لوٹی گئی دولت کی واپسی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 26 ستمبر 2020
عالمی برادری کو رقوم کی غیرقانونی منتقلی کے معاملے پر موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ فوٹو : فائل

عالمی برادری کو رقوم کی غیرقانونی منتقلی کے معاملے پر موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وائٹ کالرکرائم کے ذریعے ہر سال ایک کھرب ڈالرکی منتقلی کی جاتی ہے، 20 سے 40 ارب ڈالرکرپٹ وائٹ کالر جرائم کرنے والوں کے ذریعے رشوت کی صورت میں وصول کیے جاتے ہیں جب کہ 7 کھرب ڈالر کی رقم محفوظ پناہ گاہوں میں رکھی جاتی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال پانچ سے چھ سو ارب ڈالرکی ٹیکس چوری کرتی ہیں۔

عالمی برادری کو رقوم کی غیرقانونی منتقلی کے معاملے پر موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔غریب اور ترقی پذیر ملکوں سے لوٹی گئی رقوم کو فوری واپس کیا جائے۔

گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کی سائیڈ لائنز پر اعلیٰ سطح پینل سے مالیاتی احتساب اور شفافیت سے متعلق ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ’’ہماری حکومت کو کرپشن کے خاتمے کا مینڈیٹ ملا ہے۔‘‘

وزیراعظم نے بلاشبہ عالمی اقتصادی اور سماجی نظام پر بالادست طاقتوں کے استحصال، چیرہ دستی اور مفاد پرستی پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے ایک دردمندانہ اپیل کی ہے ، اس اپیل میں غربت اور امارت کے درمیان دولت کی ریل پیل اور غریب وترقی پذیر ملکوں میں لوٹ مار اور مالیاتی بے انصافی اور عدم مساوات کا نوحہ بیان کیا ہے۔

اس نوآٓبادیاتی لوٹ کھسوٹ کو روک کر غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو ان کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے ایک منصفانہ میکنزم اور معاشی انصاف کی طرف توجہ دلائی ہے، لیکن بادی النظر میں یہ امیر ملکوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی کوشش ہے جس نے دنیا کے معاشی نظام کو ظالمانہ اور غربت و امیری کی ستیزہ کاری کا ایندھن بنالیا ہے جس میں غریب ملک امیر ملکوں کے مستقل گٹھ جوڑ میں پستے رہتے ہیں انھیں عالمی اقتصادی نظام معاونت، کثیر جہتی معاشی انصاف اور شفاف اقتصادی سسٹم سے فیضیاب نہیں ہونے دیتا، غریب ملکوں کے وسائل لوٹ کر لے جاتا ہے، جس کا وزیراعظم نے اپنے بیان میں صائب اور بجا طور پر شکوہ کیا ہے۔

وزیراعظم نے وائٹ کالرکرائم کے خاتمے کے لیے 9 تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پہلی تجویز ہے کہ ترقی پذیر ممالک سے چوری کیے گئے اثاثوں،رشوت اور جرائم سے حاصل کی جانے والی رقم فوری طور پر واپس کی جائے اور ایسے ممالک جہاں جرائم اورکرپشن کی رقم محفوظ کی گئی ہے وہاں کے حکام اپنے مالیاتی اداروں کے خلاف کارروائی کریں،کرپشن اور رشوت میں سہولت فراہم کرنے والوں کی کڑی نگرانی اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی کمپنیوں کے ’’بینیفیشیل اونرشپ‘‘ سے متاثرہ اور دلچسپی رکھنے والی حکومتوں کو فوری طور پر آگاہ کیا جائے۔

انھوں نے تجویز دی کہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو ٹیکس سے بچنے کے لیے ٹیکس چوروں کی جنت میں جانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ رقوم کی ڈیجیٹل منتقلی پر ٹیکس وہاں وصول کیا جائے جہاں سے یہ ریونیو حاصل ہوتا ہے۔ غیر منصفانہ سرمایہ کاری معاہدوں کو منصفانہ بنانا ہو گا اور سرمایہ کاری معاہدوں کے تصفیئے کے حوالے سے شفاف نظام وضع کرنا ہو گا۔ غیر قانونی طور پر رقوم کی منتقلی پرکنٹرول اور اس کی نگرانی کے لیے تمام سرکاری و غیر سرکاری باڈیز میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کو شامل کیا جائے۔

اقوام متحدہ کو رقوم کی غیر قانونی منتقلی سے متعلقہ مختلف سرکاری و غیر سرکاری باڈیزکے کام کو مربوط بنانے اور اس کی نگرانی کے لیے میکنزم وضع کرنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے قیمتی وسائل کو محفوظ بنانے کی اہمیت اس لحاظ سے دوچند ہو گئی ہے کیونکہ وہ کورونا وبا کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔

دریںاثنا  جمعرات کو وزیراعظم نے ترسیلات زر اورزرمبادلہ کے ملکی ذخائر میں اضافے کے حوالے سے اجلاس کے دوران ہدایت کی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کے بہتر مواقعے فراہم کرنے اور ترسیلات زر کے حوالے سے ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جائے اور اس ضمن میں مراعات دی جائیں۔

وزیرِ اعظم نے کہا کہ ملکی معیشت کے استحکام اور بہتری کے لیے برآمدات ،درآمدی بدل (امپورٹ سبسٹی ٹیوشن) غیر ملکی سرمایہ کاری، ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے لہذا حکومت اس طرف خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

دنیا کے سنگین مالیاتی بحران، یک طرفہ تجارتی اعلانات،معاہدوں اور ٹیرف پر سختی سے عملدرآمد کے عندیے ترقی پذیر ممالک کے لیے سوہان روح بنے ہوئے ہیں، امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ عالمی خطرات اور ہولناک مسابقت سے لرز رہی ہے، وزیراعظم کا بیانیہ عالمی معروضی مالیاتی نظام  میں توازن کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان کا استدلال یہ ہے کہ امیر ملکوں کے فیصلہ سازدولت مند ،صنعتی  ٹائیکون،سرمایہ دار گروپس جائزہ لیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جگہ جگہ لوٹ مار اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، اربوں کا سرمایہ مقامی مارکیٹوں سے اپنے صدر دفاتر میں منتقل کررہی ہیں انھیں اس چیرہ دستی سے روکا جائے اور امیر ملک ایسے پیسے کی آزادانہ منتقلی پر پوچھ گچھ اور احتساب کا نظام وضع کریں، ترقی پذیر ملکوں کو ان کی لوٹی گئی دولت کی واپسی کو یقینی بنائیں۔

یہ انداز نظر بلاشبہ غربت کے خاتمہ میں ان ملکوں کو مدد دے گا اور امیری وغریبی کے فرق کی جس دیوار کی بلندی سے وزیراعظم ترقی یافتہ ملکوں کو آگاہ کررہے ہیں وہ گر بھی سکتی ہے تاہم وہ ممالک یہ بھی معلوم کریں کہ یہ دولت شفاف بھی ہے یا نہیں۔ لیکن وزیراعظم سمیت ہمارے معاشی مسیحا سوچنے کا یہ زاویہ بھی پیش نظر رکھیں کہ ترقی پذیر ملکوں کے سرمایہ دار، صنعت کار اور دولتمند طبقات اپنی دولت بیرون ملک کیوں لے جاتے ہیں، کیا انھیں اپنے ملک کے معاشی نظام پر اعتبار نہیں، انھیں عدم تحفظ کا احساس کیوں ہے۔

فطری امر ہے کہ جب سرمایہ دار غیر محفوظ ہوگا تو وہ کیوں ایسے ملک میں انڈسٹری لگائے گا جہاں حکومت اسے مراعات اور سہولتیں دینے کے بجائے اس کے لیے صنعت لگانا عذاب بنا دے، ان کی اربوں کی دولت امن، تحفظ کی ضمانت چاہتی ہے لیکن زمینی حقائق سے سب واقف ہیں کہ ملک میں انڈسٹریلائزیشن نہیں ہورہی ،کاروبار ٹھپ پڑا ہے، برآمدی شعبہ انحطاط پذیر اور درآمدات کا سیلاب آیا ہوا ہے، سرمایہ ملک سے باہر جارہا ہے۔

ہمارا ٹیکس سسٹم جابرانہ اور آزادانہ تجارتی گروتھ کی راہ میں رکاوٹ ہے، ایک ٹیکس افسر کروڑ پتی سرمایہ کار اور تاجرکو ٹیکس کی تفتیش کے نام پر مجبورکرتا ہے کہ وہ اس سے مک مکا کرلے،ورنہ اس کے لیے کاروبار کرنا مشکل ہوجائیگا، ون ونڈو کلچرکا نام ونشان نہیں، ابھی حال ہی میں بلدیہ فیکٹری کے سانحہ پر عدالتی فیصلہ دیکھ لیں، اس فیکٹری کی مالکان ملک سے نکل گئے، عدالت کے سامنے گواہی کے لیے نہیں آئے، یہ وہ سوالات اور اسباب ہیں جس کے باعث ملک میں کاروباری لوگ ایک ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

وزیراعظم کے نقطہ نظر اور ان کے استدلال اور اپیل کی منطق سو فی صد درست ہوگی مگر ملکی کاروبار ، تجارت پر ٹیکس سسٹم کے اطلاق اور سرمایہ کاری کے امکانات کے حوالے سے بہت سارے سوالات ابھی جواب طلب ہیں، وزیراعظم عالمی سطح پر اپنے استدلال سے عالمی ضمیر اور ترقی یافتہ ایلیٹ کو سوچنے کی دعوت دے سکتے ہیں لیکن دولت مند ملکوں سے اپنی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے ترقی پذیر ملکوں کو اپنے اقتصادی اور معاشی و مالیاتی نظام کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

کسے نہیں معلوم کہ پاکستان سمیت افریقی ملکوں میں معیشت کوکرپشن کے ناسور نے کس قدر تباہی سے دوچارکردیا ہے، وہ ممالک جو خود کرپشن کی دلدل میں کمر کمر تک پھنسے ہوئے ہیں وہ کیسے ترقی یافتہ ملکوں سے شکایت کرسکتے ہیں کہ ان کے مالیاتی،صنعتی اور تاجرانہ نظام نے انھیں کنگال کردیا ہے۔

ان کے وسائل لوٹے جارہے ہیں جب کہ ان کی اپنی معیشت شفافیت کو ترس رہی ہیں۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان برپا ہے،ابھی تک ہماری حکومت ٹیکس اصلاحات کا ٹاسک مکمل نہیں کرسکی ،کراچی ڈوبا توکوئی مقامی حکومت اسے بچا نہیں سکی، ملک میں بجلی وگیس کی قلت ہے، قبائلی علاقوں ، بلوچستان ،سندھ اور جنوبی پنجاب میں صنعتی زونزناپید ہیں،کاروباری طبقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے،کیا کسی قسم کی پرکشش مراعات سرمایہ کاروں کے لیے دستیاب ہیں؟ کئی شعبے پالیسی گائیڈ لائن سے محروم ہیں۔

نیب سے کون سا صنعتکار،تاجر،یا سرمایہ کار خوش ہے،سب سہمے ہوئے ہیں،کسی بھی تاجرکو پکڑکر 90 دن کے لیے بند کرنا مشکل نہیں ، سیکڑوں سیاسی وکاروباری ادارے اور شخصیات  مقدمات بھگت رہے ہیں، کرپشن کے کئی ہائی پروفائل کیسز کی بات الگ ہیں، حکومت کے پاس احتساب کا مینڈیٹ ہے، مگر احتساب شفاف،across the board ہو تو بات بنے، حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کے لیے ’’زوروکا زہریلا چابک‘‘ تھام رکھا ہے جو حکومتی افراد ہیں۔

ان کے کیسز پر ایک خاموشی چھائی ہوئی ہے،کئی اہم کیسز ہیں،کچھوے کی چال چل رہے ہیں، اس امتیازی احتسابی حکمت عملی نے احتساب کو بے اعتبارکیا ہے، عدالت عظمیٰ نے نیب کو سخت گیری اور کاروباری طبقہ کو پریشان رکھنے پر سرزنش کی۔

ادھر پی ٹی آئی حکومت کے ذمے داروں کوکئی بار دبئی، سوئٹزرلینڈ، انگینڈ،اسپین اور امریکا سے اربوں روپے کی لوٹی گئی دولت کی واپسی کے دعوے کرتے دیکھا گیا مگر پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے لوٹی گئی دولت خود ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور معاشی مسیحا بھی واپس نہ لاسکے۔

جب اپنے ہی ’’ ہرکولیس ‘‘بے دست وپا رہے تو دوسروں سے کیا گلہ اورکیسی توقع کہ وہ’’ لٹ دا مال‘‘ آپ کے حوالے کریں گے، بہر حال وزیراعظم کی  نیت اور درخواست صائب ہے مگر سامنے عفریت نما ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان کے جبڑوں سے لوٹی دولت کی واپسی کے لیے وزیراعظم آواز بلند کررہے ہیں ۔خدا کرے دولت مند ملکوں کے ضمیر میں کچھ خلش پیدا ہو ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔