بندھن کیسے ٹوٹ جاتے ہیں؟

تحریم قاضی  اتوار 27 ستمبر 2020
تعلقات میں دراڑیں ڈالنے والی وہ وجوہات جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں ۔  فوٹو : فائل

تعلقات میں دراڑیں ڈالنے والی وہ وجوہات جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

’’دنیا میں کوئی چیز اتنی تکلیف دہ نہیں جتنا کہ اس شخص کا ٹھکرانا جسے آپ نے چاہا ہو۔‘‘ رشتے اور تعلقات انسانی ضرورت ہیں۔ ان سے وابستہ امیدیں، خواب اور احساسات بہت معنی رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو نیک نیتی سے تعلق بناتا ہے اس کی ساری توانائیاں اس تعلق کو بخوبی پروان چڑھتا دیکھنے میں صرف ہوجاتی ہیں۔

یہ ایک فطری سی بات ہے کہ جب تعلق بنتا ہے تو سامنے والے سے توقعات بھی جڑ جاتی ہیں اور تعلق کے نتیجے میں ذرہ برابر بھی بے وفائی ہو تو اس کا استوار رہنا ممکن نہیں رہتا۔ تعلق کے ٹوٹ جانے کی بے پناہ جووہات ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ ساری وجوہات بھی تعلق یا رشتے کے ٹوٹنے کا باعث بنیں بلکہ کبھی کبھی ایک چھوٹی سی بات بھی رشتوں کی ڈوری کو توڑنے میں ایک جھٹکے کا کام دیتی ہے۔

بعض اوقات تعلق بنانے اور توڑنے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دانائوں کے اقوال اور چند نصیحتیں بعض مقامات پر انسان کی بھر پور رہنمائی کی استطاعت رکھتی ہیں۔ کیونکہ ان کے ہر قول میں حکمت تجربہ اور مشاہدہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔

بعض اوقات زندگی میں ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو پہلے پہل تو آپ سے تعلق بنانے یا رشتہ جوڑنے میں دیوانگی کی حد تک لگاوٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر آہستہ آہستہ ان کا یہ جذبہ سمندر کی جھاگ کی مانند بیٹھنے لگتا ہے۔ کسی دانا نے اسی حوالے سے کہا کہ ’’کبھی بھی کسی ایسے شخص کے لیے خود کو ہلکان مت کرو جو تمہارے لیے کسی کو چھوڑ دے کیونکہ آج وہ تمہارے لیے کسی کو چھوڑ سکتا ہے تو کل کسی اور کی خاطر تمہیں بھی چھوڑ سکتا ہے۔‘‘

لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ انسان اعتبار کرتاہے اور ایسا کرنا اس کی بشری کمزوری ہے۔ اعتبار نہ ہوتو یہ معاشرہ دنوں میں تباہ ہوجائے اور رشتے ناطے دماغ سے سوچ کر جوڑے نہیں جاتے بلکہ یہ تو دلوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ تعلقات کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے جیسے دوستی، رشتہ داری، قربت داری یا پھر شادی بھی ہوسکتی ہے۔

ہر تعلق کے کچھ خاص تقاضے ہوتے ہیں اور اگر وہ مناسب انداز میں پورے نہ ہوں تو انجام رشتہ کا خاتم ہونا ہی مقصودہوتا ہے۔ ذیل میں ہم ایسی وجوہات کا ذکر کرنے جارہے ہیں جو تعلق ٹوٹنے کی وجہ بنتی ہیں۔ خصوصاً شادی سے طلاق کی نوبت لانے کا موجب بننے والی یہ چند باتیں کیا ہیں۔ آپ بھی جانیے۔

بے وفائی
آپ یقین کریں کہ نہ کریں کریں مگر تعلقات ختم ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ بے وفائی ہے۔ بے وفائی کو سمجھنے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ یہ جان لیا جائے وہ ہے کیا؟ بے وفائی دراصل ایسے معاہدے سے روگردانی کا نام ہے جسے دو لوگ مل کر تشکیل دیتے ہیں۔

شادی کی مثال لے لیجئے۔ دو لوگ ایک دوسرے کے سکھ دکھ، ہنسی خوشی اور دردوغم میں ساتھ دینے کا پیماں کرتے ہیں۔ اب اگر ایک فریق اپنے ساتھی کوچھوڑ کر کسی اور کی جانب مائل ہوتا ہے تو یہ بے وفائی کے زمرے میں آتا ہے۔ ایک سروے کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ شادیاں ٹوٹنے کی اصل وجہ شریک حیات کی بے وفائی یا ناجائز تعلقات ہوتے ہیں۔ دونوں افراد میں کوئی ایک بھی رشتے کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو اعتماد اور بھروسے کی دیوار دھڑام سے جاگرتی ہے۔

بے حد چاہت
حد سے زیادہ ہر چیز نقصان دیتی ہے۔ گوکہ میاں بیوی اور دوستوں میں محبت بے حد ضروری ہے اور اس کی شدت میں کوئی قباحت نہیں مگر حد سے زیادہ چاہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشن شپ اینڈ گروپ پروسیس میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں بتایا گیاجو جوڑے حد سے زیادہ لگاوٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے تعلق کی عمر کم چاہت کا مظاہرہ کرنے والوں کی نسبت کم ہوجاتی ہے۔ حد سے زیادہ حساسیت اور توجہ دینے والے دوسرے فرد کو اپنے ہی سانچے میں ڈھلا دیکھنا چاہتے ہیں اور کیونکہ ہر فرد اپنی ایک انفرادی حیثیت اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے، سو ایسا زبردستی کا تعلق زیادہ دیرپا ثابت نہیںہوپاتا۔ ضروری ہے کہ ہر فرد کو اس کی ذاتی حیثیت کے ساتھ قبول کریں۔ وقت دیں اور مثبت بدلائو کی کوشش ضرور کریں لیکن ڈنڈا اٹھا کر کسی کے پیچھے پڑجانے سے وہ شخص آپ سے دور ہی بھاگ سکتا ہے قربت تو یوں ممکن نہیں۔

تقابلہ
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ پوشیدہ یا کھلے عام اپنی زندگی اور ساتھی کا دوسرے سے تقابلہ کرتے ہیں لیکن کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ سب سے بدترین اور تکلیف دہ صورتحال وہ ہوتی ہے جس میں آپ کا تقابلہ کسی دوسرے سے کیا جارہا ہے۔ یہ باور کرنے کی کوشش کی جائے کہ آپ فلاں شخص سے کم تر ہیں۔ شادی شدہ جوڑے اکثر یہ سنگین غلطی دوہراتے ہیں جس کے نتائج خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تقابلہ یا مقابلہ آپ کی خوشیوں کا دشمن ہے۔ کیونکہ ایسا کرتے ہوئے آپ اپنے رشتے کی خوبصورتی کو فراموش کردیتے ہیں اور دوسرے جیسا بننے کی کوشش میں خود کو ہلکان کرتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنے میں ہی عافیت ہے کہ آپ کا ساتھی جو ہے جیسا ہے وہ اہم ہے اس میں کسی دوسرے کی شخصیت کو تلاشنا عبت ہے۔

سمجھوتہ
سمجھوتہ سے اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ دوسرے فریق کی کسی ایک بات کو مان کر اس سے اپنی منوالینا تو یہ کافی حد تک غلط ہے۔ ایک صحت مند تعلق میں سمجھوتے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے ساتھی کو اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کیا ہے۔ ہر لمحہ دوسرے پر قبضہ ظاہر کرنے سے رشتے کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔ گوکہ یہ بات درست ہے کہ کچھ اپنی منوائیں کچھ دوسرے کی مانیں۔ مگر یہ کہ کوئی اصول نہیں جہاں جھک جانے سے تعلق بچتا ہو وہاں ایسا کرنے سے کوئی قیامت برپا نہیں ہوتی۔

اظہار
کبھی کبھی انسان کا دل چاہتا ہے کہ کوئی بناسمجھے اس کے دل کی حالت کو سمجھ جائے۔ لیکن ضروری نہیں کہ حقیقت میں ایسا ہو بھی یا شازونادر ایسے واقعات دیکھنے کو ضرور ملتے ہیں جن میں واقعی کوئی ایسا ہوتا ہے جو بنا کہے سمجھے جائے مگر حقیقی دنیا میں ایسا بے حد کم ہوتا ہے۔ انسان کے لیے جذبات کا اظہار بے حد ضروری ہے۔ تعلق میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص تو جذبات کے اظہار میں گرم جوشی دیکھتا ہے جبکہ دوسرا بہت ٹھنڈا ہوتا ہے جوکہ علیحدگی کی ایک بہت بڑی وجہ بن سکتا ہے۔

دونوں اگر جذباتی طور پر ایک لائن پر نہیں تو یہ رشتے کی نزاکتوں کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک محقق جو شادی پر مہارت رکھتے ہیں ان کے نزدیک جذباتی تعلقات میں ناہمواری طلاق کی شرح کو اسیّ فیصد تک متاثر کرسکتی ہے۔ دراصل یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ دونوں فریقین ایسے کیسے نبٹتے ہیں۔ اس سلسلے میں کونسلنگ سے بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔

غصہ
نفسیات کے ایک جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ لوگ جن سے آپ بے حد محبت کرتے ہیں ان پر ہی سب سے زیادہ غصہ آتا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ کا ان سے آمنا سامنا بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ غصہ رشتے اور تعلقات کے ساتھ ساتھ افراد کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ غصہ کا بے جا اظہار بھی آپ کے اپنوں کو آپ سے دور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ میاں بیوی اگر بات بے بات غصہ کرنے لگیں اور ایک دوسرے کو کوسنے لگیں تو اس سے ناصرف گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ ذہنی و جسمانی اذیت بھی لاحق ہوجاتی ہے۔ غصہ کو اسلام نے بھی انہی وجوہات کی بنا پر حرام قراردیا تاکہ یہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ بہت سی طلاقیں غصے کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔

ماضی
ماضی ہر انسان کا ہوتا ہے۔ ماضی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک اچھا ماضی اچھے مستقبل کی ضمانت سمجھا جاتا ہے لیکن کیا آپ نے سوچا ماضی کیسے تشکیل پاتا ہے۔ ماضی دراصل ہمارے حال کی ایک فلم ہے جو لوگ ماضی میں حال بسر کرتے ہیں ان کا مستقبل بھی برباد ہوجاتا ہے۔ ایک اچھے ازدواجی تعلق کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے ماضی کو دفن کردیں اور اپنے حال کو بھرپور انداز میں گزاریں۔ ماضی گزر چکا ہے اور جو گزر جائے اس کو واپس لانے کی کوشش عبث ہے۔

بے یقینی
کسی پر بھی یقین کرنا آسان ہرگز نہیںہوتا جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ یقین اور اعتبار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بڑی مشکل سے آتا ہے اور جب آجائے تو انسان اپنا آپ تک سامنے والے کو سونپ دیتا ہے۔ اسی طرح جس شخص کے سنگ ساری زندگی گزارنی ہو اسی پر یقین نہ ہو تو یہ ممکن نہیں کہ زندگی کی مسرفت منزل پاسکے۔ بہت سے واقعات میں تعلق ٹوٹنے کی بڑی اور ٹھوس وجہ اپنے شریک حیات پر بے یقینی ہوتی ہے۔ اگر آپ مسلسل کسی پر اعتبار کررہے ہیں اور وہ آپ کے اعتبار سے لگاتار کھیل رہا ہے تو جان لیجئے کہ وہ شخص قابل اعتبار نہیں اور یہ تعلق زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوگا۔

بدعادات
شادی سے پہلے اکثر یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ سامنے والا کن بری عادات کا شکار ہے۔ بہت سی جگہ یہ دیکھنے میں آیا کہ شادی اس وجہ سے نہ چل پائی کہ بعد میں معلوم ہوا کہ نشے کی عادت ہے، شراب نوشی کرتا ہے یا پھر اپنی شامیں رنگین بنانے کے لیے بدنام زمانہ مقامات کا انتخاب کرتا ہے۔ ایسی صورت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ شادی سے قبل دیکھا جائے کہ دوست اور ماحول کیسا ہے جہاں اٹھنا بیٹھنا ہے۔

رازداری
راز رکھنا یقینا کوئی آسان بات نہیں۔ خاص طور پر لمبے عرصے پر محیط تعلق میں کسی راز کو چھپانا قدرے مشکل ہے۔ اگر شریک حیات آپ سے بار بار کچھ چھپاتا ہے تو ایسے میں معاملات زیادہ خراب ہونے سے پہلے ایک مرتبہ کھل کر بات کرلینی چاہیے پھر ایک اور وجہ جوکہ رازداری سے مشروط ہے وہ یہ کہ میاں بیوی کے درمیان بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جن میں رازداری بے حد ضروری ہوتی ہے۔ اب دونوں میں سے کوئی بھی اگر انہیں دوسروں کے ساتھ بیان کردے تو یہ نہ صرف اخلاقی طور پر بری بات ہے بلکہ تعلق کے تقدس کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ اسے کھوکھلا بھی کردیتا ہے اور بعض اوقات نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے۔

غیر ذمہ داری
بعض لوگوں کے خیال میں شادی اس وقت کرنی چاہیے جب آپ اس کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہوجائیں۔ مگر یہ ذمہ داری قبول کرنے کا جذبہ اور ہمت دونوں جانب سے ہونا چاہیے۔ اگر کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اس کی ذمہ داری قبول کرنا اہم ہے ورنہ ایسی صورت میں جب آپ دوسرے کو ہی قصور وار ٹھہراتے رہیں تو یہ ناممکن ہے کہ آپ کا تعلق مزید آگے چل سکے۔میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہوتے ہیں اور دونوں میں سے بوجھ اگر ایک طرف ڈال دیا جائے تو بے توازن ہونے سے گاڑی کسی سنگین حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔ اپنے گھریلو معاملات میں غیر ذمہ دارانہ رویوں سے پرہیز کرنا ہی فائدہ مند ہے۔

ہمدردی
انسان کو زندگی کے ہر لمحے پر کسی نہ کسی ہمدرد کی ضرورت رہتی ہے جو اسے سمجھے اور جس کے ساتھ وہ اپنے دکھ بانٹ سکے۔ میاں بیوی بھی ایک دوسرے میں اپنا ہمدرد تلاش کرسکتے ہیں۔ اور یہ ایک متوازن تعلق کی بقاء کے لیے ضروری بھی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا شریک حیات مالی اعتبار سے کچھ پریشانیوں میں گھرا ہے اور آپ اس سے مسلسل ڈیمانڈ کررہے ہیں جوکہ وہ اس وقت پوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو کیا آپ یہ توقع کرسکتے ہیں کہ سامنے والا شخص آپ کے ساتھ اچھا برتائو کرسکے گا۔ وہ جلد ہی آپ سے اکتا جائے گا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ زندگی کا سفر کسی ایسے شخص کے ہمراہ نہیں گزر سکتا جو ہمدرد نہیں اور مجھے سمجھ نہیں سکتا۔ مشکل حالات میں ایسے ہمدرد کسی خدائی نعمت سے کم نہیں ہوسکتے جوکہ انسان کو سمجھ کر اس کی ڈھارس بندھا دے۔

نرگسیت
نرگسیت ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں انسان آپ سے عشق میں اس قدرمبتلا ہوجاتا ہے کہ اسے کسی اور کی ذات اپنے سامنے کچھ نہیں لگتی۔ ایسے افراد کا ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے تعلق ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ ایسے افراد ناصرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ شادی کے علاوہ یہ دوستی اور سماجی تعلقات کے معاملے میں بھی زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوپاتے۔

قابل عزت
تعلق میں عزت سب سے اہم چیز ہے۔ کوئی بھی تعلق ہو اگر وہ آپ کو قابل عزت نہ بنائے تو اس سے کنارہ کشی ہی بہتر ہے۔ اگر ایک ساتھی دوسرے کی عزت نہیں کرتا اور اسے بے توقیر کرتا ہے تو اس سے وہ نقصان پہنچاتا ہے جو ناقابل ازالہ ہے اوہر ایک مقام پر آکر رشتہ ختم ہوجاتا ہے اور کہا بھی جاتا ہے کہ محبت کے بنا تو زندگی گزر جاتی ہے مگر عزت کے بنا نہیں، چاہے وہ پسند ناپسند کا معاملہ ہو یا فکری انداز دوسرے فریق کو عزت نہ دینا تعلق ٹوٹنے کی بڑی وجہ بن سکتا ہے۔

بے اعتباری
مالی اعتبار سے اپنے شریک حیات پر آپ کی بے اعتبار بھی رشتے کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔ اکثر اوقات کوئی ایک فریق زیادہ پیسے لوٹانے کا عادی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قابل اعتبار نہیں رہتا۔ برمنگھم یونیورسٹی کے شائع کردہ ایک تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ جن شوہروں کی بیویاں فضول خرچی کرتی ہیں ان کے ازدواجی تعلقات خوشگوار نہیں رہتے اور طلاق کے امکانات کئی گنا تک بڑھ جاتے ہیں۔

خودغرضی
تعلق کچھ دینے اور کچھ دینے کا نام ہے۔ اگر آپ اپنے دیئے سے زائد وصول کرنے لگتے ہیں تو توازن برقرار نہیں رہ پاتا۔ اگر آپ اپنے تعلق میں خودغرضی لے آئیں تو آپ کا شریک حیات کسی دوسرے کی جانب متوجہ ہوسکتا ہے اور یقینا یہ علیحدگی کی جانب ایک اشارہ ہے۔

شکرگزاری
ناشکراپن انسان کا بہت بڑامسئلہ ہے۔ ناشکرے انسان کو زندگی گزارنے کا اصل ڈھنگ کبھی نہیں آپاتا۔ آپ نے اکثر اپنے اردگرد ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کے باوجود ناشکری کا اظہار کرتے نظر آتے ہوں گے۔ ایسے افراد کا اچھاتعلق نبھانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ انہیں ناشکرے پن کی عادت لاحق ہوتی ہے۔ آپ کا شریک حیات اگر آپ کے لیے محنت کرتا ہے، کماتا ہے یا پھر گھر کو اچھے انداز سے چلانے کی کوششیں کرتا ہے تو اس کا شکریہ ادا کریں۔ لفظوں سے نہیں تو اپنے روپے سے تاکہ اسے خوشی محسوس ہو۔

معاف نہ کرنا
زندگی میں معاف نہ کرنے والے اور آگے نہ بڑھنے والے ہمیشہ اذیت کا شکار رہتے ہیں جو لوگ تعلقات میں غلطی کرنے والے کو معاف نہیں کرتے وہ خود بھی کڑھتے رہتے ہیں اور دوسرے شخص کے لیے بھی پچھتاوے بڑھاتے رہتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور غلطی ہوجاتی ہے اگر کوئی شرمندہ ہے تو اسے معاف کریں اور آگے بڑھیں۔ جو میاں بیوی ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتے وہ اپنے اور دوسرے کے لیے راہیں جدا کرنے کا سامان کرتے ہیں۔

غیر معمولی توقعات
اکثر تعلق اس لئے بھی نہیں چل پاتے کہ ہم سامنے والے سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ کوئی بنا بتائے آپ کے دل کا حال نہیں جان سکتا، آپ کو ہر وقت سرپرائیز نہیں دے سکتا۔ آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے یہ اسے معلوم نہیں ہو سکتا۔ زندگی گزارنے کے لئے پریکٹکل اپروچ ہونا ضروری ہے۔ اپنے ہم سفر کو انسان سمجھیں اور اس سے ایسی توقعات وابستہ مت کریں جو کسی انسان کے بس کی بات نہیں، ورنہ دوسری صورت میں زندگی عذاب بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔