سانحہ بلدیہ ٹاؤن، عوام کیا سوچ رہے ہیں

مزمل سہروردی  جمعـء 25 ستمبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مقدمے کا فیصلہ آ چکا ہے۔ عدالت نے دو ملزمان کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایاہے جب کہ سیاسی پس منظر رکھنے والے ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا ہے۔ بہرحال عدالت نے شواہد اور ثبوتوں کو دیکھ کر قانون کے مطابق اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔

اب یہ مقدمہ عوام کی عدالت میں آگیا ہے۔ یوں سمجھ لیں قانون کی عدالت کا یہ فیصلہ عوام کی عدالت میں بھی زیر بحث ہے۔ محض عام شہری ہی نہیں بلکہ اہل علم ودانش اور طبقہ خواص بھی اس فیصلہ پر باتیں اور مباحث میں مصروف ہیں ۔ میڈیا میں بھی بات ہو رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا  عوام اس فیصلہ کو انصاف کے مطابق سمجھ رہے ہیں؟ کیا عام آدمی کو انصاف ہوتا نظر آگیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ عام آدمی اور میں خود بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ سانحہ بلدیہ اتنا سادہ یا معمولی تھا جتنا سادہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔ یہ درست ہے کہ مرکزی ملزمان بھولا اور چریا کو 264بار سزائے موت سنائی گئی ہے۔ جب کہ سیاسی پس منظر رکھنے والے ملزمان جن میں رؤف صدیقی اور دیگر شامل ہیں، انھیں بری کر دیا گیا ہے۔

میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ انھیں غلط بری کیا گیا ہے، وہ یقیناً بے گناہ ہیں کیونکہ عدالتی فیصلہ یہی کہتا ہے۔ لیکن عوام کے ذہن میں سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ  یہ درست ہے کہ بھولا اور چریا نے ہی فیکٹری کو آگ لگائی ہو اور وہی 264افراد کی موت کے براہ راست ذمے دار ہوں۔ لیکن کیا وہ اتنا گھناؤنا اوربڑا جرم اپنے بل بوتے پر کر سکتے ہیں؟کیا وہ اکیلے ہی اس سفاکانہ جرم کے ذمے دار ہیں؟

یہ بھی درست ہے کہ حماد صدیقی مفرور ہیں۔ لیکن شاید یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ وہی اصل ماسٹر مائنڈ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پوری کہانی نہ تو عدالت کے سامنے آسکی ہے اور نہ ہی پورا سچ عوام کے سامنے آسکا ہے۔ ادھورے سچ نے عوام کو شکوک و شبہات کے اظہارکا موقع دے دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پورا سچ سامنے لانا عدالت کا کام نہیں ہے۔

ادھر کراچی کی نمایندہ ہونے کی دعویدار سیاسی جماعتیں سانحہ بلدیہ کو ایک حادثہ سمجھتی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسا فیصلہ ہے جس نے سب کو کلین چٹ دے دی ہے۔ حکومت فیکٹری مالکان کو مقدمہ کی پیروی کے لیے واپس پاکستان آنے پر قائل نہیں کر سکی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت انھیں جان و مال کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکی یا پھر انھوں نے حکومت پر اعتبار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران انھوں نے ویڈیو لنک سے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ میں سمجھتا ہوں ان کا پاکستان نہ آنا ہی شکوک وشبہات جنم دے رہا ہے۔

یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ مافیاز نے فیکٹری مالکان کو ہی ملزم بنانے کی کوشش کی۔ یہ سازش بھی کی گئی کہ اسے ایک حادثہ قرار دیکر تمام قتل ان کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں۔ حالات کی سنگینی کو دیکھ کر وہ ملک سے چلے گئے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے بھی نہیں آئے۔ اس طرح ایک نہیں، بہت سے سرمایہ کار پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کر بیرون ممالک چلے گئے ہیں۔ ان کے جانے کے ساتھ کاروبار بھی گیا اور سرمایہ بھی گیا ہے۔ روزگار کے مواقعے بھی گئے ہیں۔ لیکن ہم نے آج تک اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

کراچی میں بھتا مانگنے کا کلچر زبان زد عام رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہر کاروباری بھتہ دینے پر مجبور رہا ہے۔ بھتے کی پرچیوں کا کلچر کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسی لیے عوام کو بھتہ مانگنے والی بات حقیقت کے قریب لگتی ہے۔ کراچی کے ہر شہری کو اس بھتہ کلچر کا علم ہے۔ عدالت اس بات کا تعین نہیں کرسکی کہ کون بھتہ مانگ رہا تھا۔ بھتہ کی کہانی کیا تھی۔

اس لیے عوام کی عدالت فیصلے کو ادھورا مان رہی ہے۔ عوام بھتہ کی کہانی جاننا چاہتے ہیں۔ قانون کی عدالت سے ان کو سزا ملتے دیکھنا چاہتے ہیں تا کہ آیندہ کسی کو بھتہ مانگنے کی جرات نہ ہو۔ اس پہلو میں تشنگی کراچی کے لیے خوش آیند نہیں ہے۔ جب تک بھتہ مانگنے والوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کو سزائیں نہیں ملیں گی، تب تک کراچی کے حالات ٹھیک ہونا ممکن نہیں ہیں۔

مقدمے کا فیصلہ سنانے میں جو تاخیر ہوئی ہے۔اسے بھی عوام کی عدالت میں پسند نہیں کیا گیابلکہ عوام جذباتی حالت میں ہیں۔ فیصلے میں آٹھ سال کا عرصہ لگنے کو کیا نام دیا جائے؟ میں مانتا ہوں کہ عدالت کے پاس فیصلے میں تاخیر کی قانونی وجوہات موجود ہیں۔ لیکن عوام اس تاخیر کو شاید قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ذمے داران کوماتحت عدلیہ میں تاریخ پر تاریخ کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا چاہیے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے ماڈل کورٹس بنائیں اور ان کی کامیابی کے بہت جھنڈے گاڑے گئے۔

بتایا گیا کہ ماڈل کورٹس کی وجہ سے فوجداری مقدمات کے جلد فیصلے ہو رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ سوال جائز نہیں کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا مقدمہ کسی ماڈل کورٹ میں کیوں نہیں چل سکا ہے؟ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں دہشت گردی کے خصوصی مقدمات کو جلد نبٹانے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ اگر ان عدالتوں میں بھی مقدمات نے آٹھ آٹھ سال زیر التوا ہی رہنا ہے تو پھر ان میں اور عام عدالتوں میں کیا فرق رہ گیا ہے۔

لوگ یہ سوال کرنے میں بھی حق بجانب ہیں کیا مانیٹرنگ جج صرف سیاسی اہمیت کے حامل مقدمات میں لگائے جا سکتے ہیں؟ کیا ایسے مقدمات جہاںبے گناہ ورکرز کو بے رحمی اور سفاکی سے جلادیا گیا، وہاں مانیٹرنگ جج نہیں لگایا جا سکتا۔ کیا 264افراد کا قتل خصوصی اہمیت اور خصوصی اقدامات کا متقاضی نہیں تھا؟

کہا جاتا ہے کہ ان دیکھے مافیاز نے تفتیش کو درست سمت میں نہیں جانے دیا۔ شاید عوام کی عدالت یہ بھی نہ مانے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ مافیاز ریاست سے بھی طاقتور ہیں۔ شاید عوام اسی لیے سمجھ رہے ہیں کہ اصل ملزمان سزا سے بچ گئے ہیں۔ اس لیے عوام کی عدالت کے سوالات کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔