برساتی پانی۔۔۔۔۔ ضایع ہوتی مایا (حصہ اول)

ندیم سبحان میو  اتوار 20 ستمبر 2020
پاکستان میں ان ممالک کی تقلید کرکے اربن فلڈنگ کے نقصانات اور قلت آب پر قابو پایا جاسکتا ہے
۔  فوٹو : فائل

پاکستان میں ان ممالک کی تقلید کرکے اربن فلڈنگ کے نقصانات اور قلت آب پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ فوٹو : فائل

اہل کراچی کو کئی برس سے یہ شکوہ تھا کہ عروس البلاد میں بادل کُھل کر نہیں برستے۔ مون سون میں کالی گھٹائیں آتی ہیں مگر اپنا دامن پوری طرح جھاڑے بغیر چلی جاتی ہیں اور ان کی برسات سے لطف اندوز ہونے کی خواہش ہر بار تشنہ رہ جاتی ہے۔

ذرائع ابلاغ پر ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی بارش دیکھ کر یار لوگ ایک دوسرے سے کہتے کہ کاش کنکریٹ کے اس جنگل پر بھی ابر باراں اسی شدت سے مہربان ہوجائے۔ چند ماہ قبل جب محکمۂ موسمیات نے اس مون سون سیزن میں شہرقائد میں معمول سے زائد بارشوں کی پیش گوئی کی تو بہت سوں نے اپنی تشنہ خواہش کی تکمیل کی امید باندھ لی۔ یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بار گھنگھور گھٹائیں پلٹ پلٹ کر آئیں گی اور کچھ اس طرح ٹوٹ کر برسیں گی کہ جل تھل ایک ہوجائے گا اور جس برکھا کے وہ شدت سے منتظر تھے، وہ بتدریج ان کے لیے ایک ڈرائونے خواب میں ڈھل جائے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ رواں برس ساحلی شہر میں بارش نے تاریخ رقم کردی۔ زیادہ سے زیادہ بارش کے پرانے ریکارڈ کراچی کی گلیوں اور شاہراہوں پر سیلاب کی صورت بہتے پانی کی نذر ہوگئے۔ اس مون سون میں چھے بار شدید بارش ہوئی جس کے نتیجے میں نشیبی علاقے کئی فٹ گہری جھیل میں بدل گئے۔ پانی کے ریلے کچھ اس تیزرفتاری سے گلیوں اور گھروں میں داخل ہوئے کہ مکینوں کو سامان بچانے کی مہلت بھی نہ ملی۔ دکانوں میں پانی کا داخل ہونا تاجروں کو بھاری مالی نقصان سے دوچار کرگیا۔ مالی نقصان کے ساتھ ساتھ مون سون کی بارشیں درجنوں جانیں بھی نگل گئیں۔

بپھرے ہوئے نالوں اور ملیر ندی میں پانی کے ریلے کی زد میں آکر کتنوں کے پیارے انھیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ کراچی کے علاوہ لاہور، پشاور، راولپنڈی، حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں میں بھی یہی صورت حال رہی اور یہاں بھی برساتی پانی نے تباہی مچائی۔ تاہم اگر دنیا کے کئی ممالک کے مانند پاکستان میں علاقائی اور گھریلو سطح پر برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے اور کام میں لانے کا رجحان اور نظام پایا جاتا تو ان شہروں میں شدید بارشوں کے باوجود اس قدر مالی و جانی نقصان بھی نہ ہوتا اور یہ پانی جو سیلاب کی صورت بہہ کر بحیرۂ عرب کا حصہ بن گیا، وہ قلت آب دور کرنے کے ساتھ ساتھ ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال ہوسکتا تھا۔

ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان سمیت متعدد ممالک کے شہری علاقوں میں تجارتی سے لے کر گھریلو سطح پر برساتی پانی کو ذخیرہ اور مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روایت موجود ہے اور اس ضمن میں باقاعدہ قوانین بھی نافذ ہیں۔ مختلف طریقوں سے ذخیرہ کیا گیا پانی تجارتی سے گھریلو استعمال تک ان گنت مقاصد کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو عوام الناس کو برساتی پانی ذخیرہ کرنے کے طریقوں اورآلات کی تنصیب کی تعلیم دیتے اور اس سے متعلق ٹیکنالوجی فراہم کرتے ہیں۔

٭بھارت
تمل ناڈو: بھارت میں تمل ناڈو پہلی ریاست تھی جہاں ہر عمارت کے لیے برساتی پانی کی ذخیرہ کاری لازمی قرار دی گئی۔ اس کا مقصد زیرزمین سطح آب کو مزید نیچے جانے سے بچانا تھا۔ اس اسکیم کا آغاز 2001ء میں کیا گیا اور اب اس کا دائرہ کار تمل ناڈو کے تمام شہری علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ بارش کے پانی کی ذخیرہ کاری سے متعلق عوام الناس کو آگاہی دینے کے لیے ریاست بھر میں جگہ جگہ پوسٹر چسپاں اور اشتہاری بورڈز نصب کیے گئے ہیں۔ پانچ سال کے عرصے میں تمل ناڈو کی اس ریاستی حکمت عملی کے زبردست نتائج برآمد ہوئے اور بتدریج ہر ریاست نے اسے اپنالیا۔ برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کو ناگزیر قرار دینے کے بعد سے، پانچ سال کے دوران چنئی میں زیرزمین پانی کی سطح 50فیصد بلند ہوئی ہے اور پانی کا معیار بھی نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے۔

کرناٹک: ریاستی دارالحکومت بنگلور میں ہر عمارت کے لیے برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کا نظام اپنانا ضروری ہے جس کا کم از کم رقبہ 60×40فٹ یا اس سے زائد ہو۔ نوتعمیرشدہ عمارت جس کا رقبہ×40 30فٹ ہو اس کے مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمارت میں برساتی پانی اکٹھا اور اسے ذخیرہ کرنے کا انتظام کرے۔ اس سلسلے میں بنگلور کے محکمہ واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ نے جیا نگر میں سوا ایکڑ رقبے پر ’ رین واٹر ہارویسٹنگ تھیم پارک‘ تعمیر کیا جس میں برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے 26 مختلف طریقوں کے ماڈل رکھے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ پانی کی بچت کے سلسلے میں بھی ہدایات درج کی گئی ہیں۔ تھیم پارک میں بنائے گئے آڈیٹوریم کی پہلی منزل پر طلبا اور عام لوگوں کو وڈیو کلپ کے ذریعے دکھایا جاتا ہے کہ برساتی پانی کیسے ذخیرہ کیا جائے۔

مہاراشٹر: دوسرے بڑے ریاستی شہر پونے میں ہر نئی ہائوسنگ سوسائٹی کے لیے برساتی پانی ذخیرہ کرنا لازمی کردیا گیا ہے۔ ممبئی میں، اگرچہ برساتی پانی کی ذخیرہ کاری لازمی نہیں ہے، تاہم میونسپل کارپوریشن بڑی سوسائٹیوں کے لیے یہ شرط لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

دہلی: بھارتی دارالحکومت میں گذشتہ برس ’ دہلی جَل بورڈ‘ نے100 مربع گز اور اس سے زائد رقبے کی حامل جائیدادوں کے لیے برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے نظام کی تنصیب لازمی قرار دے دی۔ اس کے علاوہ یہ قانون بھی نافذ کیا گیا کہ 500مربع گز اور اس سے زائد رقبے کی حامل جائیدادوں کو برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے نظام کی تنصیب ہونے تک پانی اور سیوریج کے کنکشن فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

٭سنگاپور
سو فیصد شہری آبادی پر مشتمل ملک میںاوسطاً سالانہ 2400ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ محدود آبی ذرائع ہونے کے باعث برساتی پانی کی ذخیرہ کاری پر توجہ فطری امر تھا۔ سنگاپور کی تقریباً 86فیصد آبادی فلک بوس عمارتوں میں رہائش پذیر ہے۔ ملک کا نصف رقبہ برساتی پانی کو جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ برساتی پانی کی زیادہ سے زیادہ مقدار جمع کرنے اور کام میں لانے کے لیے سنگاپور میں خاصی تحقیق کی گئی اور پھر منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ان میں فلک بوس عمارتوں کی چھتوں اور ہوائی اڈوں کے رن وے سے پانی ذخیرہ کرنا، اس کے علاوہ صنعتی کمپلیکس، زرعی فارموں اور تعلیم اداروں کی عمارات سے پانی اکٹھا کرنا شامل تھا۔ یوں اب سنگاپور کی 55لاکھ آبادی کی نصف ضروریات آب برساتی پانی سے پوری کی جاتی ہیں۔

٭ نیویارک، امریکا
امریکی شہر میں 2001ء کی قحط سالی کے بعد پانی کی ذخیرہ کاری اور اس کے کفایتی استعمال پر توجہ دی گئی۔ اس برس قلت آب کے سبب پیڑ پودے اور سبزہ سوکھ جانے سے شہر کے بیشتر باغیچے اور پارک اُجڑ گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے فروغ، آگاہی اور اس ضمن میں عملی اقدامات کے لیے کئی ادارے اور غیر سرکاری تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ آج نیویارک میں کمیونٹی کی سطح پر برساتی پانی جمع اور ذخیرہ کرنے کے 140 نظام نصب ہیں جو گھروں اور عمارتوں کی چھت پر برسنے والا سالانہ 15لاکھ گیلن برساتی جمع کرتے ہیں۔ یہ پانی کی زیادہ مقدار باغیچوں اور پارکوں کو سرسبز رکھنے میں استعمال کی جاتی ہے۔

٭کینیڈا
برساتی پانی کا استعمال کینیڈین شہریوں کی کثیر تعداد کے معمولات میں شامل ہے۔ یہاں کاشت کاری سے لے کر باورچی خانے اور غسل خانے تک کی ضروریات کے لیے اس پانی کا استعمال کیا جاتاہے۔ کینیڈا کے صوبوں البرٹا، برٹش کولمبیا اور اونٹاریو میں برساتی پانی ذخیرہ کرنے، اس مقصد کے لیے اختیارکردہ طریقے، ذخیرہ کاری کے لیے نظام؍ آلات کی تنصیب کے لیے سرکاری ہدایات موجود ہیں۔ زرعی علاقوں میں برساتی پانی ذخیرہ کاری کرنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنائے گئے ہیں۔ ان میں ذخیرہ شدہ پانی فصلوں کی آبیاری اور مویشیوں کی پیاس بجھانے کے کام آتا ہے۔

٭اسرائیل
سائوتھ ویسٹ سینٹر فار اسٹڈی آف ہاسپٹل اینڈ ہیلتھ کیئرسسٹمز، روٹری انٹرنیشنل کے اشتراک سے ملک بھر میں برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کا ماڈل پروگرام شروع کررہا ہے۔ اسرائیل میں پہلا اس نوع کا نظام قدیم شہر لُد کے ایک اسکول میں آزمائشی طور پر نصب کیا گیا تھا۔ اب تیسرے مرحلے میں اس منصوبے کو حیفہ تک وسیع کیا جارہا ہے۔ سائوتھ ویسٹ سینٹر نے واشنگٹن ڈی سی کے واٹر ریسورسز ایکشن پروجیکٹ کے ساتھ بھی شراکت داری کی ہے۔ یہ ادارہ مغربی کنارے میں برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے منصوبے چلا رہا ہے۔ بچوں کو پانی کی بچت و تحفظ سے متعلق تعلیم دینے کے لیے ملک بھر کے اسکولوں میں برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے نظام نصب کیے جارہے ہیں۔

٭ نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ کے مغرب اور جنوبی حصوں میں بارش کثرت سے ہوتی ہے اور یہاں قدیم زمانے سے برساتی پانی کو کام میں لانے کی روایت موجود ہے۔ اس سلسلے میں مقامی کونسلوں نے قواعد و ضوابط بھی وضع کررکھے ہیں جو برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

٭سری لنکا
جزیرہ نما ملک کے دیہی و شہری علاقوں میں برساتی پانی کو زرعی اور گھریلو مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برساتی پانی کی ذخیرہ کاری اور اس کے استعمال کو فروغ دینے کے سلسلے میں اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 2007 میں قانون نافذ کیا تھا۔

مذکورہ بالا کے علاوہ بھی متعدد ممالک میں جہاں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں اور مون سون کے دوران شہروں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے وہاں آسمان سے بوندوں کی صورت برستے پانی کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو ’ قید‘ کرنے کے لیے مختلف طریقے رائج ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔