کیا پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنا ہوگا

سرور منیر راؤ  اتوار 20 ستمبر 2020

دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کے اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے قائم عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف نے گزشتہ تین سال سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔

بھارت سمیت دنیا کے کئی اور ممالک کی کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کیا جائے اور اس پر سخت ترین معاشی پابندیاں لگائی جائیں۔جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے فروری 2018 کے اجلاس میں امریکا اور بھارت کی بھرپور کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔

اس وقت چین، ترکی اور سعودی عرب نے اس تجویز کی مخالفت کیا۔ اس وجہ سے امریکا اور بھارتی لابی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن انھوں نے ایف اے ٹی ایف کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کو ایک 26 نکاتی پروگرام پر چار ماہ کے دوران عمل کا حکم دیے۔ اس عرصے کے دوران پاکستان کو واچ لسٹ پر رکھا جائے۔

توقع تو یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستان خود کو اس مشکل سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے گا اور بیرونی دنیا میں ایک متحرک خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے خود کو واچ لسٹ سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گالیکن بدقسمتی سے ملک کے سیاسی نظام میں تلاطم کی وجہ سے ارباب بست و کشاد ایک دوسرے کے بخئیے ادھیڑنے میں لگے رہے۔ مقتدر قوتیں اپنے مقاصد کے لیے سرگرم تھی جب کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو ’’کرپٹ‘‘ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

گرے لسٹ میں آنے سے پاکستان دنیا کی نظر میں ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ اس کے اثرات ہماری معیشت اور خارجہ پالیسی پر نمایاں ہونے لگے۔گرے لسٹ میں آنے کی وجہ سے بھارت کو یہ موقع بھی مل گیا او ر وہ پاکستان کے حوالے سے اپنے منفی خیالات کھل کر بیان کرنے لگا۔اس عرصے کے دوران ایف اے ٹی ایف اور اس کی ذیلی کمیٹی نے کئی بار پاکستان کو مہلت دی لیکن پاکستان خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔

حکومت پاکستان نے فنانشل ٹاسک فورس ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے100 صفحات سے زائد تفصیلی رپورٹ فیٹف کو بھیج دی ہے۔ اس رپورٹ میں تمام نکات پر اب تک کیے جانے والے اقدامات کی تفصیل درج ہے۔ اس رپورٹ کے ہمراہ اس حوالے سے کی جانے والی قانون سازی اور پالیسی اقدامات کا ذکر بھی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے سالانہ اجلاس میں 205 ممالک کے 800 نمایندے شریک ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ آئی ایم ایف، اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے مندوبین بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک سال کے دوران ایف اے ٹی ایف کے تین اہم اجلاس فروری اکتوبر اور جون میں ہوتے ہیں۔ یکم اکتوبر سے شروع ہونیوالے اجلاس میں اس حوالے سے پاکستان کی کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے گی۔اس اجلاس کی سفارشات پر پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا مہلت ، بلیک لسٹ کرنے یا آزاد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ہر سال دس ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ملک سے کرنسی کی اسمگلنگ کو روکنے، مالیاتی نظام کو دستاویزی بنانے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈان کرنے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت ہے۔حکومت نے پہلے اس حوالے سے باضابطہ قانون بنانے کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کرنا چاہا لیکن اپوزیشن کی اکثریت کی بنا پر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔حکومت نے اس بل کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو بلوایا۔

اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود اکثریت کی بنیاد پر حکومت نے یہ بل منظور کر لیااس لیے توقع کی جارہی ہے کہ اس قانون کی منظوری کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی پوزیشن پہلے کی نسبت بہتر ہو گی۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان اپنی رپورٹ پر براہ راست بحث میں حصہ نہیں لے سکتا تاہم پورٹ پر دوست ممالک کھل کر بات کر سکتے ہیںاس لیے ضروری ہے کہ اجلاس کے دوران دوست ممالک پاکستانی موقف کی حمایت کریں۔ ذرایع کے مطابق اگر امریکا فرانس اور برطانیہ میں سے کسی ایک ملک نے بھی پاکستانی موقف کی حمایت کردی تو پاکستان کا نام گرے لسٹ لسٹ سے نکلنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہم بلیک لسٹ میں چلے گئے تو پاکستان کے لیے ناقابل بیان مشکلات ہوں گی۔ گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے معاملے پر پاکستانی میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کو بھی اپنا علمی اور اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بلی کو دیکھ کر بند نہ کریں۔ ہم نے ’’سو پیاز بھی کھائے اور جوتے بھی‘‘ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم امریکا کے اتحادی تھے اس کے باوجود امریکا نے اپنے مفادات کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے۔

بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ہمیں معاشی اعتبار سے stable کی لسٹ سے نکال کر negative لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ ڈالر کہاں تک پہنچ گیا، پیٹرول کی قیمت کیا گل کھلا رہی ہے، مہنگائی اور پانی کی کمی ہمیں کہاں لے جا رہی ہے، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کا فقدان ہے۔کوئی ہے جو اس بارے میں سوچے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔