قائداعظمؒ ، نہرو اور برطانوی حکمران (تیسرا اورآخری حصہ)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 23 ستمبر 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

ہند وستان کے لیے برطانوی وائسرائے اورسیکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا، دونوں متحدہ ہندوستان کی بات کرتے تھے اور اسی کے حامی تھے۔

برطانوی کابینہ کی انڈیا کمیٹی کے ممبران میں سے سرسیٹفورڈ کرپس مسلسل نہرو اور کرشنا مینن کے ساتھ رابطے میں تھے۔ انھوں نے پہلی بار 1946 کے وسط میں وزیراعظم ایٹلی اور پیتھک لارنس سے کہا کہ ’’ ہمیںانڈیا کی تقسیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے‘‘ ۔مگر وزیراعظم اور سرلارنس دونوں میں سے کوئی بھی قائل نہ ہوا۔

اس کے کچھ عرصے بعد پھر ایک پارلیمانی وفد ہندوستان کی سیاسی آب وہوا کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا،وفد میں ایک انتہائی ذہین نوجوان میجرووڈرو ہائیٹ بھی تھا جو بعد میں سر کرپس کا پرائیویٹ سیکریٹری بنا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ ہم نے کانگریس کے مختلف لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔

نہرو نے اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ کی حمایت دن بدن کم ہورہی ہے، اس پر میں نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیل میں ہونے کی وجہ سے شائدحقائق سے باخبر نہیں ہیں۔ میں نے پورے ہندوستان کادورہ کیا ہے اور مشاہدہ کیا ہے کہ مسلم لیگ کی سپورٹ ٹھوس اور مستحکم ہے ۔اس پر نہرو نے مشتعل ہو کر چلانا شروع کردیا‘‘۔لیکن اس کے بعد حالات وواقعات دیکھ کر نہرو کی آنکھیں کھلتی گئیں۔

پیتھک لارنس نے وائسرائے ویول کو خط لکھا، اس میں بھی اسی رائے کا اظہار کیا کہ

I agree with you that pakistan is quite unworkable proposition

(میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ قیامِ پاکستان کی تجویز قابلِ عمل نہیں ہے)

مگر قائد اعظم اپنی بات پر ڈٹے رہے اور اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے رہے کہ ’’کوئی طاقت مسلمانوں کو اپنے حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتی‘‘۔جب کانگریس اور برطانوی حکومت قیامِ پاکستان کی مخالفت میں ایک ہوگئے تو مسلم لیگ نے ڈائریکٹ ایکشن کا اعلان کر دیا۔مختلف شہروں میں اَمن و امان کے حالات خراب ہو گئے اور پنجاب کی خضر حکومت کو استعفٰی دینا پڑا۔

مصنف لکھتا ہے۔ ’’مارچ 1947 میں کانگریس کو پاکستان کے مطالبے کے آگے سرجھکانا پڑا اور اس طرح محمد علی جناحؒ نے انگریزوں اور کانگریس دونوں کو شکست دے دی‘‘۔

وولپرٹ کے مطابق ’’شملہ میں ہی نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کو یقین دلا یا کہ اقتدار کی منتقلی کی صورت میں کانگریس فوری طور پر ہندوستان کا نظم و نسق سنبھال سکتی ہے۔ نہرو ہی کی تجویز پر جون 1948کے بجائے جون 1947میں اقتدار کی منتقلی کا پلان بنایا گیا۔لگتا ہے اَمن و امان کی ابتر صورتِ حال دیکھ کر کانگریس کو اپنی سوچ بدلنا پڑی اور ہندو اکثریت والے ہندوستان کا بااختیار وزیر ِاعظم بننے کے تصور سے نہر و کے منہ سے رال ٹپک پڑی، نیز وہ یہ سمجھ چکا تھا کہ مسلمان اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت والے ہندوستان کے ساتھ رہے تو مسلم لیگ اور جناح صاحب ہمیں ایک دن بھی چَین سے حکومت نہیں کر نے دیں گے۔

لہٰذا اُس نے بھی بالآخر اس مستقل سردردی ( جناح اور مسلم لیگ ) کا مطالبہ ماننے میں ہی عافیت سمجھی اور قیامِ پاکستان پر مجبوراً اتفاق کرلیا‘‘۔ آگے چل کر مصنف لکھتا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن چاہتا تھا کہ اسے ہندوستان کی طرح پاکستان کا گورنر جنرل بھی تسلیم کرلیا جائے مگر جناح صاحب سمجھتے تھے کہ اگر انگریز گورنر جنرل رہاتو مکمّل آزادی کا تصور دھندلا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ تصورّ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ قائدِاعظم ایک ایسے گورنرجنرل کے ماتحت جو مسلم لیگ کے بجائے کانگریس اور ہندؤں کا ہمدرد تھا وزیرِ اعظم بننا قبول کرلیتے۔

اس ضمن میں مصنف لکھتا ہے کہ ’’ماؤنٹ بیٹن نے مسٹر جناح کو قائل کرنے کی بڑی کوشش کی کہ اگر اسے ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل مان لیا جا ئے تو اس کے پاکستان کو کئی مالی اور فوجی نوعیت کے فوائد ہوںگے مگر مسٹر جناح نہ مانے‘‘ ۔ اڈوینا کے اثر اور قائد اعظم کے اس انکا ر کے باعث وائسرائے نے پاکستان کے خلاف دل میں بغض اور عناد پال لیا ۔

جس کا اظہار ماؤنٹ بیٹن کے دباؤ پر باؤنڈری کمیشن کے سربراہ ریڈکلف کی طرف سے پنجاب اور بنگال کی غیر منصفانہ تقسیم کی صورت میں بھی ہوا اور اس کے بعد کشمیر میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو وائسرائے نے غیرجانبدار رہنے کے بجائے ہندوستان کا اعلانیہ ساتھ دیا اور اپنی نگرانی میں بھارتی فوجیں کشمیر بھیجیں جنھوں نے طاقت کے زور پر کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنا لیا ۔قارئین نے اب بخوبی اندازہ کر لیا ہو گا کہ کون انگریزوں کا پسندیدہ تھا اور کس کے غیر متزلزل عزم نے پاکستان کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

گزشتہ کالم میں پنڈت جواہرلال نہرو اور ہندوستان کے آخری انگر یز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی اڈوینا کے مصّدقہ معاشقے کی داستان کا ذکر ہوا جو امریکی مورخ اسٹینلے وولپرٹ نے اپنی کتاب میں تحریر کی ہے، تو برصغیر کی آزادی اور قیامِ پاکستان سے دلچسپی رکھنے والے کئی صاحبانِ علم و دانش نے کی اس کی تائید کی اور اس بات کی تحسین کی کہ ’’ ایک غیر جانبدار حوالے سے ایک ایسے اسکینڈل کی تصدیق ہو گئی ہے جس نے برصغیر کی تاریخ پر بڑے دوررس اثرات مرتّب کیے‘‘۔

پچھلے کالم پر آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور قائداعظم یونیورسٹی کے تاریخِ پاک و ہند کے پروفیسر ڈاکٹر مسعود زاہد کا بھی میسج موصول ہوا، پروفیسر صاحب لکھتے ہیں ’’ چند سال پہلے بھارت کے معروف سیاستدان جَسونت سنگھ کی برصغیر کی تقسیم اور قائد اعظم پر لکھی جانے والی کتاب کی نہرو میموریل دہلی میں منعقدہونے والی تقریبِ رونمائی میں شریک ہونے کا مجھے بھی موقع ملا ۔

یہی کتاب بی جے پی سے ان کے اخراج کا باعث بنی۔ تقریب میں اظہارِ خیال کرنے والے قریباًبارہ مقررین میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے معروف بیرسٹر جیٹھ ملانی، لارڈ میگھندڈیسائی ، لنڈن اسکول آف اکنامکس کے سابق سربراہ ، ہاؤس آف لارڈز کے ممبر اور سرمارک ٹلی وغیر شامل تھے۔ تمام مقررین نے قائداعظم محمد علی جناح کی اپنے مقصد سے لگن ان کے غیر متزلزل عزم اور ان کی شخصیت کے اعلیٰ معیار کا اعتراف کیا۔

تقریب سے خطا ب کرنے ہوئے جیٹھ میلانی نے کہا ’’گاندھی ایک دیوان کابیٹا تھا جو وکالت کے میدان میں ناکا م رہا۔جواہرلال نہرو نے زندگی گزارنے اور سیاست کرنے کے لیے اپنے والد کی دولت کا سہارا لیا۔ مگر محمد علی جناح ایک سلیف میڈ آدمی تھا، پہلے اپنے پیشہ وکالت میں اورپھر سیاست میں وہ جن بلندیوں تک پہنچا ، وہ انسانی زندگی میں ایک غیر معمولی اور قابل رشک کامیابی ہے۔

تقریب کے مقررین نے تقسیم ہند کا الزام محمد علی جناح کو نہیں دیا بلکہ ہندولیڈروں اور کانگریس کی تنگ نظری کو موردِ الزام ٹھہرایا ۔تقریب کے مقررین  نے نہرو کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔جیٹھ میلانی کے خیال میں ’’ نہرو اقتدارکاحریص اور اخلاقی طور پر ایک کمزور شخص تھا جو اڈوینا کے حسن کا شکار ہوگیا۔

میلانی نے کہا کہ ’’نوجوانی میں جناح صاحب کی شخصیت کی دلکشی اور ان کی پیشہ ورانہ قابلیت نے مجھے بے پناہ متاثر کیا اور میں ممبئی ہائیکورٹ میں مسٹر جناح کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جایا کرتا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ میں نے مسٹر جناح سے متاثر ہو کرہی وکالت کا پیشہ اختیار کیاتھا‘‘۔پروفیسر صاحب نے مزید لکھا ہے کہ اس تقریب کے صرف ایک مقرر نے نہرو اور کانگریس کا یہ کہہ کر دفاع کرنے کی کوشش کی کہ ’’ کانگریس کو اکثریت حاصل تھی، اس لیے انھوں نے جو صحیح سمجھا وہ کیا کیونکہ اکثریت کو حق حاصل ہوتا ہے‘‘ اس پر لاڈ ڈیسائی نے اسے خوب لتاڑا اور کہا کہ

“It was excessive majoritarianism which lead to partition of India and sadly to bloodshed”

(یہ اکثریت کی آمریّت اور حاکمیّت قائم کرنے والی سوچ ہی تھی جو ہندوستان کی تقسیم اور خون افشانی منتج ہوئی)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے حریف کی خوبیوں کی بھی تعریف کرنی چاہیے مگر ہمارے لکھاریوں میں اپنے لیڈروں کی تنقیص اور دشمنوں سے مرعوبیّت ایک فیشن بن چکا ہے۔ ہمارے کئی دانشور گاندھی جی کو واقعی مہاتما سمجھتے ہیں اور ان کی ’’ فقیری‘‘ سے بے حد متاثرہیں ۔ ان کے متعلق ہر قسم کی معلومات رکھنے والا انگریز گورنرجنرل ویول ان کے بارے میں کیا کہتا ہے، وولپرٹ کی کتاب میں پڑھ لیجیے۔

لارڈویول کے مطابق  “The more I see of that old man the more I regard him as an unscrupulous old hypocrite ”

(میں نے اس شخص کا جیتنا زیادہ مشاہدہ کرتا ہوں وہ مجھے اتنا ہی زیادہ بے اصول اور منافق نظر آتاہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔