامی خدمات کے بجائے کمائو پوت بنا ہوا ہے۔ پانی کے ٹینکروں کے مالکان کی عید اور ٹینکر مافیا اسی ادارے کی تو پیداوار ہیں۔ ایسے حالات میں جان بوجھ کر سیوریج کا شعبہ اس ادارہ کے حوالہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ بد قسمی کہہ لیجیے کہ کراچی کا شہری بلدیاتی نظام تین اداروں میں منقسم ہیں۔

بلدیہ کراچی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کنٹونمنٹ بورڈز۔ آج سے پندرہ سال قبل کراچی میں ہمارے فوجی بھائیوں کے لیے چھائونیاں تھیں جن کا انتظام و انصرام شہر کی بلدیہ کے بجائے کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے ذمے ہوا کرتا تھا،جس کا چیف ایگزیکٹیو بھی بیوروکریسی کا اہم حصہ ہوا کرتا تھا بلکہ اب بھی ہے۔ اربنائزیشن کے تحت روز بروز آبادی میں اضافہ اور صوبائی حکومت کی جانب سے ناقص پلاننگ کا فقدان نے چھائونیوں کی حدود کو بھی نہ چھوڑا اور یوں چھائونیوں کی زمین پر شہری آبادیوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو گیا، جہا ں صرف ایک کنٹونمنٹ کا ادارہ تھا وہاں ایک سے زائد کنٹونمنٹ اداروں کا وجود ہو گیا۔

شہر میں بغیر کسی ٹاؤن پلاننگ کے کثیر منزلہ رہائشی اور کاروباری عمارات کی تیزی سے تعمیر جاری ہے جس کو حکومت سندھ کے زیر اثر ادارہ ’’ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی‘‘ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے شاید یہی وجہ ہو کہ سول ایڈمنسٹریشن کی بدنیتی اور رشوت ستانی کی وجہ سے کراچی شہر کے لگ بھگ 67%  علاقے کنٹونمنٹس اور مختلف وفاقی اداروں کے زیر تسلط ہیں۔ شاہراہ فیصل ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک، کارساز روڈ، تیس لاکھ نفوس پر مشتمل گلستان جوہر، سعدی ٹاؤن ، شاہ فیصل ، صدر، کیماڑی، منوڑہ، مائی کولاچی، پی آئی ڈی سی، کالا پل، جناح اسپتال، ایف ٹی سی، اے بی سینیا لائنز، لائنز ایریا، ماری پور اور پی اے ایف کورنگی سمیت کچھ دیگر علاقے کنٹونمنٹس کی ملکیت ہیں۔

کے پی ٹی فلائی اوور سے ذرا آگے جو کشادہ شاہراہ ’’خیابان اتحاد ‘‘ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ آپکو سیدھا سی ویو اور دو دریا کی طرف لے جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تین دہائیوں قبل یہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی اختتامی سرحد تھی اور یہ مقام کسی نامعلوم جنگل کی تصویر پیش کرتا تھا۔ میرے خیال میں انسان تو کیا کوئی جنگلی مخلوق بھی ان جنگلات کی طرف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ان جنگلات سے کوسوں دور قیوم آباد کی غریب بستی تھی۔ مزے کی بات دیکھیے کہ ڈیفنس کی سرحد سے قیوم آباد تک سیکڑوں فٹ چوڑی ندی بہتی تھی جس میں شہر کے سیوریج نظام کے تحت نکاسی آب کا ایک طویل سلسلہ تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ندی کے ذریعہ شہر کا گندا پانی بشمول بلوچ کالونی سے اختر کالونی تک کی آبادیوں کا پانی اسی راستہ سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرتا تھا۔ اسی طرح بارشوں کا سلسلہ خواہ جتنا بھی شدت آمیز ہو ، بارش کا پانی روانی کے ساتھ انھیںندیوں کے ذریعہ تیزی سے سمندر کی نذر ہو جایا کرتا تھا۔ قابل افسوس ہے یہ امر کہ ان جنگلات کو ختم کرکے اس ندی کے اطراف کالونیاں ایستادہ ہیں۔

متحدہ کے مصطفی کمال گو کہ ’’چائنہ کٹنگ ‘‘ کے بانی تو نہیں تھے لیکن اس کے پیروکار ضرور تھے۔ اسی آئیڈیے کو انھوں نے بھی اپناتے ہوئے اورنگی ٹاؤن کے نالے کے اطراف کی زمین پر اپنا بنیادی حق سمجھتے ہوئے لوگو ں کو آباد کرا دیا۔ ان کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے اورنگی سے ملحق بنارس جو لا محالا پختون عوام کی نمایندہ سیاسی تنظیم ’’عوامی نیشنل پارٹی‘‘ کا گڑھ اور اکثریتی حلقہ تھا انھوں نے بھی بنارس سے گزرنے والے نالے کے اطراف کی زمینوں پر قبضہ جما کر پختون بھائیوں کو آباد کروا دیا۔ ان دو نالوں پر تجاوزات کی بدولت اورنگی کا بڑا علاقہ زیر آب آگیا اور ان میں وہ علاقے بھی شامل ہیں۔

شہر سے پانی کے اخراج ہر قدرتی راستے اور نالے ، ندیوں کی یہی کہانی ہے جس کی وجہ سے چوڑے نالے ندیاں ، نالیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ حالیہ تباہ کن بارشوں میں شہر ڈوبنے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ بارشوں کا سلسلہ تھمے ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر شہر میں اب بھی افسوسناک صورتحال ہے ۔ سڑکیں ، مصروف ترین رہائشی اور کاروباری علاقوں کی سڑکیں گٹر کے گندے پانی سے بھری پڑی ہیں اور اس پانی سے سڑکوں پر گہرے گہر ے شگاف پڑ چکے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا وقت قریب ہے اور حلقہ بندیوں پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔

کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر علاقے بالواسطہ یا بلا واسطہ وفاق کے زیر انتظام ہیں۔اس ضمن میں ہماری حقیر سی تجویز ہے کہ شہر کا بچا کچا بلدیاتی نظام بھی براہ راست ا ور بلا مشروط وفاق کے زیر کنٹرول دیا جائے ۔ علاقہ کونسلرز کو فعال بنا یا جائے، وفاق کی طرف سے براہ راست متعلقہ کونسلرز کو ترقیاتی مد میں رقوم مختص کی جائے۔ ان پر آڈٹ کی طرز کا چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔

موٹر وہیکل ٹیکس کی ادائیگی حکومت سندھ کے بجائے شہری حکومت کو کی جائے تاکہ ان ٹیکس کی مد میں وصول ہونے والی خاطر خواہ رقوم کراچی کے ترقیاتی کاموں میں استعمال ہو سکے۔ کراچی میں اربوں کھربوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے اور شہر کی سڑکیں بے انتہا مخدوش ہو چکی ہیں ، جن کو بہتر کرنے کے لیے خاطر خواہ سرمایہ کی ضرورت سے بلاشبہ انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔