صوبائی کابینہ میں توسیع

سعد اللہ جان برق  جمعـء 25 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ تو کمال ہوگیا ہے آپ یقین کریں گے کیونکہ ہمیں خود بھی یقین نہیں آ رہا تھا لیکن بہت دیر بعد کافی ’’تخور و تحوض‘‘ کے بعد یقین کرنا پڑا کہ بات تو سچ ہے لیکن کچھ بڑائی یا خود ستائی کی ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ہم یوں ہی خود کو بانس پر چڑھا رہے ہیں اور ہاتھ گھما گھما کر اپنی پیٹھ خود ٹھونک رہے ہیں۔

لیکن ایسا کچھ نہیں حقیقت میں ایسا ہوا ہے ادھر ہمارے دل میں خیال آیا اور کالم کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ اخبار پر نظر پڑی۔ جو کچھ ہم اپنی صوبائی حکومت کو کہنا چاہتے تھے وہ ہو چکا تھا۔ اپنی صوبائی حکومت کے پی کے کہلاتی ہے اور ’’خیر پہ خیر‘‘ تخلص کرتی ہے اس نے کابینہ میں توسیع کا فیصلہ کر لیا تھا۔

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

بلکہ یہ ’’ہی‘‘ ہمارے دل میں تھا کہ عرصہ ہوا ہے دستر خوان پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور اگلی باری والے بیچارے انتظار کھینچ رہے۔ جب کہ، یہ موقع بھی ہے، موسم بھی ہے دستور بھی ہے۔ آخر یہ جو کچھ سات قبائلی ایجنسیاں اور نیم ایجنسیاں حکومت کی ملکیت میں آئی ہیں ان کے وزیر تو ہونے چاہیے بلکہ ساتھ ہی مشیر معاونین اور متفقین بھی ضروری ہیں، اگر ایک ضلع کے حساب سے شمار کیا جائے تو چھ وزیر، بارہ مشیر اور چوبیس معاونین تو بنتے ہی ہیں ،گویا بتیس منہ تو یہ ہو گئے اور ان کے ساتھ چھوٹے بڑے اور منہ۔ مطلب یہ کہ دسترخوان پر ایک ’’پینڈہ‘‘ بٹھایا جا سکتا ہے۔

’’پینڈہ‘‘ ڈی آئی خان کی ایک روایتی چیز ہے۔ بنوں میں اسے ’’سیبات‘‘ (صحبت) کہا جاتا ہے، ہوتا یوں ہے کہ ضرورت کے مطابق دیسی مرغ ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کا بڑا لذیذ اور مصالحے دار شوربا بنایا جاتا ہے پھر ضرورت کے مطابق ایک بڑے برتن میں نان ٹکڑے کر کے ڈالے جاتے ہیں اور نان کے نوالوں کے اوپر وہ شوربا بوٹیوں سمیت انڈیل دیا جاتا ہے پھر اس کے گرد جتنے لوگ ہوتے ہیں دائرے میں بیٹھ جاتے ہیں تب تک نوالے نرم ہو چکے ہوتے ہیں اکثر تو ابتدا پہلا نوالہ دوسرے کے منہ میں ڈال کر کی جاتی ہے اس کے بعد سب اس پر پل پڑتے ہیں۔

اب قبائلی علاقے کے انضمام کے بعد یہ جو اتنا بڑا تھال اور اس میں لقمے اور بوٹیاں دعوت ’’خرد‘‘ دے رہے ہیں اگر اس کے گرد بہت جلد ’’پینڈہ‘‘ نہیں بٹھایا گیا تو سب کچھ ٹھنڈا ہو کر بے مزہ ہو جائے گا۔ فارسی میں ایسی دعوتوں کو ’’خوان لغیما‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اکثر شعرا نے اس کا ذکر کیا ہے خاص طور پر حافظ شیرازی تو خوان لغیما کے بڑے شوقین تھے۔

فغان کیس لولیاں شوخ و شیرین کار شہر آشوب

خیاں پردند صبر از دل کہ ترکاں خوان لغیمارا

یعنی فریاد ہے کہ شہر آشوب (شیراز) کی یہ شوخ اور شیریں کار ’’لولیاں‘‘دل کا قرار یوں لوٹتی ہے جیسے ترک لوگ ’’خوان لغیما‘‘ کو لوٹتے ہیں، فارسی اصطلاح میں ترک کی اصطلاح لوٹنے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ جس طرح پینڈہ، صحبت یا خوان لغیما کے گرد لوگوں کی تعداد مقرر نہیں ہے اسی طرح اپنے ہاں بھی حکومت کے دسترخوان یا ’’خوان سرکار‘‘ پر بٹھانے والوں کی تعداد نہ مقرر ہے نہ محدود۔ یہ کہیں کسی بھی قانون یا دستور میں نہیں لکھا ہے کہ وزیر کتنے مشیر کتنے اور معاون کتنے۔ کیونکہ اس خوان میں خدا نے بہت برکت ڈالی ہوئی ہے نہ دیسی مرغوں کی کمی ہے جنھیں پیار سے ووٹ، عوام اور کالانعام کہا جاتا ہے اور نہ ان سے ’’شوربا‘‘ نکالنے کی کوئی لمٹ مقرر ہے۔

ہر کہ خواہدگر بیاوہر کہ خواہد گوبہ گو

حاجب ودرباں دریں بارگاہ نیست

یعنی جو چاہے جو چاہیے کہ اس بارگاہ میں کوئی حاجب اور دربان یا روک ٹوک والا موجود ہے۔ ویسے بھی اس مملکت خدا داد میں جو پہلے اسلامی جمہوریہ تھا اور اب ریاست مدینہ ہے، وزراء مشیروں اور معاونوں کے لیے وہی نظریہ اور عقیدہ ہے جو غالبؔ کا آموں کے بارے میں تھا۔

یعنی آم، میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔ اور یہاں وزیروں مشیروں اور معاونوں کے بارے میں ہے کہ بہت ہوں اور۔ اور۔ اور۔ یہاں بہت کے ساتھ جو لفظ ہے اس کا ردیف تو ’’میٹھے‘‘ کے ساتھ ملتا ہے لیکن قافیہ تھوڑا سا مختلف ہے اس لیے ہم لکھنے سے معذور ہیں لیکن آپ تو سوچنے سے معذور نہیں اور جھوٹے بھی نہیں ہیں اس لیے خود ہی وہ لفظ سوچ کر رکھ لیجیے۔ نہ صرف وزیر، مشاور اور معاونین کے لیے ’’مواقعے‘‘ پیدا ہو چکے ہیں بلکہ چل چلاؤ کے دن بھی ہیں۔ یعنی

کھیتوں میں پانی بھرلو

اٹھتی جوانیاں ہیں

نئے اضلاع میں بہت زیادہ ’’کام‘‘ ہے اور اس کام کے لیے کابینہ میں جتنی بھی زیادہ توسیع کی جائے کم ہے، آخر ستر سال سے جہاں سوکھا تھا۔ سوکھا تو نہیں تھا پانی نہر سے باقاعدہ جاتا تھا لیکن ’’نالوں‘‘ میں کہیں ادھر ادھر ہو جاتا تھا، اب جو سیلاب آیا ہے تو اس کے لیے ’’بندوبست‘‘ تو ضروری ہے۔ اصل میں یہ سب کچھ ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ شاید کہیں ماڑی موٹی وزارت نہ سہی مشاورت بھی نہیں کم از کم کسی معاون یا ذیلی معاون کا نوالہ مل جائے کیونکہ اس قبائلی علاقے کی طرح ہم بھی للسائل والمحروم رہے ہیں شاید کوئی مہربان ثواب دارین کما جائے۔

آخر وہاں ’’انصاف‘‘ ہی کرنا ہے اور انصاف کرنا ہمیں بھی آتا ہے جو ہم اپنے گھر میں دسترخوان پر پلیٹ اور چنگیر کے ساتھ کرتے ہیں بلکہ وہ قصہ بھی ہمیں معلوم ہے جس میں ایک بندر نے دو بلیوں کے درمیان ایک روٹی نہایت انصاف کے ساتھ تقسیم کی تھی۔ ویسے بھی بلی بلکہ بلیوں کے بھاگوں ’’چھینکا‘‘ ٹوٹا تو ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔