حکومت، اپوزیشن اور نواز شریف کی واپسی

 منگل 22 ستمبر 2020
اے پی سی کا اہم ایونٹ نواز شریف کی تقریر تھی۔ (فوٹو: فائل)

اے پی سی کا اہم ایونٹ نواز شریف کی تقریر تھی۔ (فوٹو: فائل)

اے پی سی کی بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ 11 جماعتوں کے اتحاد نے حکومت کے خلاف چارج شیٹ دے دی ہے۔ اس چارج شیٹ کا مین فوکس وزیراعظم اور ان کو لانے والے ہیں، یہاں لانے والے عوام نہیں۔ ان کا اشارہ کسی اور طرف ہے۔ اے پی سی کے اعلامیہ اور پلان آف ایکشن سے زیادہ اہم اور موثر نواز شریف کی تقریر تھی، جو جی ٹی روڈ کے بیانیے کی دوسری قسط تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ نوازشریف نے اپنی تقریر میں کس کو چیلنج کیا؟ حکومتی کارکردگی پر نواز شریف کی تنقید کا کیا جواز ہے؟ اے پی سی میں حکومت کےلیے کیا نشانیاں ہیں؟ تقریر کے بعد نواز شریف کے لندن بیٹھنے کا کیا جواز رہا؟ بات تقریروں سے آگے کب جائے گی؟

جہاں پر نااہلی کی حکمرانی ہو، وہاں نان ایونٹ ہی ایونٹ بن جاتا ہے۔ اے پی سی کو کامیاب سیاسی ایونٹ بنانے میں حکومتی وزرا اور مشیروں کا اہم کردار رہا۔ انہوں نے ایسی گرمی دکھائی کہ میڈیا اور عوام کو اس طرف متوجہ کردیا۔ حالانکہ عوام تو ’’بھنگ‘‘ کی کاشت کے بارے میں تدبیریں کررہے تھے، لاکھوں گھروں کےلیے زمین پوزیشن تلاش کررہے تھے، نوکریوں کےلیے ہاتھوں میں درخواستیں پکڑے سرکاری، نجی اداروں کے باہر کھڑے تھے۔ بھلا ہو وزیراعظم کے ترجمانوں کا انہوں نے عوام کو چوکنا کردیا۔

اے پی سی کا اہم ایونٹ نواز شریف کی تقریر تھی۔ انہوں نے موثر چارج شیٹ دی ہے، اس سے چنگھاڑتی ہوئی چارج شیٹ نہیں دے سکتے تھے۔ ایک بات طے ہے کہ نواز شریف کا سیاسی ہیڈ کوارٹر لندن ہی ہوگا۔ عوام کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کے دوسرے ’’الطاف بھائی‘‘ بنادیے گئے ہیں۔ وہیں سے گولہ باری کریں گے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ چارج شیٹ دینے والے اور جن کے خلاف چارج شیٹ ہے، ان کی قابلیت سب کے سامنے ہے۔ نواز شریف نے جو نکات اٹھائے وہ صرف پاکستان کی سیاسی قوتوں کےلیے نہیں بلکہ سب کےلیے لمحہ فکریہ ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر حق داروں کے حق پر ڈاکا کیوں ڈالا جاتا ہے؟ بار بار حدیں کیوں عبور کی جاتی ہیں؟

جی ٹی روڈ کے بیانیہ کو نیا موڑ ملا ہے۔ ایک بات تو طے ہوگئی کہ یہ پارٹی ن لیگ ہے اور نواز شریف کے نام پر ہے۔ مفاہمتی بیانیہ ختم ہوگیا اب مزاحمتی بیانیہ چلے گا۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو باپ کا درجہ دیتے ہیں۔ پنڈی کے شیخ صاحب کے دعوے بھی ہوا ہوگئے ہیں۔ ان کی ش لیگ کی باتیں بھی فی الحال دفن ہوگئی ہیں۔ نواز شریف ایک بار پھر اپنی پارٹی بچانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ نواز شریف نے سعودی عرب کا کیس پیش کیا، سی پیک پر بات کی۔

اپوزیشن کی جدوجہد پہلے فیز میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ان کا اکٹھا بیٹھنا اور مشترکہ لائحہ عمل دینا مخالف قوتوں کےلیے دردِ سر اور خود اپوزیشن کےلیے کامیابی ہے۔ نواز شریف نے اپنے آپ کو مظلوم اور باقی سب کو ظالم پیش کیا۔ نواز شریف نے اپنے کارکنوں، تاجر طبقہ اور ہم خیال بیوروکریسی کو حوصلہ دیا ہے۔ اب پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کی گورننس کو مشکلات پیش آئیں گی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر بھونچالی کیفیت ہے۔ نواز شریف سب کے اعصاب پر سوار ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایسے ایسے بیانات آرہے ہیں کہ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ آج کل ایسے لگتا ہے ملک میں صرف نواز شریف ہی سب کچھ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی سیاست اسی ایک شخص کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ ایک فریق مخالفت کرتے نہیں تھکتا تو دوسرا فریق صفائیاں دیتے ہلکان ہوا جاتا ہے۔ کیا نواز شریف این آر او کے تحت باہر گئے؟ اس پر بھی بحث جاری ہے۔

میں نے لکھا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو این آر او مل چکا ہے اور اب وہ میڈیکل بنیاد پر ضمانت مل جانے کے بعد بیرون ملک چلے جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا، اچانک نواز شریف کی صحت بگڑتی ہے۔ میڈیا پر شور مچتا ہے، مریم نواز کا خاموش ٹوئٹر اکاؤنٹ سابق وزیراعظم کی صحت کےلیے فکرمند ہوجاتا ہے، میڈیا پر پل پل کی خبریں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بازو میں درد ہے، سانس لینے میں تکلیف ہے، دردناک انداز میں خبریں پیش کی جاتی ہیں۔ منظر بدلتا ہے اور ان کو سروسز اسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ مریم نواز کو بھی جیل سے لایا گیا۔ ،جب تک نواز شریف یہاں رہے مریم نواز بھی رہیں۔ پھر ایئر ایمبولینس آتی ہے اور نواز شریف لندن اڑان بھر جاتے ہیں۔ تب کے گئے نواز شریف اب تک لندن میں ہیں، نہ عدالت نے بلایا، نہ نیب نے لایا۔

اس وقت کے بیمار نواز شریف کے بارے میں اب کہا جارہا ہے کہ ان کی میڈیکل رپورٹس غلط تھیں، ان میں گڑبڑ کی گئی۔ وزرا کہتے ہیں کہ عمران خان بھی سمجھتے ہیں ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، ان سے دھوکا ہوگیا۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں ہمارے پاس ثبوت ہیں، ایک ایک سیمپل موجود ہے، سب کی تحقیقات کرائی جاسکتی ہیں۔ وزیراعظم بار بار کہتے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا۔ ان کے وزرا کہتے ہیں ’’ڈیل‘‘ تو ہوئی ہے۔ اگر این آر او ہے تو پھر کس نے دیا؟ وزیراعظم کی بات مانی جائے یا وزرا پر یقین کیا جائے؟

یہ حکومت میڈیا مینجمنٹ پر چل رہی ہے، اسی لیے بڑی تعداد میں ترجمانوں اور سوشل میڈیا ٹیم کو رکھا گیا ہے۔ ایک کے بعد ایک ایشو مارکیٹ میں ڈالا جاتا ہے پھر اس پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کا سیاست میں فعال ہونا اور اپوزیشن کا اکٹھا ہونا معجزہ نہیں۔ یہ ملک میں ایک سیاسی تبدیلی ہے جس کے اثرات جلد دکھائی دیں گے۔

اپوزیشن کے پاس فروری تک کا وقت ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن سے ان کو کوئی کامیابی مل جائے۔ یہ تحریک انصاف میں سے کسی اور کو وزیراعظم نہیں چاہتے۔ اگر اپوزیشن فروری تک اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئی تو سینیٹ میں حکومت کو یقینی کامیابی ہوگی۔ اس کے بعد حکومت کو گرانا مشکل ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔