پی آئی اے میں ملازمین کیلئے رضا کارانہ علیحدگی اسکیم متعارف

ویب ڈیسک  بدھ 23 ستمبر 2020
رضا کارانہ علیحدگی اسکیم سے 3200 ملازمین کیلئے 12.87 ارب روپے کا خرچ آئے گا، سی ای او پی آئی اے . فوٹو : فائل

رضا کارانہ علیحدگی اسکیم سے 3200 ملازمین کیلئے 12.87 ارب روپے کا خرچ آئے گا، سی ای او پی آئی اے . فوٹو : فائل

 اسلام آباد: پی آئی اے انتظامیہ نے ملازمین کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے رضا کارانہ علیحدگی اسکیم متعارف کروا دی۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے سی ای او پی آئی اے ارشد ملک نے کہا کہ پی آئی اے کے اضافی ملازمین کیلئے رضاکارانہ علیحدگی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے، اسکیم کے تحت ملازمین رضاکارانہ طور پر اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی آئی اے میں ساڑھے 14 ہزار ملازمین ہیں، قطر ایئر لائن کے 240 جہاز، 32 ہزار ملازمین اور فی اوسط جہاز 133 ملازمین بنتے ہیں، ایمریٹس269 جہاز، 62 ہزار ملازمین فی اوسط جہاز231 ملازمین، ترکش ایئر لائن 329 جہاز، 31 ہزار ملازمین اور فی اوسط جہاز94 ملازمین، اتحاد ایئرلائن 102 جہاز، 21530 ملازمین، فی اوسط جہاز211 بنتے ہیں جب کہ پاکستان کی پی آئی اے ایئر لائن میں 29 جہاز،14500 ملازمین اور فی اوسط جہازملازمین500 بنتے ہیں جو ادارے کی خسارے کی بڑی وجہ ہیں، اگر بیلنس شیٹ سے500 ارب کے قرضہ جات نکال دیئے جائیں توفرق سامنے آسکتا ہے۔

سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ قومی ایئرلائن کو 400 ارب کا خسارہ جب کہ ایئر لائن کے ذمہ 100ارب سے زائد کی لائبلٹی واجب الادا ہیں، اتنے بڑی خسارے کے ساتھ دنیا کی کوئی ایئر لائن کھڑی نہیں ہو سکتی۔

کمیٹی کو بتایا کہ رضاکارانہ سکیم سے 3200 ملازمین کیلئے 12 ارب87کروڑ روپے کا خرچ آئے گا اور سالانہ تنخواہوں پر 4ارب20کروڑ روپے کا فرق پڑے گا۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ گزشتہ 2 برس سے کہہ رہا ہوں کہ کمیٹی کو ایک موازنہ رپورٹ پیش کی جائے کہ وہ کمپنیاں جو منافع میں جارہی ہیں ان کی ویلیو چین انیلیسزرپورٹ پیش کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے خسارے کو کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، ادارے کا آڈٹ مکمل ہوگیا ہے، 97 فیصد کمپلائنس رپورٹ آ گئی ہے، ایس ایم ایس نہیں تھا وہ بھی بن گیا ہے، آیوسا کمپنی کے پا س جا رہے ہیں، لائسنس والے ایشو بھی جلد حل جائیں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ان کمپنیوں کے نمائندوں کو یہاں شامل کر کے ایس او پیز تیار کیے جائیں اور ایسا طریقہ کار بنایا جائے کہ مشکوک لائسنسوں کو چیک کر کے حل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔