مسکراہٹیں چھیننے والے

امجد اسلام امجد  اتوار 20 ستمبر 2020
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

ادیب برادری میں میاں رضا ربانی ابھی نووارد ہیں لیکن صرف دو ادبی کتابوں سے ہی انھوں نے اپنے لیے جو عزت اور مقبولیت حاصل کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، سیاست کے میدان میں بھی اُن کا شمار اُن معدودے چند لوگوں میں ہوتا ہے جن کا نام اُن کے سیاسی مخالفین بھی عزت سے لیتے ہیں اور دیکھا جائے تو یہ کام پہلے والے سے بھی زیادہ مشکل اور قابلِ ستائش ہے۔

2017 میں اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ  Invisible People یعنی ’’دکھائی نہ دینے والے لوگ‘‘ اپنے نام کی رعائت سے بھی بہت مختلف اور توجہ طلب تھا مگر اس موجودہ ناولٹ کا عنوان The Smile Snatchers یعنی ’’مسکراہٹیں چھیننے والے‘‘ تو حیرت زدہ کردینے والا ہے کہ 94 صفحات پر پھیلی ہوئی اس کہانی کا ایک ایک صفحہ کسی نہ کسی رنگ میں انھی لوگوں یا ان کی چھینی ہوئی مسکراہٹوں کا استعارہ بن کر کُھلتا چلا جاتا ہے ۔

حقیقت اور علامت کو علیحدہ علیحدہ کسی بیانیے کا حصہ بنانا کسی درمیانے د رجے کے ادیب کے لیے بھی کوئی مشکل کام نہیں مگر ان دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا اور آخر تک اس طرح سے نبھانا کہ آپ کو کہیں کوئی جھٹکا نہ لگے، یہ بلا شبہ بڑے اور نامور ادیبوں کے لیے بھی ایک امتحان کا مقام ہوتا ہے۔

اس کتاب کی سب سے بڑی اور پہلی خوبی یہی توازن ہے کہ نہ تو آپ اس کے مرکزی کردار ظہیر کو بطخ کے بچے کو لینڈ سلائڈنگ سے گرے ہوئے پتھروں میں ڈھونڈنے پرمتعجب ہوتے ہیں اور نہ ہی اُسی ہنگام میں ہزاروں میل دُور ایک شامی بچے کے زخمی چہرے کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں جس کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے کھوگئی ہے اور یہیں سے ظہیر کا جو ایک درمیانے درجے کا مصوّر ہے وہ سفر شروع ہوتا ہے جہاں اُسے قدم قدم چھینی ہوئی، مسکراہٹوں والے وہ بچے ملتے ہیں جو فلسطین، شام اور کشمیر کی جنگوں کا نشانہ بننے کے ساتھ پشاور کے اے پی ایس اسکول میں دہشت گردی کا شکار ہوئے اور ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھیننے والے کرداروں کی بے حسی ایسی خوفناک ہے کہ اب ان کے ڈر سے بچوں نے تصویروں میں بھی مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔یہاں تک کہ جب ظہیر اُن کے خوف اورتشنج زدہ چہروں پر مسکراہٹ لانے والی لائنیں لگانا چاہتا ہے ۔ تو اُس کا موُقلم تک اُس کا ساتھ نہیں دیتا ۔

یہاں رضا ربانی نے ان گمشدہ مسکراہٹوں کی تلاش میں ظہیر کو ایک ایسے ذہنی آشوب میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب نہ صرف اے پی ایس میں دہشتگردی کا شکار جمیل اُس سے باتیں اور ملاقاتیں شروع کر دیتا ہے بلکہ اُس سے جانور، سرکس کے مسخرے، رسائل میں شایع شدہ جنگ کی تباہ کاریوں پر مشتمل تصویریں، کتاب کے صفحات سے نکلتے ہوئے کردار اور ایسی آوازیں بھی مخاطب ہونے لگتی ہیں جن کے بولنے والے سنائی تو دیتے ہیں مگر دکھائی نہیں دیتے۔ شام اور فلسطین کے حوالے سے انھوں نے 1968 کی جنگِ حزیران کے بعد جدید عربی کے دو عظیم ترین شاعروں نزارقبانی اور محمود درویش کو بھی اُن کی شاعری کی وساطت سے اس عجیب و غریب منظر نامے کا حصہ بنادیا ہے جس میں ایک شخص دنیا بھر کے بچوں کی چھِنی ہوئی مسکراہٹوں اور اُن کے چھیننے والوں کو ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔

کتاب کا انتساب مائوں کے نام کیا گیا ہے جو بچوں کی مسکراہٹوں کے باغ کی نگہبان ہوتی ہیں اور اس کے بعد کیوبا کے مشہور انقلابی لیڈر چی گویرا کے اپنے بچوں کے نام الوداعی خط کا ایک جملہ ہے جو اصل میں میاں رضا ربانی کی اس کتاب کا بنیادی محّرک ہے لیکن اس کا پتہ آپ کو اس کے آخری باب میں چلتا ہے جب معاشرے اور انسانی حقوق پر قابض طبقے شاعروں، مفکّروں اور مصوّروں کو تخریب کاروں کے ہم پلّہ قرار دیتے ہیں۔ چی گویرا کے جملے کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے۔’’سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ذات کی گہرائی میں حساّسیت اور درد مندی کو برقرار رکھو اور انکار کرو ہر طرح کی بے انصانی سے چاہے، وہ دنیا میں کہیں بھی اور کسی سے بھی ہو۔‘‘

اس کے بعد میں ساری کتاب میں اُن مسکراہٹوں کے چھیننے کا ذکر ہے جو انصاف کے اُس راستے پر چلنے والوں کا مقدر بنتی ہیں، رضا ربّانی نے بہت محبت، درد مندی اور سلیقے سے دنیا بھر میں ہونے والے ظلم کی منظرنگاری کی ہے اور بتایا ہے کہ کس کس طرح سے بچوں کے ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھینی گئی ہیں اور پھر بہت فنکارانہ مہارت کے ساتھ اُن چھیننے والوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جو مختلف رُوپ دَھارکر خود ہمارے اِرد گرد اسی مذموم کھیل میں مصروف ہیں۔

کتاب کے مرکزی موضوع یعنی بچے کی مسکراہٹ کے حوالے سے براہ راست اور بالواسطہ کچھ ایسے جملے اس کتاب میں موجود ہیں جو داد کے ساتھ ساتھ اس بات کے بھی مستحق ہیں کہ انھیں بار بار سُنا اور سنایا جائے، سو میں ان کے محلِ استعمال کے پس منظر میں اُلجھے بغیر صرف ان جملوں کا آزاد اُردو ترجمہ پیش کرتا ہوں، ان کی اپیل ایسی ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب کچھ اضافی سا ہو جاتا ہے۔

’’آگے بڑھو اور میرے ہونٹوں کی تصویر کو مکمل کرو۔میں اﷲ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ اُس نے الیپو میں عمران دقنیش کو تو بچا لیا تھا لیکن اُس کا بھائی علی اب اُس کے پاس ہے، مجھے یقین ہے کہ کم از کم وہ ضرور مسکرا رہا ہوگا۔میں نے سنا ہے کہ تم بچوں کی مسکراہٹوں میں چھپ کر مسکراتے ہو۔‘‘

’’پشاور پبلک اسکول کا ایک بچہ نیا اسکول بیگ لینا چاہتا تھا لیکن وہ ایک جنازے کے بیگ میں گھر پہنچا‘‘۔ ’’میرا دوست دہشتگردوں کے حملے میں مرگیا تھا لیکن وہ روز میرے ساتھ کھیلنے کے لیے اس باغ میں آتا ہے‘‘

’’تم اُن سولہ سال کی معصوم لڑکیوں کے چہروں پر مسکراہٹ دکھا نا چاہتے ہو، جنھیں اُن کے ماں باپ کے سامنے برہنہ کیا گیا، تم انھیں مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتے ہو، میں بھی چاہتا ہوں۔‘‘

’’جو لوگ اپنے مُردوں کو بھول جاتے ہیں وہ کبھی آزاد نہیں ہوسکتے۔‘‘’’میں اُن باپوں میں سے ایک ہُوں جنھیں اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنا پڑا ۔ کیا تم اس کے لیے مجھے بُرا کہو گے۔ میرے باقی چار بچے بُھوک سے مر رہے تھے، میں کیا کرتا۔ میرے سامنے ایک طرف وہ تھی اور ایک طرف چار قبریں‘‘

اس طرح کے بے شمار جملے آپ کو اس کتاب میں جگہ جگہ ملیں گے لیکن آخر میں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ مصنف کی فکر اور غالباً یہ کہانی لکھنے کی بنیادی اور اصل وجہ کی طرف آئوں کہ جب آخر میں مصّور ظہیر اُن سب گمشدہ مسکراہٹوں کو جن کے حامل بچوں سے وہ کسی نہ کسی شکل میں ملا تھا، ایک چار بائی آٹھ کے بڑے میورل پر بغیررنگوں کے صرف سفید اور سیاہ لکیروں کی مدد سے یکجا کر دے کہ دیکھنے و الے نہ صرف اُس کے درد کو سمجھ سکیں بلکہ اُس کے ساتھ مل کر اُن چھینی ہوئی مسکراہٹوں کو دوبارہ اُن کے چہروں پر سجانے کی کوشش کریں کہ کہیں سے یہ مسکراہٹیں چھیننے والے پھر آجاتے ہیں مگر اس بار وہ کسی حملہ آور یا دہشت گردوں کی شکل میں نہیں اُس کے اپنے بظاہر مہذب اور متمدّن معاشرے میں سے ہیں اور جو اُس کی نمائش کو بند اور اُس کو صرف اس لیے گرفتار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ان امن دشمن اور تخریبی خیالات کو پھیلا کر معاشرے میں خرابی کا باعث بن رہا ہے ۔

خواتین و حضرات یہی ہے وہ موڑ جہاں میاں رضا ربانی نے اس کتاب کے قارئین کو لانے کے لیے حقیقت اور فینٹسی کا یہ سارا کھیل رچایا ہے۔ اب یہ ہم اور آپ پر ہے کہ ہم بکھری ہوئی چیزوں اور کھوئی ہوئی مسکراہٹوں کو اُن کی جگہ پر رکھنے کے لیے کیا سوچتے اور کیا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔