شہری بحران کا موجب شہری سیلاب

محمد عاطف شیخ  منگل 22 ستمبر 2020
شہروں کا بے ہنگم پھیلائو ، شہری آبادی میں بے پناہاضافہ، شہروں میں کچی زمین کے تناسب میں کمی ۔  فوٹو : فائل

شہروں کا بے ہنگم پھیلائو ، شہری آبادی میں بے پناہاضافہ، شہروں میں کچی زمین کے تناسب میں کمی ۔ فوٹو : فائل

صبح کا وقت ہے گھر میں افراتفری کا سماں ہے بچوں نے اسکول جانا ہے اور مرد حضرات نے کام پر ۔ لیکن گزشتہ شب سے جاری بارش کی وجہ سے باہر گلی ایک نہر کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ اتنے میں موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے اور دوسری طرف سے بتایا جاتا ہے کہ بارش کا پانی آپ کی دکان اور گودام میں داخل ہوگیا ہے۔یہ سن کر گھر کے کفیل کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور اُنھیں فوراً طبی امداد کی ضرورت ہے لیکن اسپتال کیسے جایا جائے باہر اتنا پانی ہے کہ گاڑی نہیں چل سکتی اور ناہی موٹر سائیکل!

بارش کے باعث بجلی دو دن سے نہیں ہے۔ شہر کے ایک ریسٹورنٹ کے مالک پریشان ہیں کہ سڑکوں پر پانی ہونے کی وجہ سے کسٹمرز ریسٹورنٹ نہیںآ پارہے اور ہوم ڈلیوری بھی نہیں کی جا سکتی ایسے میں کھانے کی اشیاء کو محفوظ کیسے رکھا جائے؟ کیونکہ بجلی ہے نہیں اور جرنیٹر کا فیول ختم ہوگیا ہے اور بارش کی وجہ سے سڑکوں کے تالاب بننے کے باعث مزید فیول لایا نہیں جا سکتا!

بارش شروع ہوتے ہی ایک گھر کے مکینوں کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں پانی اُن کے گھر کے اندر نا آجائے اور سامان اور بلڈنگ کو نقصان نا پہنچائے کیونکہ وہ شہر کے جس حصے میں رہتے ہیں وہاں عموماً بارش کا پانی لوگوں کے گھروں، دکانوں اور فیکٹریوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شہر کے ایک خستہ حال گھر کے مکینوں کو اس خوف نے آگھیرا ہے کہ اُن کے سائبان کو یہ بارش کوئی نقصان نا پہنچا دے!

شہر کی ایک بڑے اسپتال میں آج آپریشن ڈے ہے لیکن اکثر سرجنز اور دیگر عملہ اسپتال نہیں پہنچ پایا کیونکہ بارش کی وجہ سے اسپتال آنے والے راستوں پر پانی کھڑا ہے اور وہ بند ہیں!

شہر کے ایک دیہاڑی دار مزدوروں نے کام پر جانا ہے لیکن بارش اور اُس کے باعث ہونے والی طغیانی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے اور اُسے یہ فکر ہے کہ کام نہیں ملے گا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا! اسی طرح روزانہ اجرت کے حامل ملازم کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ اُس کے کام پر نا پہنچنے کی صورت میں اُس کی آج کی اجرت کٹ جائے گی۔

بارش اور شہر کے راستوں پر برساتی پانی آنے کی وجہ سے فیکٹری مالک اس ٹینشن کا شکار ہے کہ میں اپنا ایکسپورٹ کا آڈر وقت پر دے بھی پائوں گا کہ نہیں کیونکہ لیبر کام پر نہیں آرہی!

برساتی پانی کی وجہ سے شہر بھر کے اکثر راستے مسدود ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں نقل وحرکت محدود ہوگئی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوںخصوصاً سبزیوں اور دودھ کی نقل و حمل میں خلل واقع ہوا ہے۔ یوں شہر ی طغیانی کے باعث شہر کے کئی علاقوں میں کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی میں کمی آگئی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے!

گھر میں کافی گہماگہمی ہے آج بیٹی کی بارات ہے، ہال بک ہے، ایڈوانس پے منٹ کی جا چکی ہے، دلہن کی سہیلیاں دلہن کو چھیڑ رہی ہیں کہ خوب ہانڈی چاٹی ہے جو رات سے بارش ہو رہی ہے۔ لڑکی کے و الدین فکر مند ہیں کہ شادی ہال کیسے پہنچا جائے ہر جانب پانی ہی پانی ہے، بارات کیسے آئے گی!

بارش کے باعث بجلی نا ہونے کی وجہ سے شہر میں پینے کے صاف پانی کی ترسیل نہیں ہو رہی۔ صاف پانی کی تقسیم کے پرانے اور بوسیدہ نظام کی وجہ سے برساتی پانی جس میںشہری گندہ پانی بھی شامل ہے صاف پانی کی پائپ لائینوں میں شامل ہو رہا ہے!

بارش تو رک گئی ہے لیکن پانی ابھی تک نکاس نہیں ہوا ۔ مچھروں اور دیگر حشرات الارض کی بہتات ہوگئی ہے۔ بچے بیمار ہو رہے ہیں! بارش کا پانی تو اُتر گیا ہے لیکن کیچڑ اور بدبو نے شہریوں کا جینا محال کر دیا ہے۔کیچڑ خشک ہوکر دھول کی صورت میں اڑ رہا ہے۔ سانس لینا محال ہے!

یہ انسانی بحران کی نمائندہ وہ چند عام صورتیں ہیں جن کا موجب شہری سیلاب بنتے ہیں۔ یہ سیلاب دراصل اُس صورتحال کا نام ہے جس میں بارشوں یا طوفان بادوباراں کی وجہ سے شہرکا نکاسی آب کا نظام جواب دے جائے اور شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے۔ کیونکہ پانی آسمان سے برسے یا زمین سے پھوٹے بہنے کے لیے اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔

پانی کے بہائو کا یہ قدرتی مظہر ہمیں دریائوں، ندی نالوں اور آبی گزر گاہوں کی صورت میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان اپنی تیار کردہ ٹیکنالوجی اور نظام کی مدد سے بھی پانی کے بہائو کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق ڈھال لیتا ہے لیکن یہ نظام بھی عموماً پانی کے قدرتی بہائو کی بنیاد پر ہی وضع کیے جاتے ہیں۔ جس کی واضح مثال دیہی علاقوں میں نہریں اور شہری علاقوں میں گندے پانی کی نکاسی کا نظام ہے۔اور جب ان دونوں نظاموں میں ان کی گنجائش سے زیادہ پانی داخل ہوجائے یا پھر ان کہ بہائو میں کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر پانی اپنے کناروں سے نکل کر سیلاب کی صورت اختیار کرتے ہوئے ڈھلوان کی جانب بہنا شروع کردیتا ہے۔ ماہرین نے ایسی صورتحال کو دیہی سیلاب اور شہری سیلاب کی اصطلاحات سے موسوم کیا ہے۔ اور جو بنیادی فرق واضح کیا ہے ۔

اس کے مطابق دیہی سیلاب کا زیادہ حصہ زمین کے وسیع علاقہ کو متاثر کرتا ہے اور اس سے آبادی کے غریب طبقات متاثر ہوتے ہیں۔ جبکہ شہری سیلاب کسی بھی شہر میں نکاسی آب کی سہولیات کے فقدان اور کمزوری کے باعث حقیقت کا روپ اختیار کرتے ہیں۔ کیونکہ شہر میں ایسی کھلی جگہوں کی تعداد محدود ہوجاتی ہے جہاں پانی جمع ہو یا زیرزمین جذب ہو سکے۔ یوں برسنے والی بارش کا پانی سڑکوں پر بہتا ہے یا پھر گندے پانی کے نظام میں داخل ہوتا ہے۔ تیز یا زیادہ بارش شہر میں طغیا نی کا باعث بنتی ہے۔

جب شہرکے گندے پانی کے نکاس کا نظام اور نالے اس قابل نہ ہوں کہ وہ بارش کی اُس مقدار کا نکاس کر پائیں جو برس رہی ہو اور نکاسی کا نظام چوک ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں برساتی پانی گندے پانی کے نکاس کے ایک مقام سے اس میں داخل ہوتا ہے اور شہر میں کسی دوسری جگہ اُبل کر سڑکوں کو ندی نالوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ شہری سیلاب اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب زمین کا لینڈ اسکیپ بارش کے پانی کو جذب اور نکاسی کا نظام اس کی نکاسی نہ کر پائے۔

اس کی ایک واضح مثال وادی کوئٹہ کی ہے جہاں کسی زمانہ میں شہر کے اطراف میں کاریزیں بہتی تھیں اور بارش کا پانی کوئٹہ کے قرب و جوار کے پہاڑوں اور میدانوںپر برسنے کے بعد ان کاریزوں کا حصہ بن کر زیر زمین بہتا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھتا تھا۔ لیکن پھر جب کوئٹہ نے پھیلنا شروع کیا اور مشرق تا مغرب آبادی پہاڑوں تک پہنچ گئی اوراندرون شہر اور شہر کے اردگرد موجود کاریزوں ،باغات ، کھیت اور کچی زمین جو بارش کے پانی کو جذب اور اس کے سطح زمین پر بہائو کو ریگولیٹ کرتی تھی اُسے کنکریٹ نے مکانات، عمارات ،پلازوں اور سڑکوں کی صورت میں ڈھانپ لیا تو ہوا پھر کچھ یوں کے آج کوئٹہ اور اس کے قرب وجوار میں ہونے والی کبھی کبھار کی بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔

کیونکہ کوئٹہ شہر کے گندے پانی کی نکاسی کا تقریباً تمام نظام کھلی نالیوں پر مشتمل ہے جو ڈھلوان کے اصول کے تحت گنجائش کے اعتبار سے ایک محدود آبادی کے لیے بنائی گیں تھیں۔اور اب معمولی سی بارش بھی انھیں چھلکا دیتی ہے اور تیز بارش میں تو یہ اپنی ظاہری شناخت ہی کھو دیتی ہیں۔ اور یہ سارا برساتی پانی شہر میں سیلاب کی صورتحال پیدا کرنے کے بعد بیکار بہہ جاتا ہے جو کبھی وادی کے زیر زمین پانی کے ذخائر کو ری چارج کیاکرتا تھا۔

ماہرین شہری سیلاب کی تعریف کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ (1 ) بارش کی وجہ سے (2)بارش جو تعمیر شدہ سطح پر پڑے (3) اور برساتی پانی مقامی نکاسی آب کی صلاحیت پر حاوی ہوجائے۔ یہ تقسیم تین علیحدہ عوامل کی نشاندہی کررہی ہے۔ پہلا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ بارش کے برسنے کے رجحانات میں تبدیلی کا۔ دوسرا شہروں کی آبادی میں اضافہ اور اُن کے پھیلنے کا۔ تیسرانکاسی آب کی سہولتوں اور ان کی حالت زارکا۔جب یہ تینوں عوامل ملتے ہیں تو شہری سیلاب رونما ہوتا ہے۔

آئیے پاکستان کے تناظر میں ان تینوں عوامل کا فرداً فرداً جائزہ لیتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی ایک عالمی رجحان ہے۔ لیکن اس کے اثرات پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ممالک کو زیادہ شدت سے محسوس ہوتے ہیں۔ قدرتی وسائل پرز یادہ انحصار،محدود تکنیکی صلاحیت اورآب وہوا میں تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ناکافی مالی وسائل ملک کو زیادہ خطرے سے دوچار کردیتے ہیں۔ پاکستان کا اگرچہ گلوبل گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے۔لیکن اس کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

گلوبل کلائیمیٹ ریکس انڈکس2020 بھی اس امر کی تائید کررہا ہے جس کہ مطابق1998 سے2018 کے دوران دنیا کے وہ مما لک جو قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اُن میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ایسی ہی ایک جھلک سینٹر فار ریسرچ آن ایپڈامالوجی آف ڈیزاسٹرزکے یہ اعدادوشمار بھی پیش کر رہے ہیں جن کے مطابق پاکستان میں2001 سے جون2020 تک سیلاب سے7301 اموات ہوئیں۔ 12022 افراد زخمی ہوئے۔4 کروڑ60 لاکھ 54 ہزار 5 سو90 افراد متاثر اور 18 ہزار ایک سو 55 افراد بے گھر ہوئے۔ جبکہ18 ارب81 کروڑ 91 لاکھ 48 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا۔

ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں سے ایک ہے۔جس کی وجہ سے شہری علاقوں میں بارش کی مقدار اور شدت میں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشیں اور گرمی کی لہر یں اس تبدیلی کی واضح علامات ہیں۔

برطانوی سرکار کے آفس برائے سائنس کے ایک حالیہ مطالعہ کے مطابق آب وہوا میں تبدیلی کی وجہ سے شہروں کی جانب نقل مکانی جاری ہے جو مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔ اس وقت شہر دوہرے خطرے کا سامنا کررہے ہیں ایک تو شہر دیہہ سے شہروں کی جانب نقل مکانی سے بڑے پیمانے پر وسعت اختیار کر رہے ہیں۔ دوسرا ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بھی انھیں تیزی سے خطرات کو سامنا ہے۔اور آنے والے خطرات موجودہ کمزوریوں میں اضافہ کردیں گے۔کیونکہ آب و ہوا میں تبدیلی اور تیزی سے بڑھتے شہروں کی وجہ سے شہری سیلاب میں اضافہ ہوگا۔

نقل مکانی ایک پیچیدہ عمل ہے جس میںسیاسی، ماحولیاتی، آبادیاتی ، معاشی اور معاشرتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں ہم ماحولیاتی،معاشی اور معاشرتی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے نقل مکانی کی صورت حال کو جائزہ لیتے ہیں تو جو چیز سب سے اہم بن کر سامنے آتی ہے وہ کلائیمٹ چینج ہے جو ملک کے اکثر حصوں میں پانی کے وسائل میں کمی کاباعث بن رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسموں کی تبدیلی کے اوقات کار بھی بدل رہے ہیں اور موسموں کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس کے منفی اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہورہے ہیں۔

جبکہ زراعت کے شعبے میں اخراجات اور آمدن کے درمیان فرق بھی روز بروز بڑھتا جارہاہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقہ اور شہری علاقوں کے درمیان سہولیات اور روزگار کے مواقعوںکی بڑھتی ہوئی تفریق، روزگار کے دیگر ذرائع کا محدودہونا اور ان جیسے کئی ایک دیگر عوامل دیہی لوگوں کو زراعت کا پیشہ ترک کرکے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اس امر کی تائید اکنامک سروے آف پاکستان کے یہ اعدادوشمار باخوبی کر رہے ہیںجن کے مطابق ملک کے دیہی علاقوںمیں سب سے زیادہ زرعی شعبے کو خداحافظ کہنے والوں کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے جہاں 1994-95 سے2014-15 تک باروزگار دیہی افراد کا زراعت کے شعبے سے وابستگی کا تناسب 57.46 فیصد سے کم ہوکر 41.15 فیصدپر آگیا ہے۔

جبکہ دوسری جانب 1998 اور2017 کی مردم شماری کی رپورٹس اس حقیقت کو آشکار کر رہی ہیں کہ ان دونوں مردم شماریوں کے دوران ملک بھر میں صوبائی سطح پر شہری آبادی میں دوسرا زیادہ اضافہ خیبر پختونخواہ میں ہوا جو 92 فیصد ہے۔ اسی طرح دیہات میں زراعت کا پیشہ ترک کرنے کے حوالے سے دوسری نمایا ں کمی بلوچستان میں دیکھنے میں آئی ہے جہاںیہ تناسب 63.10 فیصد سے کم ہوکر 52.83 فیصد تک آچکا ہے۔جبکہ گزشتہ اور حالیہ مردم شماری کے دوران ملک میں سب سے زیادہ شہری آبادی میں اضافہ بلوچستان میں ہوا جو 117 فیصد ہے۔

اس نقل مکانی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم تیزی سے دیہی آبادی کے مالک ملک سے شہری آبادی کے حامل ملک میں تبدیل ہو تے جارہے ہیں۔ جس کا اندازہ ملک کی پانچویں اور چھٹی خانہ و مردم شماری کے ان نتائج سے ہوتا ہے کہ 1998 میں ملک کی 32.5 فیصد آبادی شہروں میں مقیم تھی جبکہ2017 میں یہ تناسب بڑھ کر 36.4 فیصد ہو چکا ہے۔اس عرصہ کے دوران ملک کی شہری آبادی میںمجموعی طور پر 75.6فیصداورکل ملکی آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا۔یعنی ہماری شہری آبادی کے بڑھنے کی رفتار ملکی آبادی میں اضافہ کی رفتار سے زائد ہے۔

پاکستان کی شہری آبادی میں یہ اضافہ اگر چہ تمام شہروں پر محیط ہے لیکن وطن عزیز کے 15 ڈسٹرکٹ کے شہری علاقے اس کی زیادہ لپیٹ میں ہیں۔ کیونکہ1998 اور2017 کے دوران خانہ و مردم شماری رپورٹس کے مطابق ہماری شہری آبادی کی تعداد میں3 کروڑ 25 لاکھ48 ہزار سے زائد نفوس کا اضافہ ہوا۔جس کا 56فیصد ملک کے 15 ڈسٹرکٹ کراچی کے6 اضلاع ، لاہور،فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، پشاور، ملتان، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے شہری علاقوںمیں ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ لاہور ڈسٹرکٹ کے شہر ی علاقے کی آبادی میں ہوا جو113.6 فیصد بڑھی ہے۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ پشاور ہے جہاں یہ اضافہ100.4 فیصد ہوا۔ اسلام آباد میں91.8 ، گوجرنوالہ میں 71.5 ، کوئٹہ میں 77.2 فیصداضافہ ہوا۔62.2 فیصد کے ساتھ فیصل آبادچھٹے نمبر پر ہے۔

راولپنڈی کے60.8 فیصد کے بعد کراچی کے کا نمبر ہے جس کے 6 اضلاع کی شہری علاقوں کی آبادی میں مذکورہ عرصہ کے دوران مجموعی طور پر59.7فیصداضافہ ہوا ، ملتان 56.6 فیصداور ضلع حیدرآباد کی شہری آبادی میں 24.9 فیصد اضافہ ہوا۔اس وقت پشاور ڈسٹرکٹ کے شہری علاقوں میںفی گھر اوسط افراد کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے جو 8.3 ہے۔ دوسرے نمبر پر کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے شہری علاقوں میں فی گھر افراد کی اوسط تعداد7.8 ہے۔

راولپنڈی میں 6.1 ، گوجرانوالہ میں6.6 ،لاہور میں6.3 ، فیصل آباد میں 6.3 ، ملتان میں 6.2 ، حیدرآباد میں 5 ، کراچی میں5.8 اور اسلام آبادڈسٹرکٹ کے شہری علاقوں میں فی گھر 5.9 افراد آباد ہیں۔اسی طرح 1998 سے2017 کے دوران اوپر بیان کردہ پاکستان کے15 اضلاع میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعداد میں 60.6 فیصد اضافہ ہوا۔ جو 1112.9 سے بڑھ کر1787 افراد فی مربع کلومیٹر ہوچکی ہے۔کوئٹہ ڈسٹرکٹ میں فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعداد میںسب سے زیادہ199.5 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے بعد ضلع اسلام آباد ہے جہاں یہ اضافہ 148.6 فیصد ریکارڈ ہوا۔تیسرے نمبر پر پشاور ہے جہاں 110.6 فیصد فی مربع کلومیٹر آبادی کی اوسط تعدادمیں اضافہ ہواجبکہ حیدرآباد ڈسٹرکٹ میں 24 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ہمارے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا دبائو پیش خیمہ بن رہاہے ان کے پھیلنے کا۔اور یہ پھیلائو اُس تعمیر شدہ انفراسڑکچرمیں وسعت کی نشاندہی کر رہا ہے جس پر برسنے والا بارش کا پانی شہری سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ شہری ترقی زمین پر موجود نباتاتی غلاف کو کم کردیتی ہے اور پانی کے قدرتی بہائو کے نظام میں بہت رخنے ڈالتی ہے۔

مثلاً چھتیں، پختہ آنگن،پختہ گلی محلے، سڑکیںزمین کی اُس حالت کو تبدیل کر دیتے ہیںجو برساتی پانی کو اپنے اندر جذب اور اس کے بہائو کو کنٹرول کرتی ہے۔ جس کے نتیجے میں جو پانی کبھی زمین میں جذب ہو جاتا تھا اب وہ پختہ سڑکوں پر اور نکاسی آب کے نظام میں دوڑتا نظر آتا ہے۔جس کی وجہ سے سطح زمین پر پانی کا بہائو بڑھ جاتا ہے۔ایک تحقیقی مطالعہ کے نتائج اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں کہ تعمیرات کے بغیر ایک کھلی جگہ میں برسنے والی بارش کا40 فیصد بخارات بن کر دوبارہ فضا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ 10 فیصد سطح زمین پر بہتا ہے جبکہ50 فیصد زیر زمین پانی کے ذخائرکی تجدید کرتا ہے۔

جبکہ شہری تعمیرات کی صورت میں بارش کا 25 فیصد پانی بخارات بن کر فضا میں اُڑ جاتا ہے۔ 30 فیصد زیر زمین جذب ہوتا ہے۔ جبکہ 15 فیصد شہری تعمیرات کی چھتوں وغیرہ سے بہہ کر ڈرینج سٹم کا حصہ بنتا ہے جبکہ بارش کا 30 فیصد پانی دیگر انفراسٹرکچرل تعمیرات کی وجہ سے براہ راست نکاسی کے نظام کا حصہ بنتا ہے۔یعنی شہری تعمیرات کی وجہ سے شہروں میںگندے پانی کی نکاسی کے نظام کو بارش کے عموماً45 فیصد حصے کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔

اور اگر یہ بارش زیادہ اور تیز ہو تو یہ بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ناروے میں شہری نکاسی کے نظام پر آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک بار کی بارش میں20 فیصد اضافہ شہری سیلاب کے حجم میں 365 فیصد اضافہ کردیتا ہے۔ جبکہ خطرے سے دوچار عمارتوں کی تعداد میں 120 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔اب ذرا ہمارے شہری انفراسٹرکچر کے پھیلائو کی ذرا ایک جھلک ملاحظہ ہو۔ 1998 اور2017 کی مردم شماری رپورٹس کے تجزیہ کے مطابق پانچویں اور چھٹی مردم شماری کے دوران پاکستان کے شہری علاقوں میں گھروں کی تعداد میں 102فیصد اضافہ ہوا جو 6.03 ملین سے بڑھ کر 12.19 ملین مکانات سے زائد ہوچکے ہے۔

اس وقت ملک کے 58 فیصدشہری مکانات 15 اضلاع میں ہیں۔جبکہ ان دونوں مردم شماریوں کے دوران ملک کے زیادہ شہری آبادی کے حامل15 ڈسٹرکٹ میں مکانات کی مجموعی تعداد میں78.71 فیصد اضافہ ہوا۔جبکہ ان ڈسٹرکٹ کی آبادی میں60.6 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔ یعنی آبادی سے زیادہ مکانات کے تناسب میں اضافہ ہوا۔سب سے زیادہ اضافہ کوئٹہ ڈسٹرکٹ کے مکانات کی تعداد میں ہوا جو217.7 فیصد ہے اس کے بعداسلام آباد ہے جہاں یہ اضافہ 160 فیصد ہوا۔پشاور میں یہ اضافہ 108.3 فیصد رہا۔ لاہور میں99.4 فیصد، کراچی کے 6 اضلاع میں مجموعی طور پر 90 فیصد،ملتان میں75.6 فیصد، گوجرانوالہ میں 66.5 فیصد، فیصل آباد میں63.2 فیصدجبکہ حیدرآباد ڈسٹرکٹ میں مکانات کی تعداد میں 8.6 فیصد کمی واقع ہوئی۔

اسی طرح گزشتہ اور موجودہ مردم شماری کے دوران اوپر بیان کردہ15 اضلاع میں فی مربع کلومیٹرمکانات کی تعداد میں 78.7 فیصد اضافہ ہوا۔جو 1998 میں 158.9 مکانات فی مربع کلومیٹر سے بڑھ کر283.9 مکانات ہوچکی ہے۔اس وقت ملک میں فی مربع کلومیٹر سب سے زیادہ مکانات کی اوسط تعداد لاہورڈسٹرکٹ میں ہے جہاں992 گھر ایک مربع کلومیٹر کے اندرواقع ہیں۔کراچی دوسرے نمبر پر ہے جس کے 6 اضلاع میں مجموعی طور پر 785.5 مکانات فی مربع کلومیٹرموجود ہیں۔تیسرے نمبر پر ضلع پشاور ہے جہاں فی مربع کلومیٹر گھروں کی اوسط تعداد389.7 ہے۔

جب شہری آبادی میں اضافہ ہوتا ہے تو موجود وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر دبائو بڑھتا جاتا ہے۔رہائش کی طلب کو پورا کرنے کے لیے شہرکے اندر اور قرب و جوار میں موجود زمینوں کو رہائشی منصوبوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔گھروں کی تعداد میں یہ اضافہ دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا بھی باعث بنتا ہے۔ مثلاً شاپنگ پلازے، دکانیں، سڑکیں، اسکول، ہسپتال، شادی ہال، عبادات کے مقامات، پیٹرول پمپ وغیرہ ۔یعنی مزید کچی زمین کاکنکریٹ سے چھپ جانا۔ یوں قیمتی قدرتی وسائل سے کہیں زیادہ شہروں میں توسیع ہورہی ہے۔اس دوران زمین کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے غریب آبادی زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کے پاس خطرے کے حامل علاقوں میں غیر قانونی اور غیر محفوظ زمین پر پناہ گاہ بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیںیوں لوگ سیلاب زدہ علاقوں میں یامعمولی ، غیر اصلاح شدہ زمین پراور نشیبی علاقوں میں مستقل طور پر تجاوزات کرتے ہیں۔ شہری علاقوں میں منتقل ہونے والے تارکین کی اکثریت بھی ایسی ہی زمینوں پر تعمیرات کرتی ہے کیونکہ وہ کہیں اور رہنے کے متحمل نہیں ہوتے۔ انکی پناہ گاہیں بانس، ٹن، گتے، اسکریپ، میٹل یا دیگر ہلکے مواد سے بنی ہوتی ہیں جو سیلاب کے پانی کا مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ایسی آبادیوں کو کچی آبادیوں کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔

جیسا کہ اصطلاح سے ظاہر ہے کہ یہ منصوبہ بند نہیں ہوتیں اور نہ ہی عام طور پر زمین کے استعمال پر پابندیوںاور بلڈنگ کوڈز یا نکاسی آب کے کوڈز کے نفاذ کے تابع ہوتیں ہیں۔ بہت ساری صورتوں میں یہ آبادیاں نکاسی آب کی قدرتی گزرگاہوں کے قرب و جوار میں بنائی جاتی ہیں اور یہ ان گرزگاہوںکو تنگ کرکے ان میں سے پانی گزرنے کی صلاحیت کو کم کر دیتی ہیں۔جس کی وجہ سے ہلکی بارش میں بھی پانی رہائشی علاقوں میں پھیل جاتاہے اس کہ علاوہ یہ آبادیاں شہری ترقیاتی منصوبہ بندی میں شامل نہیں ہوتیں لہذا نکاسی آب کا کوئی معقول انتظام نا ہونے کی وجہ سے معمولی بارش کے پانی کا نکاس بھی ان کے لیے سہانِ روح بن جاتاہے۔

پاکستان کے تناظر میں کچی آبادیوں کی صورتحال بہت توجہ طلب ہے کیونکہ ورلڈ بینک کے مطابق ملک کی 45.5 فیصد شہری آبادی کچی آبادیوں میںمقیم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان دنیابھر میں 42 ویں نمبر پر ہے۔یعنی ملک کی تقریباً آدھی شہری آبادی شہری سیلاب کے خطرے کا ہر وقت شکار رہتی ہے۔

شہری سیلاب زیادہ تر متعددانسانی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتا ہے جو اسے ایک انسان کی پیدا کردہ آفت بنا دیتے ہیںلیکن یہ خصوصاً اُس نااہلی کی نمائندگی کرتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ بارش کے پانی کو بروقت اور موثر انداز میں نکاس نہ کیا جاسکے۔ یہ نا اہلی ہمارے یہاں نکاسی آ ب کے پرانے اور بوسیدہ نظام جس کی وسعت ، مرمت اور خصوصاًصفائی سے غفلت برتی جاتی ہے کی صورت میںاپنی انتہا کو ہے ۔

اس نظام کا قابل ذکر حصہ آج بھی کھلی اور ڈھکی نالیوںکی صورت میں اکثر بارش کے بغیر ہی اپنے کناروں سے باہر چھلکارہتا ہے۔ جبکہ زیرزمین سیوریج لائنیں بھی اکثر چوک ہوکر گٹر کے اُبلنے کے مناظر جابجا پیش کرتی رہتی ہیں۔رہی بات اس سہولت تک عوامی رسائی کی تو اس حوالے سے پاکستان سوشل اینڈ لیوونگ اسٹینڈرڈ میزرمنٹ سروے 2018-19 کے تازہ ترین ا عدادوشمارصورتحال کی وضاحت یوں کرتے ہیں۔کہ پاکستان کے35 فیصد گھروں کو نکاسی آب کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ 22 فیصد گھر زیر زمین گندے پانی کی نکاسی کے نظام سے منسلک ہیں۔

37 فیصد کھلی نالیوں اور 5 فیصد ڈھکی ہوئی نالیوں کے ذریعے نکاسی آب کرتے ہیں۔شہروں کی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ ملک کے شہری علاقوں میں8 فیصد گھروں کو گندے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ 50 فیصد گھر زیرزمین، 32 فیصدکھلی نالیوں اور 10 فیصد ڈھکی نالیوں کے ذریعے نکاسی آب کی سہولت رکھتے ہیں۔ان نالیوں اور سیوریج لائینوں کی گنجائش ہماری شہری وسعت کی ضروریات کا احاطہ کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

رہی سہی کسر ٹھوس کچرے کو اکٹھا کرنے اور ٹھکانے لگانے کے موثر نظام کا فقدان پوری کررہا ہے۔ کیونکہ ملک کے 75 فیصد گھروں کو کوڑاکرکٹ اٹھانے اور اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کی سہولت ہی حاصل نہیں ہے۔ شہری علاقوں میں 41 فیصد گھر اس سہولت سے محروم ہیں۔ 49 فیصد شہری گھروں کو کوڑا کرکٹ اٹھانے کے حوالے سے میونسپل خدمات حاصل ہیں جبکہ5 فیصد نجی طور پر اس کا بندوبست رکھتے ہیں۔جن گھروں کو یہ سہولت حاصل نہیں اُن آشیانوں کاکوڑاکرکٹ گھر سے باہر گلی محلہ میں یا کسی خالی پلاٹ میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں سے وہ بکھرتا ہوا نالیوں اور سیوریج لائینوں میں داخل ہوکر پانی کے بہنے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی اور تجارتی اداروںکا فضلہ بھی براہ راست ڈرینج سسٹم میں ڈال دیا جاتا ہے۔

جاپان کے ترقیاتی ادارے جائیکاکی چند سال پہلے کی ایک اسٹڈی کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں میں ہر روز55 ہزار ٹن سے زائد ٹھوس کچرہ پیدا ہوتا ہے جس کا صرف50 فیصداکٹھا کیا جاتا ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ کے آفس برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام کوریا میں ہونے والی ایکسپرٹ میٹنگ میں ویسٹ ٹو انرجی پوٹینشل اِن پاکستان کے عنوان سے دی گئی پریزینٹیشن میںبتایا گیا ہے کہ ملک میں ہر روز71 ہزار ٹن ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ جس میں زیادہ حصہ میٹروپولیٹن علاقوں کا ہے۔ پریزینٹیشن کے مطابق شہروں میں پیدا ہونے والے ٹھوس فضلے کا 60 سے70 فیصد اکٹھا ہو پاتاہے۔جبکہ بچ جانے والا کچرہ کہاں جاتا ہے ؟اس کا جواب ہمارے شہروں میں موجود گندے پانی کی نکاس کے نالے، نالیاں اور زیرزمین ڈرینج سسٹم کی حالت زار دے رہی ہے۔

اوپر بیان کردہ شہری سیلاب کی تعریف کے تینوں حصوں اوران کی وضاحت میں بیان کردہ تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کے حالیہ شہری سیلاب کا جائزہ لیں۔تو موسمیاتی تغیرات، شہری پھیلائو اور آبادی میں اضافہ، ایک جانب کچی آبادیاںتو دوسری جانب تعمیراتی ڈھانچے کی بڑھتی وسعت ،کچرہ کنڈی بنے علاقے، کچرے سے بھرے ندی نالے اور ڈرینج سسٹم، بوسیدہ اور کم گنجائش کا حامل نکاسی آب کا نظام ، اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کرتے ادارے اور سب سے بڑھ کر گڈگورننس کا فقدان۔یہ تمام عوامل بدرجہ اتم کراچی کے موجودہ شہری سیلاب کے پیچھے کارفرما ہیں۔شہری سیلاب ہمارے یہاںبد قسمتی سے ایک غیر تسلیم شدہ مسئلہ ہے ایسا کیوں ہے ؟اس حوالے سے ڈاکٹر طاہر رشید جوماحولیات اور پائیدار ترقی کے شعبے میں کام کے وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔

سسٹین ایبل یوز راسپیشلسٹ گروپ سینٹرل ایشیاجو بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی ایک ذیلی شاخ ہے اس کے سی ای او کے طور پر قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کے حوالے سے گراںقدر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ سائوتھ پنجاب فارسٹ کمپنی کے سی ای او کے طور پر بھی کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اس وقت ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر وائلڈ لائف اور سندھ اور بلوچستان کے ریجنل ہیڈ کے طور پر مصروف عمل ہیں ان کی پیشہ وارانہ رائے کے مطابق’’اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے پالیسی سازاداروںاور سیاسی قیادت کی یہ غلط فہمی کہ سیلاب صرف اُن علاقوں میں آتا ہے جو پانی کے وسائل یا ذخائر کے قریب ہوں۔ لیکن در حقیقت شہری سیلاب کہیں بھی آسکتا ہے۔

کراچی کے حالیہ سیلاب نے حکومت اور لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ دنیا بھر میں شہری سیلاب کی جانب توجہ بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ یہ انسانی ساختہ ماحول کا زیادہ شاخسانہ ہے۔پاکستان میںبھی آبادی میں اضافہ، شہروں کا پھیلائواور ترقی، نکاسی آب کاکم گنجائش کا حامل بوسیدہ نظام اور موسمیاتی تغیرات نے شہری سیلاب کے مسئلے کو قومی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے ۔لیکن ہم اس جانب سے آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمارے پالیسی سازادارے اور سیاسی قیادت شہری سیلاب کے محرکات، امکانات ،کلائمیٹ پیٹرن ،وقوع پذیر ہونے والے موسم اوراُس کے دورانیہ اور شدت کے بارے میں زیادہ آگہی نہیںرکھتے ۔ اُنھیں شہری سیلاب کے منفی اثرات کا بہترادراک نہیں ہے اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ شہری سیلاب اُن کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں۔ لیکن اب کراچی کے حالیہ سیلاب نے ہماری تمام کمزوریوں کو سب کے سامنے آشکار کردیا ہے۔جس کے بنیادی محرکات میںکراچی کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے ،کمیونٹی پلاننگ اور حفاظتی تیاریوں میںشہری سیلاب کو نظر اندازکیا جانا ہے۔زیادہ سے زیادہ عوامی اداروں کی توجہ مون سون سے قبل پانی کے نکاس کے نالوں کی صفائی ہوتی ہے لیکن اس کی بھی رفتار بہت سست ہے۔ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے شاید شہری سیلاب سے بچنا ممکن نہیں ۔

تاہم مناسب منصوبہ بندی سے اس سے ہونے والے نقصانات کو یقینی طور پر کم کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلہ میں ہمیںبدلتی آب وہوا اور ممکنہ طور پر زیادہ بارش کے پیش نظر نکاسی آب یا سیلاب کنٹرول کے بنیادی ڈھانچے کو کس طرح ڈیزائن کرنا ، چلانا اور برقرار رکھنا ہے اس پر کام کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ہمیںسیلاب کی گرز گاہوں پر تعمیرات کوختم اور مزید تعمیرات سے اجتناب کرنا ہوگا، نکاسی آب کے نظام کی مرمت اور صفائی کو بہتر بنانا ہوگا۔سیلاب سے متعلق انتظامات کی حکمت عملی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا، سیلاب سے قبل انتباہی نظام کو موثر کرنا ہوگااور اس شعور کوسزا اور جزا کے ساتھ عام کرنا ہوگا کہ نکاسی آب کی لائینوں میں ٹھوس فضلے کو ٹھکانے نہ لگایا جائے ۔سب سے ضروری اور اہم بات اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک غریب ملک ہیں ہمارے وسائل بہت محدود ہیں نکاسی آب کے موجودہ بنیادی ڈھانچے میں مہنگی توسیع کرنا ہمارے لیے اتنی آسان بات نہیں لہذا ہمیں کم خرچ کے حامل ایسے متبادل پائیدار طریقوں کو اختیار کرنا ہوگا جو ماحول دوست ہوں۔

اس سلسلے میں ہمیں اپنے شہروں میں گرین انفراسٹرکچر کا فروغ دینا ہوگا تاکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے اور بارش کے پانی کو شہری سیلاب کی بجائے استعمال میں لایا جاسکے۔ ان تمام امور کے لیے ہمیں شہری حکومتوں، صوبائی اور قومی حکومتوں اور وزارتوں، عوامی شعبے کی کمپنیوں، محکمہ موسمیات اور منصوبہ بندی کے اداروں، سول سوسائٹی، غیر سرکاری تنظیموں، تعلیمی اداروں اور تحقیقی مراکز اور نجی شعبے کے مابین زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی اور تعاون کی ضرورت ہے‘‘۔

شہری سیلاب کے معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی اثر ات افراد اور معاشرہ دونوں پر مرتب ہوتے ہیںاوریہ تیزی سے ایک بڑے پیمانے پر شہری بحران کی طرف بڑھ سکتا ہے۔شہری آبادیاں کسی بھی قومی آبادی کی اہم معاشی و معاشرتی خصوصیات اوراثاثوں پر مشتمل ہوتی ہیں ا س لیے شہری سیلاب معمولات زندگی اور سہولیاتِ زندگی کو متاثر کرنے کی وجہ سے زیادہ نقصان دہ اور مہنگاپڑتا ہے۔پاکستانی معیشت میں شہر اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہروں کی معاشی سرگرمیاں قومی جی ڈی پی کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے یعنی78 فیصد سے زائد کی شراکت دار ہیں۔

صرف کراچی پاکستان کی غیر ملکی تجارت کا تقریباً 95 فیصد سنبھالتا ہے اور قومی جی ڈی پی میں اس کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہے۔ جبکہ ملک کے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اس کا 30 فیصد ہے۔ لاہور قومی معیشت میں 13.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ فیصل آباد صنعت اور تجارت کی سرگرمیوں سے 25 فیصد ریوینیو پیدا کرتا ہے۔شہروں میں سیلاب کا پانی کوڑاکرکٹ، انسانی اور صنعتی فضلے ، گار اور کیچڑ کو شہر بھر میں پھیلا دیتا ہے۔ جو موسمی بارش سے کہیں زیادہ وقت کے لیے ملیریا ،ڈینگی، ہیضہ،اسہال اور دمہ وغیرہ کی وباء کے پھیلنے کا باعث بنتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔