برساتی پانی۔۔۔۔۔ ضایع ہوتی مایا (حصہ دوم)

ندیم سبحان میو  اتوار 20 ستمبر 2020
متعدد ممالک میں بارش کا پانی ذخیرہ کرکے استعمال کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں قوانین بھی نافذ ہیں ۔  فوٹو : ایکسپریس

متعدد ممالک میں بارش کا پانی ذخیرہ کرکے استعمال کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں قوانین بھی نافذ ہیں ۔ فوٹو : ایکسپریس

برساتی پانی ذخیرہ کرنے کے طریقے
٭آسمان سے برستی بوندوں کے نیچے گھر اور عمارتیں ہوتی ہیں یا پھر کھلی جگہ۔ دونوں مقامات سے برساتی پانی اکٹھا کرنے کے لیے جُدا جُدا طریقوں سے کام لیا جاتا ہے۔ گھروں اور عمارتوں کی چھتوں پر برسنے والے پانی کو پائپوں کے ذریعے زیرزمین ٹینک میں منتقل کیا جاتاہے۔ پائپ سے ٹینک کے درمیانی راستے میں فلٹر بھی نصب ہوتے ہیں جن میں سے گزر کر برساتی پانی آلودگیوں سے پاک ہوجاتا ہے اور پینے کے قابل صورت میں ٹینک تک پہنچتا ہے۔ چھتوں پر ہونے والی بارش کے پانی کا معیار بہتر ہوتا ہے کیوں کہ یہاں سڑکوں اور گلیوں کے مقابلے میں آلودگی برائے نام ہوتی ہے۔

٭ وسیع و عریض عمارتوں، ہائوسنگ پروجیکٹس میں زمین پر برسنے والے برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے احاطے کے ساتھ کنویں کھود دیے جاتے ہیں۔ کنویں عمارت کے لحاظ سے چھوٹے اور بڑے اور تعداد میں کئی ہوسکتے ہیں۔ چوں کہ یہ پانی گدلا اور آلودہ ہوتا ہے اس لیے اسے براہ راست زیرمین ٹینک میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ عمارت یا وسیع و عریض ہائوسنگ کمپلیکس کی حدود میں کھلی جگہوں پر ہونے والی بارش کے پانی کو کنووں تک پہنچانے کے لیے فرش ڈھلوان بنایا جاتا ہے تاکہ پانی کنووں میں گرتا رہے۔

٭ جن گھروں اور عمارتوں میں برساتی پانی کے لیے الگ سے زیرزمین ٹینک یا کنویں بنانے کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں پلاسٹک کی بڑی بڑی ٹنکیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ چھت پر برسنے والی بارش کا پانی پائپوں کے ذریعے ہوتا ہوا ان ٹنکیوں میں جمع ہوجاتا ہے۔

برساتی پانی ذخیرہ کرنے کے فوائد
٭ یہ ذخیرۂ آب سرکاری لائن سے آنے والے پانی کا بہترین متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ بالخصوص قلت آب سے دوچار علاقوں کے مکین اس پانی سے اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ جن ممالک میں سرکاری سطح پر برساتی پانی کے ذخائر موجود ہوتے ہیں وہاں حکومت اس پانی کو جدید سائنسی تیکنیک سے آلودگی اور آلائشوں سے پاک کرنے کے بعد شہریوں اور صنعتوں کو فراہم کرتی ہے۔ اس طرح قلت آب کے مسئلے کا بآسانی سدباب ہوجاتا ہے۔

٭ بڑے اور گنجان آباد شہروں میں برساتی پانی ذخیرہ کرنے کا ایک اہم فائدہ اربن فلڈنگ سے بچائو کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب گھر، عمارتوں، ہائوسنگ سوسائٹیوں، فیکٹریوں کی سطح پر برساتی پانی اکٹھا کیا جارہا ہو، دوسری جانب شہر میں بھی حکومت نے مختلف مقامات پر چھوٹے ڈیم اور تالاب بنارکھے ہوں جن میں بارش کا پانی ذخیرہ ہورہا ہو تو پھر اربن فلڈنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی شدت کم ہوجاتی ہے۔

برساتی پانی کے استعمالات
ماہرین کے مطابق برساتی پانی، پانی کی خالص ترین شکل ہوتی ہے، تاہم آسمان سے زمین پر گرنے کے دوران فضا سے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر برساتی پانی کو اُبال کر فلٹر کرلیا جائے تو پھر بلاتردد اس سے پیاس بجھائی جاسکتی ہے اور کھانا وغیرہ پکانے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اُبالے اور فلٹر کیے بغیر اس پانی کو کپڑے وغیرہ دھونے اور غسل خانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے گھر کے باغیچے اور گملوں میں اُگے ہوئے پودوں کی آبیاری کی جاسکتی ہے۔ آپ برساتی پانی سے اپنی موٹرسائیکل اور گاڑی دھوسکتے ہیں۔ متعدد ممالک میں برساتی پانی کو مختلف صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

بڑے شہروں کے لیے کیا ہونا چاہیے؟
رواں سال کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں بارشوں سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ کراچی کے لیے وفاقی حکومت نے 11 کھرب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے جس میں بارشوں کے نقصانات کو محدود کرنے کے لیے برساتی نالوں کی توسیع بھی شامل ہے۔ دیگر شہروں کے لیے کسی ترقیاتی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ تاہم مستقبل میں شہروں اور شہری آبادی کو طوفانی بارشوں کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کو دیگر ممالک بالخصوص بھارت کی تقلید کرنی چاہیے۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا بھر کی آب و ہوا تبدیل ہورہی ہے۔ موسم بدل رہے ہیں۔ پاکستان میں مون سون کے سیزن میں شدید بارشوں کا سلسلہ آئندہ برسوں میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔ چناں چہ دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت کو مندرجہ ذیل پہلووں پر بھی غور کرنا چاہیے۔

٭حکومت شہروں میں موزوں مقامات پر چھوٹے ڈیم یا وسیع و عریض تالاب بنائے جن میں برساتی پانی کی بڑی مقدار ذخیرہ کی جاسکے۔ ڈیم یا تالاب کے ساتھ برساتی پانی کو گھریلو استعمال کے قابل بنانے اور پھر اس پانی کی پہلے سے موجود مرکزی لائنوں میں منتقلی کا نظام بھی قائم کیا جائے، تاکہ پا نی بآسانی گھروں تک پہنچ جائے۔

٭کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں ہر طرف فلیٹوں کی صورت میں رہائشی کمپلیکس سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ اسی طرح لاہور اور دیگر شہروں میں فلیٹوں کا رجحان فروغ پارہا ہے اور ہائوسنگ سوسائٹیز کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ قانون سازی کے ذریعے ان وسیع و عریض رہائشی منصوبوں کی انتظامیہ کو فلیٹوں کی چھتوں اور کمپلیکس کے احاطے کی حدود میں کھلی جگہوں سے برساتی پانی ذخیرہ کرنے کے نظاموں کی تنصیب کا پابند کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لیے بھی برساتی پانی کی ذخیرہ کاری اور اس کے استعمال کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنا ناگزیر قرار دیا جائے۔

٭ اسی طرح 120مربع گز اور اس سے زائد رقبے پر تعمیر کیے جانے والے گھروں اور عمارتوں کے لیے برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کے نظام کی تنصیب لازمی قرار دے دی جائے۔ پوش علاقوں میں تعمیرشدہ بنگلوں کے مالکان کو بھی یہی نظام نصب کرنے کا پابند بنایا جائے۔

٭ برساتی پانی کی ذخیرہ کاری کی افادیت، ذخیرہ کاری کے مختلف طریقہ ہائے کار اور متعلقہ آلات، اس کے استعمالات کے بارے میں عوامی آگہی مہمات شروع کی جائیں۔ یہ کام حکومت کے ساتھ ساتھ این جی اوز اور دیگر ادارے بھی انجام دے سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا اقدامات سے اربن فلڈنگ اور اس سے جُڑے نقصانات اور قلت آب پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور زیرزمین سطح آب بھی بلند ہوجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔