جی ایس پی پلس سٹیٹس سے فائدہ اٹھانے کیلئے انڈسٹری کو بلا تعطل بجلی، گیس فراہم کی جائے

شہزاد امجد  جمعرات 19 دسمبر 2013
ایکسپریس فورم میں بزنس کمیونٹی کے رہنماؤں اور اقتصادی ماہرین کا اظہار خیال۔  فوٹو : فائل

ایکسپریس فورم میں بزنس کمیونٹی کے رہنماؤں اور اقتصادی ماہرین کا اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو جی ایس پی پلس (Generalised System of Preferences Plus) کا سٹیٹس دے دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے یورپی یونین کے 27 ممالک تک ہماری مصنوعات کو ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہوجائے گی جو کہ جنوری 2014ء سے لاگو ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے پاکستانی برآمدات میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کے قریب اضافہ ہوگا۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس جہاں ہمارے لیے ایکسپورٹ میں اضافے کا ایک بہترین موقع ہے وہاں یہ ایک چیلنج بھی ہے کہ کیا ہم اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار ہے ؟ اس سلسلے میں حکومت اور نجی شعبے پرکیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس کیلئے انہیں کیا اقدامات کرنے چاہیئں؟ اقتصادی ماہرین کے مطابق جی ایس پی پلس سٹیٹس سے فائدہ اٹھانے کیلئے حکومت کو اپنی ترجیحات کا ازسر نو تعین کرتے ہوئے انڈسٹری کو بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنا ناہوگی۔

جی ایس پی پلس سٹیٹس کے بعد برآمدی آرڈرز پورے کرنے کیلئے 50 ہزار نئی مشینوں کی انسٹالیشن سمیت 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ گارمنٹس مینو فیکچررزکی پیداواری صلاحیت 70 فیصد بڑھانا ہوگی۔ تھائی لینڈ، چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے پاکستان میں گارمنٹس کی درآمد پر پابندی لگانا ہوگی۔کپاس کی پیداوار بڑھانا ہوگی۔ حکومت کو زراعت کی ترقی کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ تین سال میں میکرو سطح پر زرعی پیداوار 40 فیصد تک بڑھانا ہوگی۔ اس حوالے سے’’ایکسپریس ‘‘ نے ایک فورم کا انعقاد کیا جس میں ماہرین اقتصادیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

میاں انجم نثار (سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

جی پی ایس پلس کے حصول کے لئے درخواست سابق حکومت نے دی تھی مگر موجودہ حکومت اور خاص کر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی خصوصی کوششوں اور ڈاکٹر سجاد کریم جوکہ یورپی پارلیمنٹ کے رکن ہیں، انہوں نے اس حوالے سے لابنگ کی تو یہ کیس کمیٹی سے پاس ہوا اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے یہ درجہ دینے کی منظوری دی گئی۔ مگر توانائی بحران کی وجہ سے ہم اس سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔

پہلے تو صرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی مگر اب گیس بھی بند ہے۔ دوسری طرف دوسال سے سیلز ٹیکس ر یفنڈز بھی نہیں دیئے گئے۔ ان حالات میں نئی سرمایہ کاری بھی نہیں آسکتی۔ حکومت کو ان سب مسائل کی طرف ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینا چاہیئے۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس ملنے سے بہت عرصے کے بعد پاکستان کو ایک اچھی خبر ملی ہے بری خبریں تو ہر طرف سے آتی رہتی ہیں۔ اس وقت صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ دیگر 9 ممالک کو بھی یہ درجہ دیا گیا ہے اس سے پہلے 50 ممالک کو یہ درجہ حاصل تھا اب کل 60 ممالک کو حاصل ہوگیا ہے۔ دنیا کے 190 ممالک میں سے اگر 60 ممالک کو یہ درجہ دیا گیا ہے تو ان میں کچھ خاص بات ہے۔ اب اگر یہ درجہ ملا ہے تو یہ فری میں جاری نہیں رہے گا بلکہ تمام آرڈرز کی شپمنٹس بروقت پہنچانا ہوں گی مگر ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ ہمارا ملک توانائی کے شدید بحران میں گھرا ہوا ہے۔

گیس دو ماہ کیلئے بند کر دی گئی ہے، خاص کر پنجاب میں انرجی بحران سب سے زیادہ ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اب بھی جاری ہے۔ ہمیں اداروں کی سطح پر اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر نے دوسال سے کوئی سیلزٹیکس ریفنڈ نہیں دیا۔ ٹیکس ریفنڈ کاروباری حضرات کا حق ہوتا ہے مگر اس پر افسران اپنا ’’مارک اپ‘‘ چارج کرتے ہیں۔ ان حالات میں جب ہم مارکیٹ میں جائیں گے تو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ایسے حالات بنانا چاہیئں کہ ہم اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ یورپی یونین میں شامل 50 یورپی ممالک نے ہمیں یہ درجہ دیا ہے اس لئے ملک میں بہت سی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے رویے اور سسٹم کو بدل کر مقامی اور غیر ملکی انویسٹرز کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہم امپورٹ زیادہ کرتے ہیں اور ایکسپورٹ کم کرتے ہیں۔ یہ 4 سے 5 ارب ڈالر کا فرق ہے جسے ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ڈالر اس وقت 107 روپے سے زائد میں مل رہا ہے اس کی قیمت بھی کم ہونی چاہیئے۔ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ بڑھانا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے مگر اس کیلئے حکومت کی کمٹمنٹ انتہائی ضروری ہے۔ یورپی یونین نے ترقی پذیر ممالک کو یہ درجہ دیا ہے تاکہ ان کا کردار بڑھے۔ ہمارے ہاں تاثر یہ ہے کہ جی ایس پی پلس ملنے سے صرف ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ بڑھے گی مگر حقیقت میں ٹیکسٹائل کی آئٹمز صرف 20 فیصد ہیں ، باقی دیگر آئٹمز ہیں جن میں لیدر، گارمنٹس اور یہاں تک کہ فوڈآئٹمز بھی ہیں۔

جن ممالک کو یہ درجہ دیا گیا ہے ان کو 27 کنونشن بھی دیئے گئے ہیں جن میں سول رائٹس، پولیٹیکل رائٹس، چائیلڈ لیبر، لیبر رائٹس، ہومین رائٹس، ماحولیات، نارکوٹکس اور کرپشن سمیت دیگرکنونشز ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہوگا اور اس طرح ہم واچ لسٹ پر آگئے ہیں اور ہمیں ان تمام ایشوز کودیکھنا ہوگا۔ سری لنکا کے پاس یہ درجہ بہت پہلے موجود تھا مگر تامل ٹائیگرز کے ساتھ لڑائی کے دوران یہ واپس لے لیا گیا تھا اب دوبارہ دیا گیا ہے۔ یہ درجہ ملنے سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کو پورا کرنے کیلئے رولز اینڈ ریگولیشنز پر عمل کرنا ہوگا۔ اب ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ یہ درجہ ہمیں مل گیا اور سکون سے بیٹھ جائیں بلکہ آگے بڑھ کر اس کی ضروریات اورتقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہے اور اسے آگے بڑھانا ہے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انرجی بحران کے حل اور زراعت کی بہتری کیلئے کام کرے۔

انجینئراکبر شیخ (سابق چیئرمین(اپٹما) پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن)

ٹیکسٹائل کی عالمی تجارت کا حجم 800 ارب ڈالر ہے اور پاکستان دنیا کی 8 فیصد کاٹن پیداکرتا ہے۔ اس طرح ٹیکسٹائل کی عالمی مارکیٹ میں ہمارا حصہ 64 ارب ڈالر ہونا چاہیئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اگردرست منصوبہ بندی کی جاتی اور حکومت اپنے اعلان کردہ وژنز پر عمل کرتی تو اس وقت ہماری ایکسپورٹ 64 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی تھی۔ آئندہ پانچ برس میں ہم اسے 25 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔ برآمدات و درآمدات میں واضح فرق اورتجارتی خسارے کی وجہ سے ہم 5 ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ہم آئی ایم ایف پر الزام نہیں لگا سکتے اس لیے ہمیں اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی۔ وہ بینک ہے اور بینک اپنی شرائط پر قرض فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کرنا ہوگا۔ جی ایس پی پلس کی ایک فیصد کی حد بڑھا کر 2 فیصد کی گئی ہے اب ہمار ے پاس 30 فیصد اضافے کی گنجائش ہے۔ یورپ میں ہماری ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ 4 ارب ڈالر ہے اور اس طرح اب ہم اس میں ایک ارب تیس کروڑ ڈالر تک کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں دھاگے کی بجائے گارمنٹس کی ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی۔ ہماری زرعی آوٹ پٹس انتہائی کم ہیں، جی ڈی پی کی گروتھ انڈسٹری سے ملے گی۔ اس لیے انڈسٹری کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس کے بعد برآمدی آرڈرز پورے کرنے کیلئے 50 ہزار نئی مشینوں کی انسٹالیشن سمیت 100 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ جس میں سے 50 ارب روپے کی مشینری اور پچاس ارب روپے کا ورکنگ کیپیٹل شامل ہے۔

ہمیں گارمنٹس مینو فیکچررزکی پیداواری صلاحیت 70 فیصد بڑھانا ہوگی۔ اسی طرح فیبرک اور ڈائینگ کی کیپسٹی بھی بڑھانا ہوگی۔ ہنر مند افرادی قوت کے بغیر انڈسٹری کی ترقی ناممکن ہے اور ہمیں ہر انڈسٹری میں ہنر مند افرادی قوت کی ضرورت ہے، اسی صورت میں صنعتیں چل سکتی ہیں ۔ جس کیلئے حکومتی اور نجی سطح پر تربیتی پروگرامز شروع کرنا ہونگے اس کے لئے مسلسل اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ یوں ایک کھرب روپے لگا کر ہم جی ایس پی پلس سٹیس سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔

ان سب سے بڑھ کر انڈسٹری کو توانائی کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔ آج آٹھ گھنٹے انڈسٹری بند رہتی ہے۔گزشتہ برس 180 دن گیس ملی تھی، رواں برس حالات مزید ابتر ہوگئے اوراب کے سال 114 دن گیس ملی ہے۔ ایسے میں کس طرح انڈسٹری چل سکتی ہے۔ اس صورتحال میں ہمیں ایکسپورٹ میں کوئی اضافہ نظر نہیں آرہا۔ جن ممالک کو جی ایس پی پلس سٹیٹس ملا ہے ان میں سے پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس اس کی پوری چین موجود ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے مخلصانہ اور مربوط کوششیں کی جائیں۔

ڈاکٹر ابراہیم مغل (چیئرمین ایگری فورم پاکستان)

چند سال میں کپاس کی پیداوار میں 20 لاکھ گانٹھ کی کمی ہوئی ہے ایسے میں معاشی منصوبہ ساز مجھے بتائیں کی کس طرح ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے۔ حکومت زراعت کی ترقی کو اولین ترجیح بنائے۔ عالمی سطح پر 8 کروڑ ٹن کپاس پیدا ہوتی ہے جبکہ پاکستان 66 لاکھ ٹن کپاس پید ا کرتا ہے، ہماری فی ایکٹر پیداوار بھی دیگر ممالک سے کم ہے۔ تین سال میں میکرو سطح پر زرعی پیداوار 40 فیصد تک بڑھانا ہوگی۔ ہماری 25 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ میں زراعت کا حصہ 20 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

اس طرح حکومت اگر معیشت کی بحالی چاہتی ہے تو اسے پرائمر ی انڈسٹری یعنی زراعت کی ترقی پر توجہ دینا ہوگی اور اسی شعبے سے وابستہ لوگ معیشت کے صحیح سٹیک ہولڈرز ہیں۔ نائن الیون کے بعد عالمی طاقتوں نے پاکستانی معیشت کو کنٹرول کرنے کیلئے واٹر اینڈ انرجی کا فارمولہ اپنایا جس سے پاکستان میں پانی اور توانائی کا بحران پیدا کردیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس پانی ہے اور نہ ہی توانائی ہے۔ چالیس سال پہلے فی کس پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی سالانہ دستیاب تھا اور اب یہ ایک ہزار کی سطح پر آگیا ہے۔ اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور کالا باغ ڈیم نہ بنایا تو ہمارا حال قحط زدہ ملک ایتھوپیا سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ کالا باغ، داسو اور بونجی ڈیم آئندہ پانچ سال میںمکمل ہو سکتے ہیں جس سے توانائی اور زراعت دونوں کی پیداوار بڑھ جائے گی۔

جی ڈی پی گروتھ کیلئے ضروری ہے کہ میگا پراجیکٹس شروع، کاروباری سرگرمیوں کا فروغ ، قدرتی وسائل سے استفادہ، بنیادی ضروریات اور لاء اینڈ آرڈر پر توجہ دی جائے۔ ایس آر او کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔ جب کپاس کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے تو ٹیکسٹال کی ایکسپورٹ میں کس طرح اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی کل برآمدات میں زراعت کا حصہ سب سے زیادہ ہے اس لئے اگر ایکسپورٹ بڑھانا ہے تو زراعت کی ترقی اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔ ہم چالیس کروڑ ڈالر کی روئی ایکسپورٹ کر رہے ہیں، یہ کہاں کی دانشمندی ہے، اس کی بجائے فرنیشڈ گڈز کی ایکسپورٹ کی جائے۔ زراعت پرائمری انڈسٹری ہے اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی کمرشل قونصلرز قوم کے اربوں روپے پر عیاشی کر رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

انہیں ایکسپورٹ کے ٹارگٹ دیئے جائیں اور جو ہدف پورا نہ کرے اسے فارغ کردیا جائے۔ حکومت پاکستانی کسان کو بھارت کے برابر سستا ڈیزل، بیج، کھاد اور دیگر ان پٹس فراہم کرے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمجھ سے بالاتر اعدادو شمار پیش کرتے ہیں ملک مسائل کی دلدل میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے اور وزیر خزانہ کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ڈالر کی قیمت کم سطح پر لانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومتی وزراء اور صاحب اقتدار بیرون ملک سے اپنی دولت اور خفیہ سرمایہ کاری پاکستان واپس لا کر ایک مثال بنیں تاکہ دیگر محب وطن پاکستانی ان کی تقلید کریں۔ وزیر خزانہ دوسروں کو نصیحت کرنے کی بجائے خود بھی کوئی اچھی مثال قائم کریں ۔

عبدالباسط (سابق چیئرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن)

جی پی ایس پلس کی شکل میں پاکستان کو بڑے عرصے بعد ایک خوشخبری ملی ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کا ایک موقع ملا ہے اس سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب ہماری زراعت ترقی کرے گی اور زراعت کی ترقی کیلئے پانی کے وسائل کا ہونا بہت اہم ہے مگر پانی کے وسائل کی فراہمی کیلئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ 35 سال بعد گلیشیر پگھل جائیں گے اور کالا باغ ڈیم جس میں پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے اگر وہ نہ بنا تو ہماری زراعت تباہ ہوجائے گی۔

جی ایس پی پلس کا سٹیٹس ہمیں یکم جنوری 2014 سے 30 جون 2017ء تک ملا ہے۔ یہ سٹیٹس تو مل گیا مگر اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس سے بھرپور فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں کیسے ختم کی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم اس دوران یورپی ممالک کو اپنی ایکسپورٹ بڑھا سکے تو ہمارے قائدین اس دورانیے کو بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بجلی اور گیس کی کمی ہے۔ بجلی اور گیس صنعت کے لئے بنیادی ضرورتیں ہیں جب تک بجلی اور گیس کی کمی دور نہیں کی جائے گی ایکسپورٹ بڑھانے کی طرف پیش رفت ممکن نہیں ہے اس لئے بجلی و گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے فوری اقدامات شروع کردینے چاہئیں۔ جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بجلی اور گیس تو اہم ہیں ہی اس کے ساتھ ہی پانی بھی بہت اہم ہے۔

زراعت کیلئے پانی بنیادی ضرورت ہے، پانی ہوگا تو زراعت ہوگی۔ پاکستان میں صرف ٹیکسٹائل اور لیدر ہی نہیں دیگر صنعتیں بھی زراعت سے وابستہ ہیں اس لئے زراعت ہوگی تو صنعتوں کو ضرورت کے مطابق خام مال ملے گا اور صنعت ترقی کرے گی۔ پانی کی کمی کو پوراکرنے کیلئے ہمیں ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا ہوگا۔ پانی کے ذخائر نہ صرف زراعت کیلئے پانی فراہم کرتے ہیں بلکہ سستی بجلی کا بھی ذریعہ ہیں۔ پانی کے ذخائر کے حوالے سے بھاشا ڈیم کا لالی پاپ دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ وارننگ بھی دی جا رہی ہے کہ 35 سال میں گلیشیئر پگھل جائیں گے، اگر 15 سال میں بھاشا ڈیم بن بھی گیا تو اس کیلئے پانی کہاں سے آئے گا جبکہ دوسری طرف بارش کے پانی کو کالا باغ ڈیم میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور اس کی تعمیر بھی آسان ہے مگر اسے سیاست کی نظر کیا جا رہا ہے۔

وہ لوگ جنہیں عوام بری طرح مسترد کر چکے ہیں وہ ٹی وی شوز میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاشوں پر بنے گا، انہیں یہ نہیں پتہ کہ اگر کالا باغ ڈیم نہ بنا تو بھی ہم لاشوں میں ہی تبدیل ہوجائیں گے۔ عوام کی طرف سے مسترد کئے گئے ایک سیاست دان کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم بنانے کی سازش ایک دفعہ پھر شروع ہو گئی ہے۔کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ قومی اسمبلی میں ان کے پاس کتنی نشستیں ہیں اوروہ کس بنیاد پر عوام کی ترجمانی کرتے ہیں جبکہ عوام تو انہیں مستردکرچکے ہیں۔ ہم پانی کے ذخائر بنائیں گے تب ہی زراعت بڑھے گی۔ میں بھارت کے دورے پر گیا تو وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں تھی میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ہاں صرف جون، جولائی میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کیونکہ اس وقت چاول کی کاشت ہوتی ہے اور اس وقت زرعی شعبے کو بجلی دی جاتی ہے۔

وہاں دوسری ترجیح صنعت ہے اور اس کے بعد گھریلو صارفین کو بجلی دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ قیمتیں بڑھنے کا شور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت بڑھنے پر ہوتا ہے کبھی فریج، اے سی، ٹی وی یا دیگر اشیاء پر شور نہیں اٹھا اور کھانے پینے کی اشیاء زراعت سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ ہمارا جی ڈی پی 225 ارب ڈالر ہے اور ہم بجلی کے بحران کی وجہ سے ساڑھے 4 ارب ڈالر سالانہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اگر ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ کرنا ہے تو ڈیم بنائے جائیں تاکہ بجلی کا بحران ختم ہو، بجلی کے بحران سے صرف بیروزگاری ہی نہیں بڑھتی بلکہ بیروزگاری سے لاء اینڈ آرڈر کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

محمدندیم بھٹی (چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے گارمنٹس انڈسٹری ایف پی سی سی آئی)

جی پی ایس پلس کا سٹیٹس ہمیں بہت پہلے مل جانا چاہیئے تھا مگر پہلے ہمیں اہل نہیں سمجھا گیا۔ اب اس سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرنی چاہیئے۔گارمنٹس اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کل ٹٰیکس کا 54 فیصد ادا کر رہی ہے اور ایکسپورٹ پر بھی 23 فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہے، اتنے ٹیکس کی موجودگی میں یہ انڈسٹری ایکسپورٹ کے میدان میں پیچھے رہ جائے گی۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک کھرب روپے کا فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تھائی لینڈ،چین،بھارت اور بنگلہ دیش سے پاکستان میں گارمنٹس کی درآمد پر پابندی لگائی جائے۔

لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ ملکی ترقی اور ایکسپورٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لئے اگر نندی پور پاور پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی کا رخ اس طرف موڑ دیا جائے تو اس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ملک میں حالات ویسے بھی ٹھیک نہیں ہر طرف امن و امان کی صورتحال خراب ہے اس ماحول میں صنعتکار کیا کمائے گا؟۔ جی ایس پی پلس کے حصول کیلئے وزیراعظم نواز شریف اور اس کے بعد گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا شکر گزار ہوں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کی کوششوں سے یہ درجہ ملا ہے۔

اس سے فائدہ اٹھانے اوراہداف کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس کم کئے جائیں تاکہ ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں۔ اگربڑی صنعتیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں تو چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے اور انہیں ٹاسک دیئے جائیں تاکہ یہ بھی مقابلے کی پوزیشن میں آسکیں۔ انڈسٹری چلتی ہے تو مزدور کا چولہا جلتا ہے۔ مل مالک کماتا ہے تو مزدور کماتا ہے اس لئے عام آدمی کی بہتری کیلئے بھی صنعت کو فائدہ پہنچانا چاہیئے۔ ہم جب بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں وہ قرض تو دے دیتا ہے مگر ایسی پالیسیاں بنواتا ہے جو ملک کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ حکومت کوعوام اور خود سے وعدہ کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں گے، جب تک آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑائیں گے ہم معاشی طور پر آزاد اور خوشحال نہیں ہو سکتے۔

وزیراعظم نواز شریف ملکی خوشحالی کی خواہش رکھتے ہیں، انہیں چاہیئے کہ اس 3 سال کے عرصے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے اقدامات کریں۔ اس حوالے سے میں نے پہلے بھی انہیں تجویز دی تھی کہ لاہور، گجرات اور سیالکوٹ ملکی ترقی اورایکسپورٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور نندی پور پاور پراجیکٹ ان کے قریب ہے ، اس لئے جب وہ مکمل ہوجائے تو یہاں کی انڈسٹری کو وہاں سے بجلی کی فراہمی دی جائے اس سے ان شہروں کی انڈسٹری ترقی کرے گی جس سے ملک ترقی کرے گا۔

ڈاکٹر قیس اسلم (تجزیہ نگاروماہر اقتصادیات)

جی ایس پی پلس سٹیٹس سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت کو عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کوالٹی اور سٹینڈرائزیشن کو مانیٹر کرنا چاہیے۔ معیشت کے تین ستون یا کھلاڑی ہیں جن میں حکومت، انڈسٹریز اینڈ انٹر پرینیور اور سوسائٹی شامل ہیں ان سب کو معیشت کی ترقی اور جی ایس پی پلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت ان پٹس کے نرخ کم کرے۔ ٹرانسپورٹ سسٹم کو واپس ریلوے پر لائے۔ ان دائریکٹ سبسڈیز دے۔ چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جائیں ۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بھاشا ڈیم کی تعمیرسے پاکستان اور چین کے درمیان لنک ٹوٹ جائے گا کیونکہ شاہراہ ریشم کا ایک بڑا حصہ اس کی نظر ہوجائے گا۔ اس لیے ہمیں دیگر ڈیمز کی تعمیر کو اپنی ترجیح بنا نا چاہیئے۔ پاکستان کو ٹیکس فری زون قرار دیا جائے۔

ان ڈائریکٹ ٹیکس ختم کر کے ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جائیں۔ ویلیوایڈیشن کی طرف توجہ دی جائے۔ ٹیکس ریبیٹ ہونی چاہیئے ۔ انڈسٹری کو انجن آف گروتھ قرار دیا جائے کیونکہ ہی میں سالانہ 30 لاکھ ملازمتوں کی ضرورت ہے اور یہ صرف انڈسٹری فراہم کر سکتی ہے۔

ہمیں ٹرانزیکشن کاسٹ کم کرنا ہوگی۔ انڈسٹری اور یونیورسٹیز میں رابطے ہونے چاہیئے تاکہ انٹرن شپ اور ریسرچ میں بہتری پیدا کی جاسکے۔ ہماری معیشت فرجائل اکانومی ہے جو بے لچک ہوتی ہے ایسی معیشت بحران برداشت نہیں کرسکتی اور جی ایس پی پلس سٹیٹس فرجائل اکانومیز کو ہی ملتا ہے۔ ایسی معیشت سیاسی معاشی اور ماحولیاتی شاکس برداشت نہیں کر پاتی اور منہدم ہو جاتی ہے۔ اگر ہمیں ایک موقع ملا ہے تو ہمیں اپنی معیشت کو فرجائل اکانومی سے مستحکم معیشت بنانا ہوگا۔

حکومت ڈالر کی قیمت میں کمی لانے کے لئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مراعات دے جس طرح کی جاپان نے دی ہیں۔ وہاں بیرون ملک سے فارن کرنسی بھیجنے پر شرح سود منفی ہے، حکومت پاکستان بھی بیرون ملک سے پاکستان فارن کرنسی بھیجنے والے کو اس پر مناسب نفع دے تو اس طرح ایک طرف تو ہنڈی کی حوصلہ شکنی ہوگی تو دوسری طرف ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی ترقی اور معاشی بحالی کے لئے حکومت، انٹر پرینیور یعنی صنعت کار وسرمایہ کار اور سوسائٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اسی صورت میں ہم جی ایس پی پلس سے بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔