خدا کی زمین پہ فساد مت پھیلاؤ

رئیس فاطمہ  جمعـء 7 ستمبر 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

ابھی تو ہندو برادری کے پاکستان سے انخلاء کی خبریں باسی بھی نہ ہوئی تھیں کہ ایک اور دکھی کر دینے والے واقعہ نے سر اٹھایا …

کم عمر رمشا عیسائی ہے، اس پر وہ الزام لگا دیا گیا جس کی وہ مرتکب بھی نہ ہوئی تھی۔ یا خدا…! یہ کیسا عذاب میرے وطن پہ آچکا ہے کہ جس سے اب چھٹکارا ممکن نہیں … کہ مذہبی انتہا پسندی کے مختلف من پسند ہتھیاروں سے اقلیتوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ ایک ہم عصر سینئر کالم نگار نے اس مذہبی جنونیت کو ’’ دیوانگی کا رقص‘‘ قرار دیا ہے۔

ہم میں سے بہت سے لکھنے والوں نے اپنی اپنی تحریروں میں اس دیوانگی کی طرف حکومت وقت کی توجہ دلائی ہے۔ اور بار بار یہ احساس دلایا ہے کہ حکومت نے اگر مذہبی جنونیوں اور انتہا پسندوں کے سامنے گٹھنے ٹیک دیئے تو یہ اس ملک کے ماتھے پر وہ کلنک کا ٹیکہ ہوگا جو مٹائے نہیں مٹے گا۔

اور وہی ہوا اتنی شرمندگی اور افسوس کی بات ہے کہ اس بار رمشا مسیح کے کیس میں ایک امام مسجد کا کردار بڑے بھیانک طریقے سے سامنے آیا ہے۔ اس کیس کی تمام تفصیلات پڑھ کر مجھے بے اختیار علامہ اقبال کا وہ مصرعہ یاد آجاتا ہے؎

کارِ ملّا ؟ کار ملّا فی سبیل اﷲ فساد

لیکن شکر ہے خدا کا اور اس کے رسولﷺ کا کہ کچھ صاحب ایمان اور خدا سے ڈرنے والے افراد سامنے آئے اور انھوں نے اس کیس کی قلعی کھول دی۔ حافظ زبیر نے جس طرح اس سارے کیس کی اصلیت میڈیا پر آکر بیان کی ، اس سے یہ تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی ہم میں ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو حق بات کہنے سے نہیں گھبراتے۔ اس کے ساتھ ہی جناب ایاز امیر کا یکم ستمبر کا کالم پڑھ کے بھی ایک اطمینان ہوا کہ کچھ ایسے صاحب دل اہل قلم بھی موجود ہیں جو میری طرح ایسے واقعات پر دل گرفتہ اور ملول ہیں۔

یہ دیوانگی ابھی اورکس کس طرح پاکستان کا نام بدنام کرے گی؟ یہ کوئی نہیں جانتا ۔پاکستان میں ذاتی دشمنی اور ذاتی مفادات کے لیے کسی پر کوئی بھی الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح انھیں میڈیا کی توجہ حاصل ہوجاتی ہے۔ شہ سرخیوں میں جگہ ملتی ہے۔ تحقیق کیجیے تو پتہ چلے گا کہ پورے احتجاجی گروہ میں سے کسی کو بھی حقیقت کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ اندرون خانہ کہانی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ رمشا کے سلسلے میں ہوا۔ پولیس کے کردار کا بھی زور و شور سے ماتم کیجیے (جو پوری قوم کرتی رہتی ہے) کہ اس نے بلا چھان پھٹک اور تفتیش کے فوراً ہی ایف آئی آر درج کر لی۔ جب کہ بیشتر معاملات میں مدتیں گزر جانے کے باوجود لوگ جینوئن ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔

ضیاء الحق نے امریکی آشیرواد اور ڈالروں کی مدد سے پاکستان میں اسلام کے نام پر جن دہشت گردوں کے سروں پر ہاتھ رکھا تھا۔ آج وہ سنپولیے شیش ناگ بن چکے ہیں۔ ضیاء الحق کو بہت اچھی طرح معلوم تھا کہ اپنے اقتدار کو طول دیئے اور قائم رکھنے کے لیے ان مولویوں اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملانا ضروری ہے جو نہ جانے کب سے اقتدار کے محلات کی غلام گردشوں میں سانس لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ سو ان کی دلی خواہش کا راز جان کر انھوں نے ان سے معاملات طے کیے کہ وہ انھیں ’’امیر المومنین‘‘ بنوانے کی کوششوں میں مدد کریں گے۔ اور ڈکٹیٹر کی ہر بات کو دین اسلام سے وابستہ کرکے اس کا پروپیگنڈا کریں گے۔

سرکاری تقاریب میں تلاوت بھی انھی آیات کی کریں گے جو ان کے ذاتی موقف کی حمایت کرتا ہو۔ پس کیا تھا۔ ادھر ڈیل ہوئی اور ادھرکبھی افغان جہاد کے نام پر اور کبھی اسلام کے نام مولوی حضرات پر ڈالروں کی بارش کے ساتھ ساتھ محلات شاہی کی نیم روشن خواب گاہوں کے نرم بستروں پہ سونے کی خواہش بھی پوری ہوئی۔ اور جو وزارتیں ملیں ان کا نشہ الگ۔ گویا یوں کہہ لیں کہ ’’پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں‘‘ یا یوں کہہ لیجیے کہ ’’چپڑی اور دو دو‘‘ پھر اس ڈکٹیٹر نے مولویوں کے بعد سیاست دانوں کو اپنا غلام بنایا ۔ ان کا کام تھالوگوںکے درمیان نفرتیںوعداوتیںپھیلانا۔ مولویوں اور سیاست دانوں دونوںنیڈالروں اور وزارتوں کے عیوض ڈکٹیٹر کے خوابوں کی تعبیر کو عملی شکل دی جس میں سرفہرست مذہب، اور مسلک کی تلوار کا بے محابہ استعمال تھا…!!

تب کیا ہوا ؟ پہلے پر امن ، محنتی ، ایمان دار اور انسانی خدمت پر یقین رکھنے والے پارسیوں نے اس ملک سے ہجرت کی، پھر آہستہ آہستہ پنجاب کے بیشتر شہروں میں عیسائی برادری کو تنگ کرنا شروع کیا گیا، اور سندھ کے گوٹھوں اور چھوٹے شہروں میں ہندو برادری پہ زمین تنگ کر دی گئی۔

اغواء برائے تاوان، جنسی استحصال، بھتہ خوری، ہندو برادری ان زیادتیوں کو سہتی رہی، کیوں کہ ان کے اپنے لیڈر جو حکومت میں بھی تھے، ان کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی پہ آواز نہیں اٹھاتے تھے کیوں کہ انھیں اپنے حلوے مانڈے اور اپنی وزارت اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ سے کام تھا۔ کسی حد تک عیسائی برادری تو آواز احتجاج بلند کرتی رہی۔ لیکن ہندو برادری چپ رہی۔ کیوں کہ وہ ڈرتے تھے، پچھلے دنوں ایک نوجوان ہندو لڑکی کا فون میرے پاس آیا اس نے اپنی شناخت چھپاتے ہوئے بتایا کہ انھیں حد سے زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ اور خاموش نہ رہنے کی صورت میں پورے خاندان کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

کیا پاکستان اس لیے بنا تھا کہ خود مسلمان ایک دوسرے کو ماریں، کیا یہ قائداعظم کا پاکستان ہے؟… نہیں…یہ نہ قائداعظم کا پاکستان ہے نہ میرے اور آپ جیسے لوگوں کا ۔ جو صرف انسانیت پہ یقین رکھتے ہیں۔ انسان کا مذہب اور مسلک اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان اب ان انتہا پسندوں کا پسندیدہ ملک ہے۔ جو مجھ جیسے فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائی تعصب سے نفرت کرنے والے لوگوں کا کالم پڑھتے ہی گالم گلوچ سے بھرے SMS بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔

جب میں پاک بھارت دوستی پر لکھتی ہوں تو ایک خاتون کارکن گالیاں دے کر کہتی ہیں’’ انڈیا جائیں وہاں دفن ہوجائیں، تلک لگائیں ، سیندور لگائیں … اور …اور … قلم میں یارا نہیں کہ وہ الفاظ لکھوں جو وہ خاتون ہر ہفتے مجھے بھیجتی ہیں۔ اور اگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف لکھوں تو کہا جاتا ہے ’’ آپ اسرائیلی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں امریکی پٹھو ہیں … اور…اور‘‘

اب دیکھیے اس کالم کے بعد گل افشانی گفتار اور ان کی خاندانی ، تہذیب و تربیت کیا کہتی ہے انتظار رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔