خوشبو اور خوف…

شیریں حیدر  اتوار 20 ستمبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بچپن اورلڑکپن کے دور کے اپنے رومانس ہوتے ہیں۔ اس خوشبو دار عمر میں ہر چیز میں خوشبو محسوس ہوتی ہے ، خواہ وہ چاند کی چاندنی ہو، رات کے سناٹے میں گونجنے والی ریل کی سیٹی کی آواز، نئی کتاب کے ورق کی، پرندوں کی آوازیں، سمندر کا سکوت، دریا کا شور، کلی کے چٹکنے کی آواز، سردیوں کے سورج کی مدھم تمازت کی یا سوکھی زمین پر پڑنے والی بارش کی پہلی پہلی بوندوں کی۔

نئی کتابوں کے اوراق اور بارش سے مٹی کے وجود کے مہکنے کی خوشبوئیں ، میرے بچپن کا رومانس تھیں اور ابھی تک ہیں مگر اب لگتا ہے کہ یہ دونوں خوشبوئیں ختم ہو رہی ہیں … ہماری نسل کے بعد کوئی ان خوشبوؤں سے آشنا نہیں ہو گا ۔

ایک عمر تھی کہ فرصت میسر ہوتی تو گھنٹوں لان میں لیٹ کر بادلوں سے مختلف اشکال تصور کرتے ۔ کبھی درخت بنتا تو کبھی اونٹ، کبھی پھول بنتا اور کبھی پہاڑ۔ بادل تیزی سے حرکت کرتے اور شکلیں بدلتے اور ہمیں لگتا کہ ہم بھی بادلوں کے ساتھ ساتھ اڑ رہے ہیں ۔ بادل جب اپنا بوجھ دھرتی پر اتارتے تو گھر کے باورچی خانے سے اٹھنے والی خوشبوئیں من کو مزید مسرور کرتیں ۔ وقت گزرا اور ذمے داریاں پڑیں تو بادلوں اور بارش کا رومانس بچوں کی نذر ہوا اور باورچی خانہ اپنے نصیب میں ہوا۔ یہ دور بھی گزرا اورپھر جب بارش ہوتی تو ناسٹیلجیا میں مبتلا ہونے لگی۔

چند برس اور سرکے ہیں تو بارش کے خوف میں مبتلا ہو گئی ہوں … فون پر جس دن موسم بارش کا نظر آئے تو دل میں خوف بیٹھ جاتا ہے کہ جانے یہ بارش کہاں کہاں برسے گی اور کیا کیا نقصانات کرے گی۔ ایسا نہیں کہ ہمارے بچپن اور لڑکپن میں بارشوں سے سیلاب نہیں آتے تھے یا اس وقت تباہی نہیں مچتی تھی۔

ایک تو اس وقت میڈیا اتنا تیز اور ترقی یافتہ نہ تھا، اگرکہیں بارشیں تباہی کرتی بھی تھیں تو اس کی خبر اخبار میں آتی تھی یا ٹیلی وژن کے واحد چینل پر ۔ اس وقت سیلاب تب آتے تھے جب پانی کے بہاؤ سے، دریاؤں پر سے کہیں بند ٹوٹ جاتے تھے یا کسی نے ندی، نالوں یا دریاؤںکے کنارے پر گھر بنا لیے اور برساتی نالوں میں پانی بھر جانے سے طغیانی آ جاتی تھی اور ان کے گھر ڈوب جاتے تھے۔ جونہی بارش کا پانی اترتا اور سوکھا موسم شروع ہوتا تو یہی لوگ دوبارہ وہیں پراگلے برس تک کے لیے گھر بنا لیتے تھے۔

یہ سب قبضہ مافیا تھا اور یہاں گھر بنانے کے عوض وہ کسی نہ کسی کو بھتہ دے کر غیر قانونی طور پر اپنا ٹھکانہ کر لیتے تھے۔اس سال کی بارشوں نے تو ملک کے کئی شہروں میں ہونے والی ’’ ترقی ‘‘ کے پول کھول دئے ہیں ۔ پہلے کراچی اور پھر دیگر کئی شہروں میں بارشوں سے ہونے والی تباہی نے دل دکھی کر دئے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب ہماری اپنی کرنی کا نتیجہ ہے، ہمارے ہی اعمال کا شاخسانہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں ۔

ہم آرام میں ہوں اور ہمار ے بہن بھائی، اس ملک کے شہری تکلیف میں، تو ہم کس طرح سکون سے رہ سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے گھروں کو تعمیر کرتے ہیں تو اس وقت ہم اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں کا نکاسی کا نظام ، محلے اور شہر کے مین نکاسی کے راستے سے منسلک ہے یا نہیں ، اسی طرح شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کے اجراء کے وقت بھی اس اہم پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب ان بلند و بالا عمارتوں کے نقشے منظور کروائے جاتے ہیں تو جانے کون سی چابی لگتی ہے کہ ادارے ایسے منصوبوں کو بھی منظور کر دیتے ہیں جو غیر قانونی طور پر نالوں اور نکاسی کے راستوں کو بند کر دیتے ہیں۔

درجنوں منزلہ عمارتیں کھڑی ہو جاتی ہیں تو تب جا کر ذمے داران کو ہوش آتا ہے کہ کچھ غلط ہوا ہے۔اس وقت پورا کراچی شہر بد ترین شہر کا نقشہ پیش کر رہا ہے ، اس کی ذمے داری کس پر ہے؟ اتنا بڑے شہرمیں جو کہ براہ راست سمندر سے منسلک ہے اور یہاں، اس ایک شہر میں روزانہ کی بنیادوں پر پیدا ہونے والا کچرا ، ملک کے دیگر درجنوں شہروں کے ایک دن کے کچرے کے برابر ہے، لیکن کیا اس شہر کے سارے ادارے اب تک نیند میں تھے کہ ایک ماہ کی وقفے وقفے سے ہونے والی بارشوں نے ساری پول کھول دی ہے۔

پہلے تو یہی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہاں پر کام کرنا کس نے ہے کہ مجبور و محصور عوام کو اس مصیبت سے کس طرح نجات دلائی جا سکے۔ بالآخر قرعہ فوج کے نام نکلا اور اس کے بعد سے لوگوں کی بحالی کا کام جاری ہے۔ بارش تو اللہ کی طرف سے رحمت ہوتی ہے مگر ہمارے اعمال اسے زحمت بنا دیتے ہیں ۔ دریاؤں کے پاٹ تنگ کر دیے گئے ہیں اوران کے عین اوپر تفریحی مقامات بنا دیے گئے ہیں ، خوہ وہ ہوٹل ہیں یا پارک۔

نیز ندی نالوں کی تہہ میں کئی کئی سالوں سے بھل صفائی کا کام نہیں کیا جاتا ( کیونکہ وہ کام بھی فوج نے ہی کرنا ہوتا ہے ) جس سے ان میں پانی کی اسٹوریج کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ مون سون کی بارشوں کو سال کے باقی مہینوں میں نظر انداز کردیا جاتا ہے، تو ان کی گنجائش سے زائد پانی کا تو باہر نکلنا عین ممکنات میں سے ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد، ہم اپنے گھروں کا سارا کچرا اور بالخصوص مومی کاغذ، ڈائپر اور پلاسٹک وغیرہ بھی پوری سخاوت سے ان میں بھر کر اضافہ کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ ہمیں خود ہی بھگتنا پڑتا ہے ۔

ہماری اولین برسوں کی تربیت میں ہی ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ…

… ہمارا کام گندگی پھیلانا ہوتا ہے اور کوئی دوسرا آ کر ہماری گندگی کو صاف کرے گا۔ … گھر کو صاف رکھنا اہم ہے، گھر سے باہر ہم اپنا سارا کچرا ڈال سکتے ہیں۔ … گاڑی میں بیٹھ کر کچھ کھائیں تو اہم ہے کہ اپنی گاڑ ی کو صاف رکھیں ، گاڑی سے باہر کچرا سڑک پر پھینکیں یا کسی راہ گیر کے منہ  پر، سب جائز ہے۔

ہمارے بچپن میں شہریت کا مضمون پڑھایا جاتا تھا، جس میں ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ایک شہری ہونے کی حیثیت سے ہمارے حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا۔ اپنے حقوق کا مطالبہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اپنے فرائض کی بجا آوری کرتے ہوں ۔ اس میں اخلاقیات بھی سکھائی جاتی تھی اور ادب آداب بھی۔ جب تعلیم کے ساتھ تربیت میں سے ایسی اہم چیزیں منہا کر دی جائیں گی تو یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ لوگوں میں شعور ہو گا۔

تعلیم کا تناسب یوں ہی ہمارے ہاں اتنا کم ہے اور اس پر جو ہے وہ بھی بے ثمر۔ اس وقت یہ کام میڈیا کر سکتا ہے، کیونکہ میڈیا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو اس وقت سب سے تیز ہے۔ جس طرح کورونا کے دوران میڈیا نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے اور ٹیلی فون کمپنیوں نے بھی مہم چلائی اور معلوماتی پیغامات کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پیدا کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اسی طریقے سے میڈیا اور ٹیلی فون کمپنیاں ملک میں صفائی کے لیے اور دیگر اخلاقیات سے متعلق پیغامات چلا سکتے ہیں۔ ہر مہینے کا ایک موضوع منتخب کر کے اس کے بارے میں پیغامات جاری کیے جائیں اور اسے ہر میڈیم پر چلایا جائے تا کہ لوگوں کو مسلسل یہ پیغامات سن سن کر … ’’ شاید کچھ اثر ہو جائے! ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔