کورونا اور تعلیمی نظام

ایڈیٹوریل  پير 21 ستمبر 2020
موجودہ صورت حال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔

موجودہ صورت حال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔

کورونا کے باعث پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں مزید دس تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں، جامعہ بلوچستان اور لورالائی میڈیکل کالج کی بندش بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ بلوچستان حکومت نے صوبے میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کا امکان ظاہر کیا ہے، جب کہ سندھ حکومت پہلے ہی دوسرے مرحلے میں تعلیمی ادارے کھولنے کے فیصلے کو موخرکرچکی ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش سے علم کا بے پناہ نقصان ہوتا ہے، نوے فی صد سرکاری ونجی اسکولوں کے پاس آن لائن تعلیمی سہولیات نہیں، جب یہ تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں تو زیادہ تر طلبہ تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں۔

ہم اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتے کہ کورونا وائرس نے ہمارے نظامِ تعلیم کو خاصا متاثر کیا ہے۔ یہ حالات ہمارے نظامِ تعلیم کے لیے آزمائش بن کر آئے  اور دیکھنا یہ ہے کہ  اس کا کیسے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ موجودہ صورت حال نے ہمیں اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اب ہمیں ٹیکنالوجی کے تقاضوں کے مطابق اپنے معیار کو بلند کرنا ہوگا۔

وہ اسکول جو ڈیجیٹل کشتی میں سوار نہیں ہوسکے تھے وہ آج پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ انھیں بچوں کے تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے کے متبادل طریقوں کو مرتب دینے میں خاصی مشکلات پیش آئی ہیں۔

اس وقت تعلیم،باہمی رابطوں کو مربوط کرنے کے علاوہ  کاروباری مقاصد کے لیے گوگل کلاس روم سے لے کر واٹس ایپ اور فیس بک گروپس تک مختلف طریقہ کار استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں تو کسی نہ کسی طور آن لائن کلاسز کا سلسلہ کورونا وائرس کے دوران جاری رہا، لیکن ساٹھ تا ستر فیصد دیہی اور پسماندہ ترین علاقوں میں تو تعلیمی عمل گزشتہ چھ ماہ سے تعطل کا شکار رہا ہے۔

شہروں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ زیادہ تر اسکول وقت اور پیسے کی بڑی سرمایہ کاری اور زیادہ محنت  کے خدشے کے پیش نظر اپنے تعلیمی عمل میں ڈیجیٹل علمی آلات کو شامل کرنے سے گریزاں رہے، لیکن آج وہ تمام ٹیکنالوجی کی کشتی میں سوار ہونے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔

اب اگر ایک بار پھر ہماری صوبائی حکومتیں جو آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد بہت زیادہ اختیارات او وسائل کی مالک ہیں ، تعلیمی اداروں کی بندش کا سوچ رہی ہیں تو یہ صورت حال اور سوچ انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹ میں حکومت سندھ کے دوسرے مرحلے میں اسکولز نہ کھولنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے صوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس کے بعد اعلان کردہ شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔اس حوالے سے 22 ستمبر کو این سی او سی کے اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا، لیکن اگر صورت حال یہی رہی تو 23 ستمبر سے چھٹی سے آٹھویں جماعت کی کلاسز کے آغاز میں التوا کے خدشات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

یہ خاصا شش و پنج میں ڈال دینے والا مرحلہ ہے۔ کورونا کے پھیلاؤ کا تاثر کچھ اور کہانی کہہ رہا ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے لاکھوں طلبا وطالبات کے لیے معاملہ بہت مبہم ہو رہا ہے۔گو صورت حال ابھی غیر واضح ہے مختلف امتحانات کے ہونے، نہ ہونے، ایوریج مارکنگ کرنے اور نئے داخلوں کے بارے میں بھی کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ہی کوئی حتمی فیصلہ کر لے۔بہتر تو یہ ہی تھا کہ رواں تعلیمی سال جہاں روکا گیا، وہیں سے مارچ دو ہزار اکیس میں شروع کر دیا جائے، لیکن یہ بھی ایک مشکل فیصلہ ہے۔

اب ایسا ہے کہ امتحان دلائیں، نہ دلائیں، سال ضایع کرائیں نہ کرائیں، ایوریج مارکنگ قبول کریں نہ کریں، فیصلے کا بار ایک مرتبہ پھر والدین کے کاندھوں پہ آ گرا ہے۔ حکومت اس وزن کو اٹھائے، ماہرین کے ساتھ بیٹھ کے ایک حتمی فیصلہ کرے اور اسے نافذ کرے۔سرکاری تعلیمی اداروں اور نجی اداروں کے طلبا کے لیے یکساں نصاب کا فیصلہ لیا جائے تا کہ کسی بھی طبقے کے بچے کا انفرادی سطح پہ علمی نقصان نہ ہو۔ کورونا وائرس کی وباء  ایک اجتماعی آفت ہے اور اس سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کے، ہوش و حواس اور عمدہ حکمت عملی بروئے کار لا کر ہی نمٹا جا سکتا ہے۔

ادھر ایک خبر کے مطابق گزشتہ روز پنجاب بھر کے نو تعلیمی بورڈز نے میٹرک کے سالانہ امتحانات 2020 کے نتائج جاری کردیے۔ پہلی بار گریڈ سسٹم کی بنیاد پر نتائج جاری کیے گئے اور پوزیشنز کا ذکر نہیں کیا گیا۔اس امر پر طالب علموں نے پریشانی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے، بات ذرا کڑوی تو ہے لیکن سچ ہے کہ میٹرک،انٹرمیڈیٹ اور اے لیولز وغیرہ کے بچوں کی یہ کھیپ ہم نے کہیں سے ڈاؤن لوڈ نہیں کی۔

سالہا سال کی محنت سے یہ نسل جوان کی ہے، ضرورت تو یہی کہتی ہے کہ تعلیم کا عمل جاری رہے ، اگر تعلیم ہی بند یا محدود کردگئی تو اس طرح کے فیصلے  پورے تعلیمی نظام کے تابوت میں آخری کیل  ثابت ہوسکتے ہیں۔ جس طرح ملک کی معیشت اہم ہے، اسی طرح ملک کا مستقبل بھی تعلیم کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔ ملک بھر کے لاکھوں طلبا و طالبات، والدین اور اساتذہ  ارباب اختیار کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی نظام کے امتحانی طریقہ کار اور پروفیشنل اداروں میں داخلے کے حصول کی خاطر میرٹ کے تعین کے لیے وضع کردہ سسٹم میں اس قدر خامیاں ہیں کہ زیادہ مارکس حاصل کرنے والے اچھے اسکولوں ، کا لجوں اور یونیورسٹیز میں داخلوں سے محروم رہ جاتے جب کہ کم نمبروں والے اسپورٹس یا کسی صاحب اقتدار کے صوابدیدی اختیار کا سہارا لے کر داخلہ حاصل کرلیتے ہیں۔

جب تک پاکستان کے ناقص تعلیمی نظام میں موجود خرابیوں کا تدارک نہیں کیا جاتا، غریب اورمتوسط گھرانوں کے بچوں کے  ساتھ ناانصافی اور حق تلفی کا سلسلہ جاری رہے گا جب کہ بااثر اور متمول خاندانوں کے بچے موجودہ تعلیمی اور امتحانی نظام کے ثمرات سے مستفید ہوتے رہیں گے اور ملک کے نوے فی صد عوام پر  طبقہ امرا ء کی حکومت قائم رہے گی۔

ملک کے اکثر تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیوں کے عہدے حکمرانوں کے منظور نظر افراد کو ملتے ہیں۔چنانچہ ایسے افراد سے کوئی کیسے یہ توقع رکھ سکتا ہے  کہ وہ امتحانی نظام میں میرٹ کے حصول کو یقینی بنائیں گے۔جب چیئرمین، رجسٹرار اور کنٹرولر کے عہدے سفارش  سے ملے ہوں گے  تو تعلیمی نظام کی بہتری کے خواب دیکھنا محض خود فریبی ہے ۔

مروجہ امتحانی نظام میں امیدواروں کو حل شدہ جوابی کاپیاں واپس نہیں کی جاتیں، اس وجہ سے فیل یا کم نمبرز حاصل کرنے والے طلبا کو اپنی اصل غلطیوں کا درست طور پر علم ہی نہیں ہو پاتا۔وہ صرف فرض کرتا ہے کہ اس نے یہ غلطی کی ہوگی، جب کہ جدید آن لائن امتحانی نظام میں امیدوار کو حل شدہ جوابی کاپی فوری طور پر پرنٹ کر کے یا ای میل کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کی  سیاست کی طرح شعبہ تعلیم کے زوال پذیر ہونے کی وجوہات میں کرپشن، اقربا پروری، لسانی ، نسلی ، صوبائیت، بدانتظامی  ہے تاہم اچھے افراد کی معمولی استثنائی مثالیں ہرشعبے میں موجود ہیں مگر اُن ایسے حضرات نظام کو تبدیل نہیں کرسکتے ۔

بااثر افراد کے بچوں کو ناجائز نمبرز دلوانے کی بات ہو یا جعلی رزلٹ کارڈز اور ڈگریوں کا معاملہ ہو، یہ سب حقائق ہیں اور آئے روز کوئی نہ کوئی خبر شایع ہوتی رہتی ہے۔ بعض اوقات افسران کی نااہلی کی وجہ سے نچلے درجے کے ملازمین کا سنڈیکیٹ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ سسٹم کی میکانیت سے عدم واقفیت کی بنا پر بورڈ،یونیورسٹی کے اعلیٰ افسران تدابیری اقدامات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں وہ جیو اور جینے دو کے اصول کی بنا پر نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سندھ کے ایک سابق دانشور اور وفاقی وزیر تعلیم اپنے صوبے کے نوجوانوں کے لیے نقل کو استحقاق سمجھتے تھے تاکہ وہ  وفاقی اداروں میں ملازمتوں اور عہدوں کے حصول کے  لیے پنجاب اور کراچی کے نوجوانوں کا مقابلہ کرسکیں۔چنانچہ چند برس پیشتر جب نجی یونیورسٹیاں قائم نہیں ہوئی تھیں،  بااثر خاندانوں کے بچے جو کم نمبرز کی بنا پر لاہور ، کراچی یا اسلام آباد کے اعلی تعلمی اداروں میں داخلہ نہیں لے سکتے تھے ،  ایسے طالب علموں کو  بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی وغیرہ کے امتحان بذریعہ نقل پاس کرنے کے  لیے  سندھ کے اندرونی علاقوں میں تعلیمی اداروں  کا رُخ کرتے تھے۔

سندھ ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں اچھے مارکس سے امتحان پاس کرنے والے طالب علموں کی تعداد دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کیونکہ ان علاقوں میں قائم اسکولز کی حالت اور معیار سب کے سامنے ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے  رزلٹ کارڈز اور ڈگریاں بکتی ہیں۔اگر کسی بھی تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات کے اہلکار چاہیں تو اپنے کسی بھی رشتے دار یا دوست کو مختلف مضامین کے پیپرز دیکھنے کے لیے فراہم کردیتے ہیں لہذا بورڈ اور یونیورسٹیوں میں چند پیشہ ور اساتذہ ہر طرح کے مضامین کی مارکنگ سفارش سے حاصل کرلیتے ہیں ۔

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ امتحانی نظام کو باقی ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور جو کام دنیا بھر کی یونیورسٹیاں آن لائن امتحانی نظام کی صورت میں ایک طویل عرصے سے کر رہی ہیں، وہی کام ہمیں بھی اپنے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں رائج کرنا ہوگا۔ملک میں میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے پسماندہ ترین اضلاع سے تعلق رکھنے والے جو تعلیمی بورڈز ہیں ان میں پائی جانیوالی کرپشن کا خاتمہ کیا جائے،کیونکہ لاہور،اسلام آباد ،کراچی کے تعلیمی بورڈز کا رزلٹ ستر فی صد تو ان کا رزلٹ پچاسی فی صد یا نوے فی صد آئے تو سوالات تو اٹھتے ہیں۔

اس طرح ہم ڈگریاں بانٹ کر نالائق فورس تیارکرکے سرکاری اورانتظامی شعبوں میں بربادی لارہے ہیں۔ ایسا نظام بنایا جائے کہ سب طالبعلموں کے پیپرز میرٹ پر نہ صرف چیک ہوں تاکہ حقداروں کو ان کا حق مل سکے اور ہم اپنے ملک کے انتظام وانصرام کو قابل اور لائق ذہنوں کے ذریعے چلا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔