روڈ ٹو سوات اور سرنگیں

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 26 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

سچ کہتے ہیں اور ہمہ اقسام کے بزرگوں اور دانا دانشوروں کا اس پر اتفاق ہے کہ حرکت میں برکت ہے، لیٹے ہوئے شیر سے چلتا ہوا گیدڑ اچھا۔ جاؤ گے تو کچھ پاؤ گے، بہتا پانی ٹھہرے ہوئے پانی سے اچھا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ:

جانتاہوں ثواب’’چل چلا چل‘‘

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

اب ہم کہہ نہیں سکتے کہ یہ کوئی عجیب بیماری ہے یا کچھ اور۔ لیکن اپنی طبیعت چلنے پھرنے یا ہلنے جلنے سے زیادہ بیٹھنے لیٹنے اور ٹھہرنے کی طرف مائل ہرگز نہیں شاید ہم ’’وجودی صوفی‘‘ ہیں جن کا نظریہ ’’مائل بہ سکون‘‘ ہوتا ہے جب کہ شہودی فلسفہ مائل بہ حرکت یا جوش ہے۔

اور پھر آج کل تو دنیا کی ہر سطح پر ’’ورزش‘‘ کا بول بھی بہت بالا ہے، ڈاکٹروں، دانا دانشوروں اور اساتذہ کو تو چھوڑیے اگر سرراہ بھی کوئی ملے تو ورزش کیا کرو، ورزش۔ اگر دکاندار سے ایک ماچس بھی کوئی خریدو تو وہ بھی ماچس کے ساتھ یہ تلقین مفت پکڑا دیتا ہے کہ میاں یہ لو ماچس۔ ورزش کیا کرو۔ دن بھر لیٹا، بیٹھا ہوا مالک بھی دن بھر مزدوری کرنے والوں سے یہی کہتا ہوا نظر آئے گا۔

ورزش کیا کرو۔ ورزش اچھی چیز ہے۔ یوں کہیے کہ ورزش کے معاملے میں دنیا عمر خان بابا ہو گئی ہے۔ عمر خان بابا نے گنے کی تجارت میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا تھا کھیت کلیان گھر بار سب کچھ ہارنے کے بعد اس کے دماغ میں کچھ دھماکے وغیرہ ہوئے۔

جب بھی کوئی اپنا قرضہ مانگتا عمرخان باباکہتا کم بختو عبادت کرو عبادت،کبھی کبھی کسی راہ چلتی گائے بھینس سے بھی کہہ دیتا، عبادت کرو عبادت، امام مسجد کو بھی یہی تلقین کرتا۔اگرچہ ورزش کے معاملے میں ساری دنیا ہماری مخالفت پرکمربستہ ہے لیکن ہمارے پاس بھی ایک بڑے سے دانا دانشور کا یہ بڑا سا قول زریں موجود ہے کہ گھوڑا تیزچلتا ہے تو اس کی عمر دس بیس سال تک بمشکل چلتی ہے جب کہ سانپ جو ہمیشہ لیٹا رہتا ہے بلکہ چلتا بھی ہے تو لیٹ ہو کر چلتا ہے۔ یوں لیٹے لیٹے ذرا بھی ورزش کیے بغیر اس کی عمر لیڈروں سے بھی لمبی ہوتی ہے اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ

گولی بغیر مر نہ سکا لیڈر اے اسدؔ

بچپن میں وہ پیے ہوئے بلی کا دودھ تھا

بلکہ ہم نے تو یہاں سنا ہے کہ سانپ کی عمر ہزاروں سال تک پہنچ جاتی ہے پھر وہ اچانک دھاری (اپنی مرضی کا روپ) ہو جاتا ہے چنانچہ اپنی روح کسی لیڈر میں گھسا کر خود کو کیفرکردار تک پہنچا دیتا ہے واللہ اعلم۔ لیکن اس یکتا و تنہا قول زریں کی مدد اور تائید کے لیے خدا کے فضل سے ’’کورونا‘‘ نام کی کمک پہنچ گئی اور اس نے ورزش مرزش چلت پھرت بلکہ ہلنے جُلنے تک انسان کو ’’از خود پابندی‘‘ پر مجبور کر دیا۔کورونا عرف کوئڈ نائنٹین تیرا شکریہ۔ ہمارے قول زریں کی عملی مدد کرنے کا۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ دنیا میں ایک سے ایک بڑھ کر ’’زور آور‘‘ پایا جاتا ہے چنانچہ ایک ’’زور آور‘‘ نے ہمیں بھی اپنے ’’ازخود قرنطینہ‘‘ سے کھینچ کر سوات پہنچا دیا۔

ہمیں ایک کالج میں ’’حماقت کے فوائد‘‘ پر لکچر دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ جاتے ہوئے ہم معروف راستے سے جب دیر سے بھی زیادہ دیر کر چکے تو وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ موٹروے سے کیوں نہیں آئے اور پھر موٹروے کی اتنی تعریف کی کہ اگر ہم نہ بھی مڑتے تو ہماری گاڑی اپنے ٹائر ادھر کر لیتی۔ اور یہی وہ وقت تھا جب ہمارے اندر انقلاب عظیم رونما ہو گیا، سب سے پہلے وہ تمام عقائد ونظریات مسمار ہو گئے جو ہمارے ورزش چلت پھرت اور حرکت کے بارے میں تھے ہم نے مان لیا کہ بزرگ سچے تھے ہم غلط تھے۔

واقعی حرکت میں برکت ہے، جاؤگے تو کچھ پاؤ گے، لیٹے ہوئے شیر سے چلتا ہوا گیدڑ اچھا۔ ٹھہرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے۔ اگرہم حرکت کرکے سوات نہ آتے تو یہ روڈ ٹو سوات بھی نہ دیکھ پاتے اور اسے دیکھ کر موجودہ انصاف دار حکومت کے بارے میں ہمارا نظریہ بدلتا۔جو بیک وقت تبدیلی والی،نیا پاکستان والی، ریاست مدینہ والی اور وژن والی۔ حکومت بھی ہے لیکن ہم بھی نادان تھے جو اتنی اچھی حکومت کے ’’منفی تنقیدیے‘‘ تھے نظریات میں یہ انقلاب سوات موٹروے پر چکدرہ سے شروع ہوکر پہلی ’’سرنگ‘‘ کے آنے تک مکمل ہو چکا تھا۔

اتنی لمبی اتنی خوبصورت اور اتنی فراخ سرنگ دیکھ کر جی خوش ہو گیا اور ہمیں افغانستان کی وہ سرنگیں یاد آئیں جو شمالی افغانستان کی برف پوش سڑک پر روسیوں نے بنائی تھیں اور افغانستان والے ان کو اپنی زبان میں ’’سالنگونہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن وہ سرنگیں اتنی خوبصورت بھی نہیں اور صحیح معنی میں سرنگیں ہیں بھی نہیں بلکہ صرف برف روکنے کے لیے سڑک پر ’’دالانیں‘‘ سی بنائی گئی ہیں لیکن یہ سرنگیں اتنی خوبصورت ہیں کہ جی چاہنے لگا کہ بار بار مڑ مڑ کر ان سرنگوں سے بلکہ سرنگ سے گزرا جائے کیونکہ فی الحال ایک ہی سرنگ عوام کے لیے کھولی گئی ہے باقی زیر تعمیر ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ جب دل میں کسی کے بارے میں ’’نرم گوشہ‘‘ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ بڑھنے لگتا ہے چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں انصاف دار حکومت کے بارے میں ہم ’’طرف دار‘‘ہو چکے تھے۔

اور پھر خاص طور پہر سوات گلونہ جناب مراد سعید اور محمود خان کے بارے میں تو ہماری کایا پلٹ چکی ہے کہ سنا ہے یہ سوات موٹروے ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ بلکہ شاہکار نتیجہ ہے۔ اور اسی طرف داری کے جذبے سے سرشار ہو کر ہم یہ تجویز حکومت کو دے رہے ہیں کہ ان دونوں حضرات کا نام اس روڈ ٹو سوات سے منسوب ہو جانا چاہیے۔

پوری روڈ تو وژن کے نام سے مشہور ہو ہی جائے گی پہلے والی نواز شریف موٹروے کی طرح۔ لیکن ہمارے ان دو ’’سوات گلونہ‘‘ کا کیا؟ اور اس لیے ہم نہایت ہی کم خرچ اور بالا نشین تجویز حکومت اور عوام کو دے رہے ہیں کہ کم ازکم ان خوبصورت سرنگوں کو تو ان کے نام سے منسوب کیا جائے پہلی سرنگ جو ہم دیکھ کر آئے ہیں اس لیے ہمارے پاس مراد سعید سرنگ کا نام ہے۔ جو اس پر موٹے حروف میں لکھاجانا چاہیے زیر تعمیر سرنگوں میں ایک دو کو جناب محمود خان کے نام سے موسوم کیا جائے اور باقی کا جو چاہیے نام رکھ لیجیے۔ اس طرح ہم پر سے یہ الزام بھی ہٹ جائے گا کہ ہم مردہ پرست ہیں اور کسی کومرنے کے بعد یاد کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔