سیاحت، منافع بخش انڈسٹری، 2018ء میں 1415ارب ڈالر کمائے گئے

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 27 ستمبر 2020
بدلتے ہوئے عالمی حالات پاکستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے ممد و معاون ثابت ہوں گے ۔  فوٹو : فائل

بدلتے ہوئے عالمی حالات پاکستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے ممد و معاون ثابت ہوں گے ۔ فوٹو : فائل

27 ستمبر کو یونائیٹڈ نیشنز ورلٖڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی جانب سے سیاحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے، آج سیاحت دنیا میں ایک انڈسٹری کہلاتی ہے، اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو سیاحت کا باقاعدہ اور ریکارڈ کے مطابق آغاز 13 ویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے اور پندرھویں صدی عیسوی تک دنیا کے تین مشہور سیاح، دانشور، عالم اور اپنے وقت کے بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ امور کی ماہر تین شخصیات اس دور میں اہم رہیں ۔

پہلی سیاح شخصیت مارکو پولو ہے جن کا تعلق اٹلی کی ریاست ویکیٹن سے تھا، مارکو پولو نے اپنی زندگی میں 12000 کلومیٹر سفر کیا، یہ سفر چین اور یورپ کے درمیان تھا لیکن اہم بات یہ تھی کہ اس دوران وہ 17 سال تک چین میں رہے،  یہ وہ دور ہے جب چین میں چنگیز خان کے دوسرے پو تے کبلائی خان کی حکومت تھی، یوں مارکو پولو کے سفر نامے سے اُس دور کے چین کے حالات اور اُس دور میں شاہراہ ریشم اور اس پر تجارت کی تفصیلات سامنے آتی ہیں۔

مارکو پولو 1254 ء میں پیدا ہوئے اور  1324 میں وفات پائی، ان کے بعد کے زمانے کے اعتبار سے دنیا کے عظیم ترین سیاح ابن بطوطہ کا نام آتا ہے، وہ 1304ء میں مراکش میں پیدا ہوئے اور 1369 میں وفات پائی، انہوں نے سنٹرل ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا برصغیر اور چین سمیت آدھی دنیا کی سیاحت کی۔

اُن کی سیاحت کا  مجموعی سفر  یا فاصلہ  117000 کلومیٹر تھا، انہوں  نے اپنے سفر ناموں میں تاریخ بھی مرتب کی اور اپنی عقل و دانش سے اُس زمانے میں دنیا کو متاثر کیا ۔ تیسرا نام  Zheng He زہیانگ ہی کا ہے جو ایک چینی سیاح سفارت کار دانشور تھے، وہ 1371 کو پیدا ہوئے، 1433 کو وفات پائی۔

اس سیاح کی مسافت کا مجموعی فاصلہ 50000 کلومیٹر تھا۔ اَن سیاحوں نے سفر نامے تحریر کئے جو آج بھی سند تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اگرچہ اِن کو گزرے صدیاں بیت گئی ہیں مگر اب بھی اکثر سیاح سفر نامے تحریر کرتے ہیں اور اب سفر نامہ تو ایک تسلیم شدہ ادبی نثری صنف ہے اور دنیا میں اب تک سفر نامے لکھے جا رہے ہیں بلکہ اب تو زیادہ تر کام اس حوالے سے ڈاکومینٹری اور ڈاکو ڈارمے پر ہو رہا ہے اور خاصا مقبول ہے۔

پوری دنیا میں ہر ملک میں ٹورازم  یعنی سیاحت کی وزارت ہوتی ہے اور حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ملک میں سیاحت کے شعبے کو زیادہ سے زیادہ ترقی دیں کیونکہ اس انڈسٹری سے دنیا کے بہت سے ممالک نہ صرف سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کماتے ہیں بلکہ آج کی دنیا میں جب یہ دنیا گلوبل ولیج کہلانے لگی ہے وہ ممالک جہاں سالانہ کروڑوں افراد دوسرے ملکوں سے سیاحت کے لیے آتے ہیں  وہ میزبان کی حیثیت سے  اِن بیرونی سیاحوں پر ایسے اچھے اثرات ڈالتے ہیں کہ دنیا بھر میں اِن کے ملک کی اچھی شہرت گونجتی ہے جس طرح اقوام متحدہ  نے صحت ، تعلیم، ماحویات  وغیرہ جیسے مختلف شعبوں کے فروغ اور بہتری کے لیے ایجنسیاں یا ادارے قا ئم کئے ہوئے ہیں اسی طرح سیاحت کے عالمی معیار کو بہتر بنانے اور اس کے فروغ کے لیے United Nations World Tourism Organization کا ادارہ قائم کر رکھا ہے، یہ ادارہ پوری دنیا میں سالانہ سیاحت کا جائزہ بھی لیتا ہے، یوں UNWTO کے مطابق 2018  میں عالمی سطح پر سیاحت کی انڈسٹری میں دنیا کے ملکوں نے مجموعی طور پر 1451 ارب ڈالر کمائے جو 2017 کے مقابلے میں 4.4% زیادہ تھے۔

سیاحت کی انڈسٹری میں آمدنی کے اعتبار سے 2018 میں ٹاپ ٹن ملکوں کی صورتحال یوں رہی۔ نمبر 1 ۔ امریکہ 214.3 ارب ڈالر، نمبر2 ۔اسپین 73.78 ارب ڈالر، نمبر3۔ فرانس 67.3 ارب ڈالر،  نمبر4 ۔ تھائی لینڈ 63 ارب ڈالر، نمبر5 ۔ بر طانیہ 51.9 ارب ڈالر، نمبر6 ۔اٹلی 49.3 ارب ڈالر، نمبر7 ۔ آسٹر یلیا45 ارب ، نمبر8 ۔جرمنی 43 ارب ڈالر ، نمبر 9 جاپان 41.1 ارب ڈالر، نمبر10 ۔ چین 40.4 ارب ڈالر ۔ اسی طرح دنیا بھر کے وہ ملک جن کے لو گوں نے 2018 میں سب سے زیاد ہ رقوم سیاحت پر خرچ کیں اُن کی کی ٹاپ ٹن پوزیشن اور اخراجات کی صورت یوں رہی۔  نمبر1۔  چین جس کے سیاحوں نے دنیا کے دیگر ملکوں میں سیر و سیاحت پر 2018 میں سب سے زیادہ یعنی 277 ارب ڈالر خرچ کئے جو 2017 کے مقابلے 5% زیادہ  تھے، نمبر 2 ۔امریکہ 144 ارب ڈالر، نمبر3 ۔ جرمنی

194 ارب ڈالر، نمبر4 ۔ برطانیہ 76 ارب ڈالر ۔ نمبر5 ۔ فرانس 48 ارب ڈالر، نمبر 6 ۔ آسٹریلیا37 ارب ڈالر، نمبر7 ۔  روس 35 ارب ڈالر ، نمبر8 ۔کینیڈا 33 ارب ڈالر، نمبر9 ۔  جنوبی کوریا32 ارب ڈالر،  نمبر 10 ۔ اٹلی 30 ارب ڈالر ۔ سیاحت کی ورلڈ انڈسٹری کا جا ئز ہ اس اعتبار سے لیا جا سکتا ہے کہ سیاحت کے لحاظ سے کس ملک  نے آمد نی کے مقا بلے کم خرچ کیا اور کیا کمایا، سیاحت میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والوں میں چینی باشندے پہلے نمبر پر تھے۔

یوں چین نے مجموعی طور پر سیاحت کے شعبے میں  2018  میں 40.4 ارب ڈالر کمائے تھے اور اس کے مقابلے میں 277 ارب ڈالر چینیوں نے دوسرے ملکوں کی سیاحت کے دوران خرچ کئے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ نے214.3 ارب ڈالر کمائے، اس کے مقابلے میں امریکیوں نے سیاحت پر 144 ارب ڈالر خرچ کئے  یعنی امریکہ کو 70.3 ارب ڈالر کی بچت رہی، جرمنی کے باشندوں نے 2018 میں دوسرے ملکوں کی سیاحت پر 94 ارب ڈالر خرچ کئے جب کہ اس کے مقا بلے میں جرمنی کو سیاحت کے شعبے میں 43 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی  یعنی جرمنی نے آمدنی کے مقابلے میں 51 ارب ڈالر زیادہ خرچ کئے، اسی طرح برطانیہ نے سیاحت کے شعبے میں 51.9 ارب ڈالر کمائے تھے جب کہ برطانوی شہریوں  نے سیاحت پر اسی سال 76 ارب ڈالر خرچ کئے۔

یوں آمدنی سے 24.1 ارب زیادہ خرچ ہوئے فرانس نے 2018 میں 67.3 ارب ڈالر کمائے تھے اور اسکے مقابلے میں فرانسیسیوں نے 48 ارب ڈالر خرچ کئے اور یوں 19.3 ارب ڈالر کی بچت ہوئی، آسٹر یلیا نے 2018 کے دوران سیاحت کی انڈسٹری سے 45 ارب ڈالر کمائے تھے جب کہ اسی سال آسٹریلیا کے باشندوں نے سیاحت پر 37 ارب ڈالر خرچ کئے، یوں آسٹریلیا کو 8 ارب کی بچت ہوئی، اٹلی بھی سیاحت کے شعبے میں کما نے اور خرچ کرنے والے ملکوں میں شامل تھا جس نے 2018 میں ٹورازم انڈسٹر ی میں 49.3ارب ڈالر کمائے اور اٹلی کے لوگوں نے دوسرے ملکوں کی سیا حت پر اسی سال 30 ارب ڈالر خرچ کئے۔ 2018 میں   سیاحت پر خرچ کر نے والے ٹاپ ٹن ملکوں میں روس سے تعلق رکھنے والے سیاحوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاحت پر 2018  میں 35 ارب ڈالر خرچ کئے لیکن سیاحتی صنعت سے کمانے والے ٹاپ ٹن ملکوں میں روس شامل نہیں تھا۔

اسی طرح کینیڈا کے لوگوں نے سیاحت پر 33 ارب ڈالر اور جنوبی کوریا کے لو گوں نے 32 ارب ڈالر خرچ کئے لیکن یہ دونوں ملک بھی ٹورازم انڈسٹری میں سرمایہ کمانے والے ٹاپ ٹن میں شامل نہیں تھے، جب کہ اس کے مقابلے میں ٹورازم انڈسٹری سے کما نے والے ٹاپ ٹن ملکوںمیں اسپین دوسرے نمبر پر تھا اور اس کی آمدنی 2018 میں 73.78 ارب ڈالر تھی، تھائی لینڈ اس فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا اور اس کی آمدنی 63 ارب ڈالر اور جاپان 41.1 ارب ڈالر کی آمدنی کے ساتھ نویں نمبر تھا، مگر سیاحت میں سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ملکوں میں اسپین ، تھائی لینڈ اور جاپان شامل نہیں تھے یعنی اِن کی آمدنیاں اخراجات کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھیں۔

پھر سیاحت کے اعتبار سے 2018 میں ٹاپ ٹن ممالک تھے جہاں سب سے زیادہ سیاح آئے، ان میں نمبر 1۔ فرانس تھا جہاں 2018 میں 8کروڑ 94 لاکھ سیاح آئے، نمبر 2 ۔اسپین یہاں 8 کروڑ28 لاکھ سیاح آئے نمبر 3 ۔ امریکہ 7 کروڑ 96 لاکھ سیاح، نمبر4 ۔چین 6 کروڑ29 لاکھ سیاح ، نمبر5 ۔ اٹلی 6 کروڑ21 لاکھ سیاح آئے، نمبر6۔ ترکی جہاں 4کروڑ58 لاکھ سیاح ، نمبر7۔ میکسیکو4 کروڑ14 لاکھ سیاح ، نمبر8 ۔ جرمنی 3 کروڑ 89 لاکھ سیاح ، نمبر ۔9 تھائی لینڈ3 کروڑ 83 لاکھ سیاح اور نمبر۔10 بر طانیہ جہاں 2018 کے دوران 3 کروڑ 76 لاکھ سیاح آئے۔

اسی طرح براعظموں کی بنیاد پر ٹاپ ٹن ممالک میں سیاحوں کی آمد کا جائزہ لیں تو براعظم امریکہ میں 2018 میں21 کروڑ 57 لاکھ سیاح آئے جن میں سے 7 کروڑ 96 لاکھ امریکہ میںاور 4 کروڑ 14 لاکھ میکسیکو میں آئے، افریقہ کے ٹاپ ٹن ملکوں میں 2018 میں کل 6 کروڑ 27 لاکھ سیاح آئے، پہلے نمبر پر مراکش رہا جہاں 1 کروڑ 17سیاح آئے اور دوسرے نمبر پر مصر تھا جہاں1 کروڑ13 لاکھ سیاح آئے۔ ایشیا پپیسفک کے ٹاپ ٹن ممالک میں2018 میں کل 34 کروڑ 70 لاکھ سیاح آئے تھے، یہاں پہلے نمبر پر چین جہاں 6 کروڑ29 لاکھ سیاح آئے اس کے بعد تھائی لینڈ 3 کروڑ 83 لاکھ سیاح آئے، پھر جاپان 3 کروڑ 12 لاکھ سیاح ہانگ کانگ 2 کروڑ 93 لاکھ اور پھر ملائیشیا جہاں 2018 میں 2 کروڑ 58 لاکھ سیاح آئے۔ اسی طرح 2018 میں یورپ میں کل 71 کروڑ 10 سیاح آئے۔

یہاں پہلے نمبر پر فرانس تھا جہاں 8 کروڑ 44 لاکھ سیاح آئے، دوسرے نمبر پر اسپین تھا جہاں 8 کروڑ 28 لاکھ سیاح آئے، تیسر ے نمبر پر اٹلی جہاں 6 کروڑ 21 لاکھ سیاح آئے اور چوتھے نمبر پر ترکی جہاں 4 کروڑ58 لاکھ سیاح آئے۔ مشرق وسطیٰ کے 2017 کے اعداد و شمار ہی میسر ہیں جس کے مطابق اس سال مشرق ِ وسطیٰ میں کل 5 کروڑ77 لاکھ سیاح آئے، سعوی عرب پہلے نمبر پر تھا جہاں 1 کروڑ 53 لاکھ سیاح آئے، اس کے بعد متحدہ عرب امارات کی ریاستیں جہاں مجموعی طور پر1 کروڑ59 لاکھ سیاح آئے۔

اب دو تین علاقائی اور ترقی پزیر ملکوں کی ٹورازم انڈسٹری کی آمدنی دیکھیں تو بھارت نے 2018 میں 28.568 ارب ڈالر اس انڈسٹری سے حاصل کئے، سنگا پور نے 20.528 ارب ڈالر، ملائیشیا نے 19.143 ارب ڈالر، مصر نے 11.615 ارب ڈالرکمائے، جب کہ ترکی کا گراف سب سے اُوپر رہا اور ٹورازم انڈ سٹری میں اس کی   آمدن 31.870 ارب ڈالر تھی، اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان میں 1970 کی دہائی خصوصاً 1972 سے 1977 تک بہت اچھا دور تھا اس زمانے میں پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد اور متوازن رہی۔ پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا وژن سیاحتی انڈسٹری کے اعتبار سے بھی بہت وسیع تھا۔ انہوں نے اپنے دور میں ٹیکسلا، موہنجوداڑو، ہڑپہ پر توجہ دی۔

اُن ہی کے دور میں بلوچستان میں دنیا کے قدیم ترین آثار قدیمہ پر فرانسیسی ماہر ِ آثار قدیمہ نے کام شروع کیا اور ڈھاڈر اور سبی کے قریب کھدائی کے بعد تقریباً دس ہزار سالہ قدیم انسانی تہذیب کے آثار کو دریافت کیا۔اُنہوں نے لاہور کے شاہی قلعہ ، شالامار باغ ، شاہی مسجد اور دیگر تاریخی عمارتوں کی ترئین و آرائش پر خصوصی توجہ دی۔ 1974 میں جب اسلامی سر براہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تو شاہی قلعہ اور شالامار باغ میں اسلامی ملکوںکے سربراہوںکے اعزاز میں دعوتوں کا اہتمام کیا گیا۔

اِن اقدامات کی وجہ سے ستر کی دہائی میں پا کستان میں سیاحت کے شعبے نے بہت ترقی کی مگر اس کے بعد ہمارے ہاں ٹورازم کی انڈسٹری زوال اور تباہی کا شکار ہو گئی، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ نئی حکومت نے اس شعبے پر توجہ نہیں دی تو دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں سوویت یونین نے فوجی مداخلت کردی اور یہاں جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن کا ملک بن گیا۔ بدقستمی سے افغانستان میں جنگ کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی پھرنائن الیون کے بعدصورتحال بہت ہی بحرانی ہو گئی، اس سے جہاں پاکستان کو دیگر اقتصادی، سماجی شعبوں میں ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا وہاں ٹورازم انڈسٹری بھی تباہ ہو گئی اور بد قسمتی سے سیاحت کی ترقی کے لیے حکومتی سطح پر کام بھی نہیں کیا گیا۔

2018 کے انتخابات کے بعد برسراقتدار آنے والی پارٹی نے اپنے ترقیاتی پروگراموں میں پاکستان کی سیاحتی صنعت کو اولیت دی۔ وزیراعظم عمران خان جو خود جوانی ہی سے سیاحت سیر و تفریح کا شو ق رکھتے ہیں اور بطور انٹرنیشنل کرکٹردنیا بھر کے تفریحی مقامات کی سیر کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے خوبصورت اور تفریحی مقامات خصوصا ً شمالی علاقاجات سوات ،گلکت  بلتستان، آزاد کشمیر وہ مقامات بھی اُنہوں نے دیکھے ہیں جہاں سیاحوں کی اکثریت کبھی نہیں پہنچی، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا میں8000 میٹر سے زیادہ 14بلند ترین چوٹیوں میں سے دوسری بلند ترین چوٹی k2 کے ٹو سمیت پانچ چوٹیاں پا کستان کے پاس ہیں، اسی طرح قطبین سے ہٹ کر دنیا کے تمام بڑے گلیشئر بلتور، استور پاکستان کے پاس ہیں جن میں سے سیاچن کے ایک حصے پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کے شمال میں دنیا کے خوبصورت ترین علاقے ہیں جہاں قدرتی حسن موسم گرما نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔

پاکستان کے پاس بلوچستان اور سندھ میں بحیرہ عرب پر 1000 کلو میٹر خوبصورت ساحل ہے جہاں اس ساحل پر ریتلے بیچ بھی ہیں اور منگروز کے ساحل بھی۔ یہاں کے پی کے میں ٹیکسلامیں بدھ مت کے مقدس مقامات جو تقربیاً ڈھائی ہزار سالہ پر انے مجسمے اور اسٹوپاز ہیں جو ایک جانب اشوک اعظم کے عہد میں بدھ مت کے عروج اور انسانی تہذیب کے درخشاں حقائق کے اعتبار سے دنیا بھر کے لوگوں کے لیے دلچسپی کے حامل ہیں توساتھ ہی دنیا بھر کے 50 کروڑ 60 لاکھ بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے مذہبی اہمیت کے حامل ہیں۔

اسی طرح ہندو دھرم کے ماننے والے ایک ارب 20 کروڑ افراد کے لیے ایک جانب پنجاب میں کھٹاس مندر اور دوسری طرف بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ہنگلاج ماتا کا ہزاروں سال پرانا مندر ہے اور پھر دنیا بھر کے 2 کروڑ 30 لاکھ سکھ ہیں جن کے بیشتر مقدس مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہیں اور گذشتہ سال ہی حکومت پاکستان نے سکھ برادری کی دیرینہ خواہش پر کرتارپورہ کے مذہبی مقا م کو سکھوں کے لیے کھول دیا ہے۔

اسی طرح دنیا میں سیاحوں کی ایک بڑی دلچسپی پرانی انسانی تہذیبوں کے حوالے سے آثار قدیمہ میں ہوتی ہے اور پاکستان میں ساڑھے پانچ ہزار سال سے دس ہزار سال پر محیط دنیا کے تین مشہور آثار قدیمہ موجود ہیں۔ یوں پاکستان میں وہ تمام چیزیں بہت معیاری انداز میں موجود ہیں جو کسی ملک میں ٹورازم انڈسٹری کے لیے ضروری ہوتی ہیں لیکن 1972 سے1977 تک ہی کا عرصہ پاکستان میں ایسا رہا کہ اُس زمانے میں ٹورازم انڈسٹری کی جانب توجہ دی گئی اور ہم نے اَن پانچ چھ برسوں میں اس شعبے سے کافی زرمبادلہ حاصل کیا لیکن اس کے بعد ہماری ٹورازم انڈسٹری تیزی سے زوال آمادہ ہو گئی۔

2013 میں حالت یہ ہو گئی تھی کہ پاکستان میں اس سال کل 566212 سیاح آئے جن سے صرف 29 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی آمدن ہوئی لیکن یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ 2018 میں پاکستان میں 66 لاکھ افراد نے سیاحت کی جن میں سے زیادہ تر سیاح برطانیہ ، امریکہ، بھارت اور چین کے تھے، جب کہ پچاس لاکھ مقامی سیاح تھے۔ وفاقی حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے 2019 میں ایک اہم قدم اٹھایا اور ملک میں نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا جس میں حکومت نے ویزا پر عائد غیرضروری پابندیاں ختم کر دیںاور ویزا فیس میں بھی کمی کر دی۔

اس نئی ویزا پالیسی کے مطابق 175 ملکوں کے لیے ویزا کی سہولتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، 50 ملکوںکو ویزا فری قراردیا ہے یعنی اِن ملکوںکے باشند ے اپنے ملکوںکے پاسپورٹ پر پاکستان پہنچیں تو اُن کو اُسی وقت ویزا دے دیا جائے گا۔ بزنس ویزا جس کی سہولت پہلے 68 ملکوں کو تھی اب اس فہرست میں 96 ملک شامل ہیں جن کے بزنس مین اپنے پاسپورٹ پر آٹھ سے دس سال تک مدت کی بنیاد پر ویزا حاصل کر سکیں گے، یہی سیاحتی ویزا سیاح پاکستان پہنچنے پر 30 دن کے لیے حاصل کر سکیں گے۔

اسی طرح پہلے ہمارے ہاں ہمالہ کے پہاڑی سلسلوں پر واقع دنیا کے بلند ترین مقامات اور کے ٹو K2 اور نانگا پربت وغیرہ کے لیے سیاحوں کو اجازت نامے لینے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا ہوا کرتا تھا جسے اب بہت سہل کر دیا گیا ہے۔ پاکستان آنے والے سیاحوںکو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی سہولیات فراہم کی گئی ہیں کہ یہ سیاح آن لائن بھی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لیے حکو مت کی ہدایت ہے کہ آن لائن ویزا کی درخواست دینے والوںکو 48 سے 72 گھنٹوںکے اندر ویزا دیا جائے، اسی طرح مذہبی سیاحتی ویزا کے لیے حکومت کی پالیسی اب بہت فراخدلانہ ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی شخص اگر مذہبی بنیادوں پر پاکستان آنا چاہتا ہے تو اُسے ماضی کے مقابلے میں بہت آسانی کے ساتھ فوری طور پر 45 دن کا ویزا دے دیا جائے گا اور ایسا شخص مذہبی بنیاد پر سال میں تین مرتبہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت نے اگست 2018 میں جب اپنی حکمرانی آغاز کیا تھا اور سیاحتی صنعت پر توجہ دی تھی تو  2019 کی یہ ویزا پالیسی اس سلسلے میںایک بنیادی اور اہم قدم تھا۔ اگرچہ حکومت نے اُس وقت یہ ارادہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی سیاحتی ترقی کے لیے جو منصوبے رکھے، اُن کی آمدنی کے اہداف یوں ہیں کہ 2025 تک پاکستان اپنی ٹورازم انڈسٹری سے ایک ٹریلین ڈالر یعنی ایک کھرب ڈالر کما سکے گا، اس وقت ہماری طرح کے ترقی پذیر ممالک جن میں بھارت نے 2018 میں 28.568 ارب ڈالر کمائے، سنگاپور نے 20.528 ارب ڈالر کمائے، ملائیشیا نے  19.143ارب ڈالر، سعودی عرب نے 12.038 ارب ڈالر، مصر نے 11.615 ارب ڈالر کمائے، لیکن ترکی سب سے آگے رہا اور ترکی نے 2018 میں ٹورازم انڈسٹری سے 31.870 ارب ڈالر کمائے۔

پاکستان نے تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر سیاحت کی صنعت سے کمائے تھے، مگر 2019 کے آخر میں چین میں کورونا نمودار ہوا اور اس کے تھوڑے دن بعد کورونا پوری دنیا میں پھیل گیا، اس کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کو شدید نوعیت کی کساد بازاری کا سامنا کر نا پڑا، وہیں کوروناکی اس وبائی بیماری کی وجہ سے سیاحت کی صنعت کو کہیں زیادہ نقصان پہنچا، کئی فضائی کمپنیاں مکمل طور پر بیٹھ گئیں۔

ہوٹل انڈسٹری کو بھی مقامی سطح سے عالمی سطح تک نقصان پہنچا مگر اب کورونا کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے اُن پانچ سات ملکوں میں شامل ہے جہاں کورونا پر کنٹرول کر لیا گیا ہے اور حکومت کی سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی نہ صرف کامیاب رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کی تعریف کی گئی ہے اور ابھی جب 27 ستمبر کو عالمی یوم سیاحت منایا جا رہا تو اس پر تو بات ہو رہی ہے کہ کوروناکی اس وبائی بیماری کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا ہے لیکن ساتھ ہی چین اور روس کے علاوہ کچھ ممالک کورونا کی ویکسین بنانے کا اعلان کر چکے ہیں اور اپنے ہاں اس ویکسین کو استعمال میں لارہے ہیں البتہ ابھی تک عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت نے کسی ویکسین کو مکمل طور پر منظور نہیں کیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب پانچ سات مہینیوںمیں کورونا کی کوئی نہ کوئی ویکسین ڈبلیو ایچ او کے معیار پر پوری اتر جا ئے گی۔

اس لیے ضروری ہے کہ پا کستان میں جہاں خوش قسمتی سے کورونا کو کنٹرول کر لیا گیا ہے اور پاکستان کو کرتا پور راہدری کی بنیاد پر  مذہبی سیاحت کے شعبے میں بڑی کامیا بی حاصل ہوئی ہے اس موقع سے فائد اٹھاتے ہوئے سیاحت کے شعبے پر اپنی پالیسی کو اور زیادہ بہتر اور مفید بنائے اور اس حوالے سے دنیا میں پیدا ہو نے والے خلا سے فوراً فائدہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کرے۔ کرتار پور کی بنیاد پر ہماری پالیسی سیاسی اور سیاحتی لحاظ سے بہت کامیاب رہی ہے۔ پاکستان کی یہ پالیسی مستقبل میں بھی بہت کامیاب اور فائدہ مند ثابت ہو گی۔

اسی طرح بدھ مت کے ماننے والے ایک عرصے سے پاکستان کی سیاحت کے لیے بے تاب ہیں لیکن ماضی قریب تک ہمارے ہاں جو حالات تھے، امن و امان کی جو صورتحال تھی اُس کی وجہ سے بدھ مت کے ماننے والے لاکھوں کروڑوں افراد ہمارے یہاں بڑی تعداد میں نہیں آتے تھے، یہ بھی اچھا ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے  اپنے طور پر سیاحت کی انڈسٹری پر تو جہ دی، وفاقی حکو مت نے بہت سی سر کاری رہائش گاہوں کو پرائیویٹ شعبے کے مقابلے میں بہت سستے کرایوں پر عام لوگوں کے لیے کمپیوٹر سسٹم کی شفافیت کے ساتھ فر اہم کر دیا ہے۔

اسی طرح ملک کے خوبصورت صحت افزا تفریحی مقامات تک پہنچنے کے لیے سڑکوں، شاہراہوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، امن وامان کی صورتحال بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بہت بہتر ہے، یوںاب ملک میںسیاحت کی ترقی کا ماحول بہت ساز گار ہو گیا ہے، یہ درست ہے کہ 2019 میں رونما ہو نے والی  عالمی سطح کی وبا کورونا وائرس سے پوری دنیا میں سیاحت کے شعبے کو بہت شدید نقصان پہنچا ہے اور ابھی تک یہ فضا ہموار نہیں ہوئی ہے لیکن دوسرے ملکوں کے مقابلے میںہمیں یہ فوقیت حاصل ہے کہ ہم اس وقت دنیا کے اُن پانچ چھ ملکوں میں شامل ہیں جہاںکورونا وائرس پر کافی حدتک کنٹرول کر لیا گیا ہے، یوںہم آئندہ کے لیے سیاحت کے شعبے میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میںکا فی  بہتر پلاننگ کر سکتے ہیں۔

قدرت کی جانب سے عطاکردہ نعمتوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا وہ خوش نصیب ملک ہے جہاں سات ایکالوجیکل زون ہیں اور اس تنوع کے ساتھ قدرت نے یہاں فطرتی حسن کے خزانے کھو ل دئیے ہیں۔ دنیا کے اکثر ملکوں میںجہاں سیاحتی صنعت سے سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر کمائے جاتے ہیں وہاں کے موسم شدید ہوتے ہیں اور عموماً وہاں موسم گرما ہی میں سیاح جاتے ہیں مگر پاکستا ن میں نہ صرف سال میں چار موسم ہیں بلکہ یہ ملک سرد گرم اور معتدل علاقوں میں تقسیم ہے۔

اس لیے یہاں سال کے بارہ مہینوں میں سیاحت کے یکساں مواقع موجود ہیں پھر شمال میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں خوبصورت وادیاں شفاف بہتے دریا اور دلکش نظارے ہیں تو جنوب میںگرم پانیوں کے سمندر پر 1000 کلومیٹر ساحل ہے، بڑے شہر ہیں، سینکڑوں اقسام کے خوش ذائقہ پھل ہیں اور ہمارے لوگ متنوع اقسام کے لذیذ پکوان بنانے میں دنیا بھرمیں اپنا ثانی نہیں رکھتے اس لیے اس میں شک نہیں کہ اگر ہم تھوڑی سی محنت کریں تو قدرت کی جانب سے بخشی گئی اِن نعمتوں کی بنیاد پر واقعی 2025-26 تک سالانہ ایک ٹریلین ڈالر تک کا زر مبادلہ کما سکتے ہیں، یوںاس وقت کورونا کی شکل میں جو آفت ہے وہ پاکستان کی سیاحتی صنعت کے لیے ایک سنہری موقع بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ دنیا کے وہ ملک جو سیاحت کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں وہاں 2021 تک سیاحت کے شعبے میں مندی رہے گی، پاکستان کو اس عالمی اقتصادی خلا کو پُر کرتے ہوئے فائد ہ اٹھانا ہے۔ خوش قستمی سے حکو مت اس حوالے سے بروقت اقدامات بھی کر رہی ہے۔

دنیا بھر میں سیاحت کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی 1990-91 میں اُس وقت ہوئی جب دیوار برلن کے گرنے کے ساتھ بشمول مشرقی یورپ کے کیمونسٹ ملکوں کے اور سابق سوویت یونین کے بکھرنے اور کیمونزم کے خاتمے کے بعد نہ صرف ان ملکوں کے کروڑوں افراد کو مکمل آزادی نصیب ہوئی اور خصوصاً مشرقی یورپ کے کروڑوں افراد فوری طور پر آزادانہ دنیا کے دیگر ملکوں میں آنے جانے کے قابل ہو گئے۔

1999 سے2000 کے درمیان ایک جانب روس کی معیشت اور اقتصادیات سنبھل گئی اور یہاں معیار زندگی بھی بلند ہوا اور عالمی سطح پر ایٹمی اور خلائی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر روس نے جدید اسلحہ سازی اور عسکری اعتبار سے وہ مقام حاصل کرنا شروع کر دیا جو 1990 سے قبل سابق سوویت یونین کو حاصل تھا، اسی طرح دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین نے صنعتی اقتصادی لحاظ سے حیران کن حد تک تیز رفتار ترقی کی اور یہاں بھی عوام خوشحا ل ہو گئے اور اس اعتبار سے 2018 کے دوران عالمی سیاحتی انڈسٹری کے رجحان کا جائزہ لیں تو چین کے سیاحوں نے دنیا میں سب سے زیادہ رقوم سیاحت پر خرچ کیں اور پہلے نمبر پر رہے اور کل 277 ارب ڈالر خرچ کئے، جب کہ روس اس اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر رہا اور روس کے لوگوں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں سیاحت پر 35 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے۔

اس نئے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو 1990-91 میں سنٹرل ایشیا کی آزاد ہو نے والی ریاستوں اور مشرقی یورپ کے آزاد ہو نے والے ملک بھی اہم ترین ہیں، یہاں 1990 سے قبل شدید نوعیت کے کیمونزم کے زمانے میں غیر کیمونسٹ ممالک کے لوگ روس، سنٹرل ایشیا اور مشرقی یورپ کے ممالک  کے علاوہ چین میں سیاحت کی غرض سے جانے کا تصور نہیں کر سکتے تھے، اسی طرح اِن سابق کیمونسٹ ملکوں کے پونے دو ارب سے زیادہ عوام بھی کسی غیر کیمونسٹ میں سیاحت کرنے کا تصو ر نہیں کر سکتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔

یوں دیکھا جائے تو گذشتہ دس برسوں کے دوران ٹورازم انڈسٹری میں دو ارب آبادی کے حامل ملکوں کا نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ ممالک اس عالمی سیاحتی صنعت میں 35% سے زیادہ حصہ بطور زرمبادلہ دے رہے ہیں اور 2018 کے مطابق آمدن کے لحاظ سے اس انٹرنیشنل ٹورازم انڈسٹری کا کل حجم 1.451 ٹریلین ڈالر یعنی1451 ارب ڈالر تھا اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے اس سیاحتی صنعت میں جو خلا واقع ہوا ہے پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس سے بھرپور انداز سے فائدہ اٹھائے اور پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اس صورتحال سے کہیں زیادہ فائد ہ اٹھا سکتا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو بڑی کامیابی سکھوں کے لیے کرتاپور کی سہولت دینے سے ملی ہے۔

اب دوسری جانب بدھ مت کے ماننے والوں کو پاکستان کی سیاحت کے لیے سہولتیں فراہم کرنا ہے اس سلسلے میں چین، جاپان ،کوریا، ویتنام اہم ترین ملک ہیں، اس وقت چین جو ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور اس سے ہمارے مثالی تعلقات ہیں اس کو آسانی سے آمادہ کیا جا سکتا کہ وہ پاکستان کو اس سلسلے میں سہولتیں فراہم کرے اور پاکستان اس کے تعاون سے ٹیکسلا اور کے پی کے میں واقع بدھ مت کے تاریخی مقامات کے علاوہ دیگر سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات فراہم کر ے اور چین اور پاکستان دونوں کی ایسی کمپنیاں آپس میں اشتراک اور تعاون کر یں جو ٹریولنگ اور سیاحت کے شعبوں میں بزنس کرتی ہیں۔ اسی طرح سنٹرل ایشیا اور افغانستان، پاکستان کے درمیان صدیوں پرانے مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی رشتے ہیں جن کو سابق سوویت یونین کی کیمونسٹ پالیسی نے کمزور کر نے کی کوشش کی تھی اور 73 سال تک سنٹرل ایشیا کو پاکستان، ایران اور ترکی سے دور رکھا اِن ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کی تنظیم موجود ہے جو اس اعتبار سے بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

یہاں اس پورے تاریخی ثقافتی پس منظر میں جشن نوروز کا نوروزہ ڈھائی ہزار سالہ قدیم تہوار جو موسم بہار کو خوش آمدید کہنے کی روایت سے جڑا ہوا ہے، بہت اہم ہے اور اسی طرح اور بہت سے ایسے علاقائی میلے اور تہوار ہیں جو یہاں کی تاریخ سے صدیوں سے دوسرے ملکوں سے منسلک ہیں جن کو دوبارہ زمانے کے نئے تقاضوں سے مر بوط کر کے سیاحتی صنعت کی ترقی اور استحکام کے لیے استعما ل کیا جا سکتا ہے، چین اور روس جن کے باشندے سالانہ کروڑوں کی تعداد میں دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاحت کرتے ہیں اُن کے لیے پاکستان ایک پُرکشش ملک ہے مگر ضرورت اس کی ہے کہ اس کشش کو اجاگر کیا جائے،  اس کے لیے ان ملکوں کے میڈیا پر اُن کی زبانوں میں پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے بنائی گئی ڈاکو مینٹریوں کے تبادلے کے پروگراموں سے بھی پا کستان کو فائدہ ہو گا۔

سی پیک ، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی تکمیل سے پہلے اس کے روٹس یعنی راستوں خنجرآب سے گوادر تک کو سیاحتی نقط نظر سے فروغ دیا جانا چاہیے،  2016 سے ہمارے ہاں چو لستان اور بلوچستان میں جیپ ریلی اور کار ریلی یعنی جیپپو ں اور کاروں کی ریسوں کا اہتمام کیا گیا تھا، یہ مقامی سطح پر بہت مقبول ہوئی، اس کو عالمی سطح پر متعارف کرتے ہوئے صحارا انٹر نیشنل کار ریلی کی طرز پر ترقی دی جا سکتی ہے، جہاں تک وفاقی اور صوبائی سطحوں پر سیاحت کے فروغ کی بات ہے تو اس میں شک نہیں کہ ماضی کے مقا بلے میں اب سیاحت کے فروغ کے لیے بہت سے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں لیکن جو ٹارگٹ سیاحت کی صنعت کے لیے ایک ٹریلین ڈالر سالانہ آمدنی کا ہے تو اس کے لیے سنٹرل ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ روس، چین، جاپان، ویت نام کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ بندی اور حکمت عملی اخیتار کرنی ہو گی۔

یوں اس وقت وفاقی سطح پر دیگر کئی محکموں کے درمیان بہترین رابطوں کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں وزارت خارجہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ وہ چین، سنٹرل ایشیا اور روس سے سیاحت کے فروغ کے لیے خصوصی مراعات حاصل کرے اور آج جب کہ عالمی سطح پر چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ اور اقتصادی جنگ نے دنیا کو دوبارہ دو بلاکوں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کے شدید اندیشے پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ گروپ مستقبل میں ایک دوسرے کے خلاف اعلانیہ اور غیر اعلانیہ اقتصادی پابندیاں عائد کر یںگے اور ناکہ بندی کریں گے اور یہ اندیشے بھی ہیں کہ شائد چین امریکی ڈالر کی عالمی اقتصادی اجارہ داری کو بھی چینی کرنسی ’’یوان‘‘ سے چیلنج کر دے۔

ایسی صورت میں بھی ظاہر ہے کہ اس کے شدید نوعیت کے اثرات انٹر نیشنل ٹورازم انڈسٹری پر مرتب ہوں گے اور 1990-91 کے دس بارہ سال بعد جب سے روس، سنٹرل ایشیا اور چین مستحکم اور خوش حال ہوئے ہیں تو عالمی سیاحتی صنعت میں تقریباً 500 ارب ڈالر سے زیادہ کا حصہ اِن ملکوں کے سیاحوں کی جانب سے آیا ہے جوسرد جنگ تک یعنی 1990-91 میں نہیں تھا جب اِن ملکوں میں کیمونسٹ آمرانہ نظام کے تحت سیاحت پر آہنی پردے پڑے تھے، اس بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کو بھی پاکستان نے اپنی بہتر خارجہ پالیسی سے سیاحتی صنعت کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔