درویش!

راؤ منظر حیات  پير 21 ستمبر 2020
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

فوربز دنیا کے امیرترین لوگوں کے متعلق ایک جریدہ ہے۔ کرہِ اَرض پرکتنے ارب پتی ہیں۔ فوربز میں درج شدہ باتیں مستند ترین مانی جاتی ہیں۔ تازہ میگزین کے سرورق پرایک بوڑھے انسان کی تصویر ہے جسکے چہرے پرجھریاں ہیں۔ ہاتھوں کی جلدمیں لکیریں ہی لکیریں ہیں۔

سب سے اہم چیزاس خوشبودارانسان کے چہرے پرملکوتی سکون ہے۔ چک فینی نام کایہ نوے سالہ بزرگ دنیاکے امیرترین لوگوں میں سے ایک ہے۔مگران جیسا نہیں ہے۔ چک فینی نے اپنی تمام جائیداد، لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے وقف کردی اوراعلان کردیاکہ ایک قلاش انسان کے طورپر دنیا چھوڑنا چاہتاہے۔

کسی بھی ترکہ کے بغیر۔اس کی کل جائیدادآٹھ بلین ڈالرتھی۔ اس نے تمام خیرات کردی ہے۔ ہمارے جیسے ’’دس نمبرملک‘‘ تو اُلٹے لٹک جاتے ہیں جب کہیں دوتین بلین ڈالرقرضہ ملتاہے پھرفخریہ طورپربتایاجاتاہے کہ ورلڈبینک یاآئی ایم ایف نے جاتے ہی ہمارے ’’وزیربے خزانہ‘‘ کے سامنے ہاتھ جوڑے اورعرض کی کہ جناب آپ نے آنے کی تکلیف کیوں کی۔ہمیں حکم دیاہوتا،ہم ڈالرکی گٹھڑی سرپرلادکرآپکی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔یہ جھوٹ تہتربرس سے ’’کامل دروغ گوئی‘‘کے ساتھ بولاجارہاہے۔

جتناقرضہ ہم ایڑیاں رگڑرگڑکرحاصل کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ، چک فینی نے انسانیت کی راہ میں خرچ کر ڈالا ہے۔ یہ فرشتوں جیساکردارہے۔

اب یہ سوال کہ چک فینی نے اتنی بیش بہادولت کیسے حاصل کی۔کیاوہ پاکستان یااس جیسے ملک کاکوئی سابقہ وزیراعظم یاوزیراعلیٰ یاکوئی سرکاری ملازم تو نہیں۔ کیاچک فینی نے دھیلے کی کرپشن تونہیں کر ڈالی۔ پر جناب،اس طرح کی کوئی بھی ادنیٰ بات نہیں۔انتہائی متوسط طبقے میں پیداہونے والایہ شخص،حددرجہ درمیانے سے حالات میں زندہ رہا۔ 1960میں سیاحوں کے لیے ’’ڈیوٹی فری شاپس‘‘ کھولنے کارجحان بڑھ رہاتھا۔

مقصدیہ کہ سیاحوں کو سستے داموں پرہرچیزمہیاکی جائے۔ چک فینی نے 1960ء میںDutyfree Shoopers Groupنام کی ایک کمپنی تشکیل دی۔سب سے پہلی ڈیوٹی فری شاپ ہانگ کانگ میں کھولی گئی۔چک فینی کومشرقی تاجرطبقے کی علتوں کا اندازہ نہیں تھا۔ کچھ عرصہ ہانگ کانگ کی شاپ پر رہا تو اسے ایک عجیب اندازہ ہوا تمام مشرقی تاجر ہر چیزکے تین گنا دام وصول کرتے تھے یہ گاہک کے ساتھ ظلم تھا۔ اس نے اپنی ڈیوٹی فری شاپ پر درمیانے منافع پر چیزیں فروخت کرنی شروع کر دیں۔ قدرت نے اس کا ہاتھ تھامااوراس کی ڈیوٹی فری دکانیں، پورے یورپ اور امریکا میں پھیل گئیں۔تھوڑے عرصے میں سالانہ منافع تین سوملین ڈالرتک پہنچ گیا۔

فینی نے ایک حددرجہ ’’بڑا‘‘ فیصلہ کیا۔وہ بھی اس طرح کہ کسی کوبھی اس کے خیراتی کا موں کی بھنک نہ پڑے۔کسی کوبتائے بغیر اپنا منافع، فلاحی تنظیموں کودیناشروع کردیا۔شرط صرف ایک تھی کہ کسی کوبتایا نہیں جائیگاکہ یہ پیسے کون دے رہا ہے۔

ہاں،اسکانمایندہ ایک سرٹیفیکیٹ ضرور دیتاتھاکہ یہ تمام پیسے جائزذرایع سے کمائے گئے ہیں۔فینی کا کاروبار بڑھتاچلاگیا۔تیس سال میں وہ دنیاکے پہلے دس امیر ترین لوگوں میں آگیا۔ 1997 میں کسی اخباری نمایندے نے حددرجہ ریاضت سے معلوم کرلیاکہ اداروں میں پیسے تقسیم کرنے والاکوئی اورنہیں بلکہ چک فینی ہے۔ تین دہائیوں میں اس’’مردِعجیب‘‘نے ایک انٹرویوتک نہیں دیا تھا۔ دنیامیں اسے ’’خیرات کرنے والا جیمزبانڈ‘‘ کہا جانے لگا۔پبلسٹی سے حددرجہ دور، چک فینی خاموشی سے اپنی دولت کوانسانیت کی فلاح وبہبودکے لیے صَرف کرتارہا۔

چک فینی،کارنل یونیورسٹی کافارغ التحصیل تھا۔یونیورسٹی طالبعلموں کی امدادکے لیے اس نے ’’ایک بلین‘‘ ڈالرمختص کیے۔نیویارک میں ٹیک کیمپس بنانے کے لیے تین سوپچاس ملین ڈالردے ڈالے۔ چک فینی کا خاندان، آئرلینڈسے امریکا منتقل ہوا تھا۔اپنی جنم بھومی کی دویونیورسٹیوں کی ترقی کے لیے ایک بلین ڈالرخیرات کر دیے۔یہ کوئی بہت معروف درسگاہیں نہیں تھیں۔ایک کانامDublin City Universityاوردوسری درسگاہ کانام University of Limerick ہے۔

فینی نے محسوس کیاکہ آئرش آرمی بہت فساد برپا کر رہی ہے۔ان کے ممبران کی فلاح وبہبودکے لیے خطیررقم مہیاکی۔ فینی کی کوششوں سے آئرلینڈمیں مکمل امن قائم ہوگیا۔ ایشیاء کے ممالک جیسے ویتنام،صحت کی سہولتوں میں بہت پیچھے ہیں۔

فینی ویت نام چلا گیا اوراپنی ذاتی گرہ سے پورے ملک کے صحت کے نظام کو بہترین بناڈالا۔اس پربھی ایک بلین ڈالرسے زیادہ خرچ کیے۔2011میں دنیاکے پہلے پندرہ امیرترین لوگوں نے ایک معاہدہ کیا۔اسکانامThe Giving Pledgeتھا۔معاہدے میں بل گیٹس اوروارن بوفٹ بھی شامل تھے۔فینی نے ان تمام لوگوں کوخط لکھاکہ کسی بھی آدمی کواتنی زیادہ دولت کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذاوہ مرنے سے پہلے اپنی تمام دولت فلاحی اورتعلیمی اداروں میں تقسیم کردیگا۔

بل گیٹس نے جواباًکہا،کہ اس پوری دنیامیں اس کا صرف ایک ہیروہے اوروہ ہے چک فینی۔ایک اور اہم بات جوکہ کافی تلخ بھی ہے۔ان تمام لوگوں میں جنھوں نے اپنی دولت تقسیم کرنے کا معاہدہ کیا۔ان میںایک بھی مسلمان نہیں تھا۔حالانکہ برونائی کا بادشاہ،سعودی عرب اورمشرقی وسطٰی کے حکمران، حددرجہ امیرلوگ ہیں۔مگرایک بھی مسلم امیرشخص نے اس انسانی کوشش میں حصہ نہیں ڈالا۔ یہ اعزاز صرف اور صرف ’’کافروں‘‘کے حصے میں آیاکہ لوگوں کی فلاح کے لیے انھوں نے اپنی ساری دولت خیرات کرڈالی۔

فینی اب سان فرانسسکومیں رہتاہے۔اس کے پاس ذاتی گھرنہیں ہے۔وہ اوراس کی بیوی کرایہ کے فلیٹ میں قیام پذیرہیں۔آنے جانے کے لیے ٹیکسی یابس استعمال کرتاہے۔ اس کے پاس جوگھڑی ہے، اس کی قیمت صرف دس ڈالرہے ، آج کل کوئی بھی ایسی عام سی گھڑی پہننا پسندنہیں کرتا۔سفرکے دوران اپنے تمام کاغذات کسی دیدہ زیب بریف کیس کے بجائے ایک تھیلے میں رکھتا ہے۔مہنگے بریف کیس کونامناسب گردانتا ہے۔

معمولی لباس زیب تن کرتا ہے۔ اس نے ذاتی دولت، اپنے خاندان اوراپنی نمائش کے لیے استعمال نہیں کی۔بلکہ تعلیم، امن،صحت اوراس جیسے اچھے شعبوں میں صَرف کر ڈالی۔

یہ سب کچھ بتانے کے بعد،میری درخواست ہے کہ آپ اپنے ملک کے پہلے پندرہ امیرترین لوگوں کی فہرست بنائیں۔آزادی ہے کہ اتنی معلومات اور عقل کوبروئے کارلاکرملک کے پندرہ امیرترین لوگوں کے نام ضبطِ تحریر میں لائیں۔ پھر تجزیہ کریں کہ ان امیر لوگوں نے عام پاکستانی کی فلاح وبہبودکے لیے اپناپیسہ استعمال کیا یا نہیں؟ حیران رہ جائینگے کہ ان لوگوں نے ملک کو بیدردی سے لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ سیاستدانوں کو تو رہنے دیجیے۔

ان کی ڈاکہ زنی تو زبان زد عام ہے۔ مگر ہمارے نامی گرامی صنعتکاروں نے بھی کم ظلم نہیں کیا۔ بینکوں سے لیے گئے قرضے ہڑپ کرنا، ٹیکس نہ دینا،انتہائی مہنگے داموں اپنی اشیاء کو بیچنا، لوگوں کی رگوں سے آہستہ آہستہ خون نچوڑنے کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔آج تک نہیں دیکھا کہ ہمارے ملک کے امیرترین لوگوں نے باہمی معاہدہ کیاہو،کہ وہ اپنی دولت،پاکستان کے تعلیمی اداروں اوراسپتالوں کو بہتربنانے کے لیے خرچ کرینگے۔

آج تک سننے میں نہیں آیاکہ ہمارے امیرترین  طبقے نے اعلان کیا ہو،کہ ہم ہیپاٹائٹس، کینسر اور دیگرموذی بیماریوں کی دوائیں لوگوں میں مفت تقسیم کرینگے۔نام نہیں لینا چاہتا۔ مگر ہر ایک کوان لوگوں کی اصلیت کاپتہ ہے کہ یہ کیسے منفی داؤلگاکر امیرہوئے ہیں۔

میری نظرمیں یہ ’’ذہنی قلاش‘‘ انسان ہیں جواپنی اولاد کے مفادسے آگے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ انھیں دولت، ایک سزاکے طورپر دی گئی ہے۔ان میں بڑے دل کاشخص ڈھونڈناحددرجہ بیوقوفی ہے۔ یہ وہ ڈاکو ہیں جوہماری نسلیں تباہ کرچکے ہیں۔ مگر تھوڑا سا غور کیجیے۔چک فینی جیسادرویش ہمارے ملک کے نصیب میں کیوں نہیں ہے؟ خدانے ہمیں اور مسلم دنیا کواتنابانجھ کیوں کردیاہے کہ یہاں صرف شعبدے بازاورٹھگ ہی پیداہوتے ہیں۔ چک فینی جیسے درویش نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔