تحریک

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 26 ستمبر 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

برسوں کی تیاری کے بعد آخرکار ہماری اپوزیشن نے تحریک کی ابتدا کر ہی دی۔ اقتدار سے دور رہنا کس قدر تکلیف دہ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس عوامی تحریک میں کتنے عوام شرکت کرتے ہیں۔

ایلیٹ کی تحریکوں میں عام طور پر ’’پیڈ‘‘ عوام یا خاص ’’ٹرینڈ عوام‘‘ ہی شرکت کرتے ہیں اور خصوصی پیڈ عوام اور کارکن جس تحریک میں شامل ہوتے ہیں وہ بہت جلد ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتی ہے۔ ہاں البتہ عوام یعنی مدرسوں کے طلبا کی ایک قابل ذکر تعداد مولانا کی مہربانی سے اس تحریک میں پیش پیش رہ سکتی ہے اور یہ طلبا یا کارکن وہی کرتے ہیں جس کا سبق ان کو پڑھایا جاتا ہے۔

عام آدمی بلاشبہ مہنگائی سے پریشان ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ آٹا، چینی کی طرح یہ مہنگائی بھی آئی ہوئی نہیں بلکہ لائی ہوئی ہے اور اس حقیقت سے عوام واقف ہیں جس کا مقصد مڈل کلاس کی حکومت کو گرانا ہے۔ اس تحریک میں جہاں تک عوام کی شرکت کا تعلق ہے وہ دور سے دیکھ کر مزے لیتے رہیں گے کیونکہ ایک مڈل کلاس پارٹی کی قیادت میں جو حکومت برسر اقتدار ہے وہ عوام کی ترقی اور بہتری کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن مڈل کلاس حکومت کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے کام کی پبلسٹی کرنا نہیں چاہتی۔

قارئین مڈل کلاس حکومت کی حمایت پر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی جماعت کی حمایت کی جا رہی ہے لیکن اس حمایت سے شاہوں، شہزادوں، شہزادیوں کی اپوزیشن کے سینوں پر سانپ لوٹ جائیں گے لیکن جو لوگ ہمیشہ عوام کی حمایت یا مخالفت نظریاتی حوالوں سے کرتے ہیں وہ نفع نقصان کی پروا کرتے ہیں نہ دولت کی ریل پیل کی۔ ان کی نظروں میں ہمیشہ عوامی مفاد اور عوام کی بہتری ہوتی ہے کیونکہ ہماری عوام  اشرافیہ کے پنجوں میں پھنسی سسک رہی ہے۔

دس سال کا عرصہ بہت زیادہ نہیں ہوتا، دس بارہ سال پہلے کی لوٹ مار کو عوام ہرگز نہیں بھول سکتے اور لوٹ مار بھی ایسی کہ اربوں روپے ادھر سے ادھر ہوگئے۔ آج وہی ارب پتی ٹولے ’’عوام کے حقوق‘‘ کی تحریک چلا رہے ہیں۔ عوام بے چارے حیران ہیں کہ ایلیٹ کلاس کو اچانک عوام کی ہمدردی کا دورہ کیسے پڑگیا۔ عوام کو غلام سمجھنے والوں کو عوام کبھی نہیں بھلا سکتے۔

آج عوام جس بدحالی کا شکار ہیں اس کی سو فیصد ذمے داری ان  لوٹ مار کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے جو آج عوام کی ہمدردی میں سڑکوں پر آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پچھلی تحریک میں بھی عوام شریک نہ تھے اور اس نئی تحریک میں بھی عوام کی شرکت خواب است و خیال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی۔ ہماری اپوزیشن ان حقائق سے غالباً واقف ہے۔

تحریکوں کے لیے ایسے جینوئن مسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام میں بے چینی اور اشتعال پیدا کر رہے ہوں۔ ملک میں سوائے اپوزیشن کے تیز مرچی مسالے والے بیانات کے کوئی ایسی ہنگامی صورت حال نہیں جو تحریکوں کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ کیا ملک میں طوفان آ گیا ہے کیا ملک میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں عوام میں اشتعال ہے؟

کون سی وجہ ہے کہ اقتدار سے دور کلاس کو تحریک چلانے پر مجبورکر رہی ہے کہ اقتدار کی خواہش نے اپوزیشن کو بے چین کر رکھا ہے اگر اس کا بس چلے تو ’’پیڈوں‘‘ کا ایک قافلہ لے کر ایوان وزیر اعظم پہنچ جائے اور وزیر اعظم کو باہر نکال کر وزیر اعظم ہاؤس میں گھس جائے لیکن افسوس کہیں ایسا ممکن نہیں۔

اگر اپوزیشن عوام کی ہمدرد ہوتی تو بلاشبہ مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر آتی، اس کے علاوہ ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے عوام عشروں سے چمٹی ہوئی کرپشن سے بہت پریشان ہیں جسے عمران حکومت بھی ختم یا کم نہیں کرسکی۔ اگر اپوزیشن کرپشن یعنی ایلیٹ کی کرپشن کے خلاف تحریک چلاتی تو عوام ایسی کسی بھی تحریک میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن مہنگائی اور کرپشن کے خلاف تحریک کیوں نہیں چلاتی اور نان ایشوز پر عوام کو باہر لانے کی ناکام کوشش کیوں کر رہی ہے۔

مہنگائی اور کرپشن ایلیٹ کے مسائل نہیں ہیں۔ کرپشن کے خلاف اپوزیشن اس لیے سڑکوں پر نہیں آتی کہ کرپشن کے الزامات کا وہ خود سامنا کر رہی ہے، پھر بھلا وہ اپنے پیارے ایشو پر تحریک کیوں چلائے گی؟

کشمیر میں بھارت کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اپوزیشن کو اگر کشمیری عوام سے دلچسپی ہوتی تو وہ یقینا ملک بھر میں مظاہرے کرتی احتجاج کرتی اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے وفود بھیجتی کہ وہ دنیا کو کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم سے آگاہ کرتے لیکن وہ ان اہم قومی مسائل پر ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے تو عوام اس کا مطلب کیا لیں گے؟

ہماری نام نہاد جمہوریت کو اپوزیشن نے خاندانی حکمرانی میں بدل دیا ہے۔ کیا ہماری اپوزیشن خاندانی حکمرانی کے خلاف کوئی بڑی تحریک چلا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ اپوزیشن نے ملک میں خود خاندانی حکمرانی کو روشناس کرایا ہے، اگر خاندانی حکمرانی اور خاندانی سیاست کو ختم کردیا جائے تو اپوزیشن کی سیاست کمزور پڑ جائے گی۔

مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کی آخری امید ہیں لیکن تحریکیں صرف دینی مدرسوں اور کارکنوں سے نہیں چلتیں بلکہ وہ تحریکیں کامیاب ہوتی ہیں جن میں حالات سے تنگ آئے ہوئے عوام شریک ہوتے ہیں اور کوڑے کھانے، جانیں دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ کیا ہماری ایلیٹ اپوزیشن کے پاس ایسی قربانیاں دینے والے کارکن یا عوام موجود ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔