مغل شہنشاہ جہانگیر کے 400 سالہ قدیم مقبرے کا بنیادی ڈھانچہ محفوظ کرلیا گیا

آصف محمود  ہفتہ 26 ستمبر 2020
مقبرے کا وہ حصہ جہاں شہنشاہ نورالدین جہانگیر دفن ہے ایک بلند چبوترا بنایا گیا ہے فوٹو: امتیاز خان

مقبرے کا وہ حصہ جہاں شہنشاہ نورالدین جہانگیر دفن ہے ایک بلند چبوترا بنایا گیا ہے فوٹو: امتیاز خان

 لاہور: راوی کنارے واقع مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیرکے 400 سالہ قدیم مقبرے کو منہدم ہونے سے بچانے کے لئے اس کے بنیادی ڈھانچے کو محفوظ کرلیا گیا ہے جبکہ دوسرے مرحلے آرائش وتزئین کی جارہی ہے۔

مقبرہ جہانگیر کو سکھوں اوربرطانوی دور میں شدید نقصان پہنچایا گیا جبکہ مختلف ادوار میں آنیوالے سیلاب نے بھی اس کی بنیادوں کو کمزورکردیا تھا، برصغیرپاک وہند میں تاج محل کے بعد مقبرہ جہانگیر مغلیہ طرزتعمیرکا سب سے بڑا شاہکار ہے لیکن بدقسمتی سے اسے آج تک عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ نہیں مل سکا ہے۔

مقبرہ جہانگیر شاہدرہ کے ایک باغ دلکشا میں واقع ہے۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کا آغاز کیا اور شاہ جہاں نے اسے 1637 میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ یہ مقبرہ دس سال کے عرصہ میں تعمیرہوا اوراس دورمیں اس کی تعمیر پر10 لاکھ روپے لاگت آئی تھی۔

مقبرہ کے چاروں کونوں پر حسین مینار نصب ہیں۔ نورالدین جہانگیرکی قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے۔ دائیں بائیں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام کندہ ہیں۔ پنجاب آثارقدیمہ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور کنرویشن انجنیئرنعیم اقبال نے بتایا کہ یہ جہانگیرکی اصل قبرہے ،اس پرکوئی تعویزنہیں بنایا گیا جیسا کہ عموما مزارات اورمقبروں میں ہوتا ہے، اصل قبرکے اوپرتعویزبنایاجاتا ہے۔ انہوں نے یہ بتایا کہ مقبرہ جہانگیرکے احاطے میں کوئی تہہ خانہ ہے اورنہ ہی کوئی خفیہ سرنگیں ہیں۔

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ سکھ عہد میں اس عمارت کو بہت نقصان پہنچایا گیا اس عمارت میں سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا سہ نشین اکھاڑ کر امرتسر پہنچادیا گیا، اسی طرح عمارت کے ستونوں اور آرائشات میں استعمال کیے گئے قیمتی جواہرات بھی نکال لیے گئے، تاہم آج بھی یہ عمارت قابل دید ہے۔ مقبرے کا وہ حصہ جہاں شہنشاہ نورالدین جہانگیر دفن ہے ایک بلند چبوترا بنایا گیا ہے۔ اندر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ مزار کے چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں، جو سخت گرم موسم میں بھی ہال کو موسم کی حدت سے محفوظ رکھتی ہیں۔

نعیم اقبال نے بتایا کہ سکھوں کے عہد اورابتدائی برطانوی دور میں اس مقبرے کو شدیدنقصان پہنچایا گیا تھا۔ یہاں موجود سرائے کو کوئلے کے گودام میں تبدیل کیا گیا۔ شاہدرہ کول پلانٹ کے لئے کوئلہ یہاں ذخیرہ کیا جاتا تھا جبکہ برطانوی فوج کے ایک افسرنے مقبرے کو اپنی رہائش گاہ میں تبدیل کردیا تھا ۔ تاہم برطانوی حکومت نے 1890 میں پہلی باریہاں بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد محکمہ آثارقدیمہ نے 60 کی دہائی میں یہاں بحالی کا کام شروع کیاتھا جو وقفے وقفے سے آج تک جاری ہے۔
انہوں نےبتایا کہ ہماری پہلی ترجیع یہ تھی کہ اس عظیم مقبرے کے بنیادی ڈھانچے کو محفوظ کیا جائے ، اس پرہم نے کام شروع کیا، مقبرے کے مینارکافی خستہ حال ہوچکے تھے ایک مینارکے ساتھ لوہے کی شٹرنگ کی گئی تھی تاکہ اسے گرنے سے بچایا جاسکے تاہم جب ہم نےبنیادی ڈھانچے کومحفوظ بنانے کا کام شروع کیا تو ابتک دومیناروں کا کام مکمل ہوچکا ہے اورتیسرے پرکام جاری ہے، اس کے بعد یہاں آرائش وتزئین شروع کردی جائےگی۔

نعیم اقبال کہتے ہیں اس عمارت کی تعمیر میں بہت زیادہ سرخ پتھراستعمال ہوا ہے جو ہمیں بھارت سے منگوانا پڑتا ہے، جب کبھی پاک بھارت تعلقات خراب ہوتے ہیں تو پھرپتھرنہیں منگوا سکتے جس سے ہماراکام رک جاتا ہے اورنقصان ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ جوپرانا پتھریہاں سے ملتا ہے اس کے چھوٹے ٹکڑوں کو استعمال میں لاتے ہیں۔ اب بھی انڈیا سے سرخ پتھر نہ آنے کی وجہ سے مقبرہ نورجہاں میں بحالی کا کام رکا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قدیم اورتاریخی عمارتوں کی بحالی اورآرائش وتزئین کا کام خاصامشکل ہوتا ہے ہمیں اسی طرزکا مٹیریل ،پتھراوراینٹیں استعمال کرناپڑتی ہیں جوپہلے استعمال ہوئی ہیں، یہ سامان بازارسے نہیں ملتا، ہمیں اینٹیں تک خصوصی طورپرتیارکروانا پڑتی ہیں جبکہ کسی قسم کی جدید مشینری استعمال نہیں کرسکتے ، تمام تعمیراتی کام ہاتھوں سے کیاجاتا ہے۔

مقبرہ جہانگیرکے احاطے میں موجود قبروں اورصوفی بزرگ کے مزارسے متعلق نعیم اقبال کہتے ہیں کہ آج تک ان قبروں اورمزاربارے کوئی مسندروایت یا تحریرنہیں مل سکی ہے تاہم امکان یہ ہے کہ 1947 میں جب یہاں مہاجرکیمپ بنایا گیا تھا اس وقت جن لوگوں کی اموات ہوئیں ان کو یہاں دفن کیا گیا ۔تاہم مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ مزارحضرت حامدشاہ ولی ؒ کا ہے اوریہ قبریں ان کے مجاوروں کی ہیں۔ یہ مزارمقبرہ کی تعمیرسے بھی پہلے یہاں موجودتھا۔ کیونکہ مقبرہ بننے کے بعد یہاں کسی بزرگ کا مزاربنانے کی اجازت کس نے دینی تھی؟

نعیم اقبال کہتے ہیں ملکہ نور جہاں اور شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے ایک ہی رقبے میں تھے لیکن جب انگریزوں نے ان کے درمیان ریلوے لائن بچھائی تو مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مقبرہ کی چاردیواری کے باہرچاربڑے کنویں تھے جواب دریا برد ہو چکے ہیں صرف ایک کنویں کے آثارباقی ہیں،باغ کے اندر آج بھی کھجور کے قدیم درخت موجود ہیں۔اسی طرح سرائے کے باغ کے چاروں کونوں میں برگد کے قدیم درخت ہیں۔ منتظمین کے مطابق یہاں صرف وہی درخت لگائے جاتے ہیں جو پہلے یہاں موجود تھے ، نئے پودے نہیں لگاسکتے ماسوائے چند خوشبودار پھول دارپودوں کے جس سے باغ کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔

باغ کی دیواروں کے ساتھ کمروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جہاں شاہی محافظ، سپاہی اور خدام رہا کرتے تھے۔ مقبرہ ہشت پہلو اور اندر سے گنبد نما ہے۔ مقبرہ کے 100 فٹ اونچے میناروں سے لاہور شہر کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ نعیم اقبال نے بتایا کہ ہم نے ابتک یہاں بحالی کا جوبھی کام کروایا ہے اسے تصاویراورویڈیوزکی شکل میں محفوظ بھی کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔