APS جوڈیشل کمیشن رپورٹ

ایڈیٹوریل  اتوار 27 ستمبر 2020
اس دلدوز واقعہ نے ہمارے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فوٹو:فائل

اس دلدوز واقعہ نے ہمارے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس میں اس سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا ہے۔

اس دلدوز واقعہ نے ہمارے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے حملے کی دھمکیوں سے متعلق نیکٹا نے وارننگ جاری کر رکھی تھی، سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد میں تعیناتی بھی درست نہ تھی، انتہاپسندوں کومدد ملنا ناقابل معافی جرم ہے، گارڈز مزاحمت کرتے تو اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔

سانحہ APS میں سیکیورٹی کی ناکامی ناقابل یقین تھی جب کہ وارننگ موجود تھی،رپورٹ میں کہا گیا کہ اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں۔کمیشن رپورٹ میں عسکری حکام کی جانب سے بتایا گیاکہ اس واقعے کے بعد برگیڈئیر سمیت 15 افسر اور جوانوں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوئی، رپورٹ کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان نے مرتب کی ہے جو 525 صفحات اور 4 حصوں پر مشتمل ہے۔

بلاشبہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردی کا سانحہ قوم کے لیے الم ناک اور دردانگیز تھا، اس دن سیکیورٹی پر مامور ہمارے اہلکاروں کی ناقص حکمت عملی کے باعث دہشت گردوں نے بربریت کا مظاہرہ کیا ، یہ ہر اعتبار سے اعصاب شکن سیکیورٹی لیپس تھا جس میں انتہا پسندوں نے ملک کے ایک مقدس مادر علمی پر سفاکانہ حملہ کرکے معصوم طالب علموں اساتذہ اور تدریسی عملے کو شہید کیا ، اس سانحہ کو قوم کبھی بھلا نہیں سکے گی۔

سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر انکوائری کمیشن رپورٹ اور وفاقی حکومت کے جواب کو پبلک کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے حکومت کو انکوائری کمیشن رپورٹ کی روشنی میں لائن آف ایکشن بنانے کی ہدایت جاری کی ہے ۔ چیف جسٹس گلزار احمدنے ریمارکس دیے کہ عوام ہی محفوظ نہیں تو اتنی بڑی سیکیورٹی کیوں، عدالت نے قرار دیا کہ ہربڑے سانحے کا ذمے دار چھوٹے عملے کو ٹھہرا دیا جاتا ہے، اب یہ ریت ختم، سزا اوپر سے شروع ہوگی۔حکومت کارروائی کرے ورنہ ہم کریںگے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ہماری شمال مغربی سرحد بہت غیر محفوظ ہے جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر پیدل اورٹرانسپورٹ کے ذریعے سیکڑوں افراد کی بلاروک ٹوک آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ انتہا پسند عناصر کو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کیے جانا ناقابلِ معافی جرم ہے، سانحہ آرمی پبلک کیسے رونما ہوا۔

اس حوالے سے رپورٹ میں کئی اہم اور چشم کشا سوالات اٹھائے گئے ،کہا گیا کہ سیکیورٹی کے 3 دائرے تھے جن میں گیٹ پر موجود گارڈز، احاطے میں ایم وی ٹیز کا گشت اور وارسک میں قائم آرمی پبلک اسکول سے 10 منٹ کے فاصلے پر کوئیک رسپانس فورس موجود تھی،صرف دہشتگردوں کے پیدا کردہ دھویں کے ایک اقدام کے نتیجے میں دہشت گرد پیچھے سے اسکول میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حملے سے متعلق نیکٹا نے عمومی وارننگ جاری کر رکھی تھی کہ دہشت گرد اپنے خلاف جاری آپریشنز بالخصوص ضرب عضب اور خیبر1 کا بدلہ لینے کے لیے خاص کر آرمی خاندانوں کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور از خود نوٹس کیس پر سماعت کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان نے سانحہ اے پی ایس پشاور پر قائم کیے گئے انکوائری کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ پر وفاق کا جواب عدالت عظمیٰ میں جمع کرایا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ واقعہ کے ذمے داران کے خلاف ہر ممکن کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ذمے داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تا کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے یہ پوری قوم کا دکھ ہے۔

دوران سماعت سانحہ اے پی ایس پشاور کے شہداء کے والدین بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔اب جب کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر عدالتی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے، ارباب اختیار کا صائب اقدام وہی ہونا چاہیے جس کی نشاندہی موجودہ رپورٹ میں کی گئی ہے، حقیقت قوم کے روبرو لائی گئی ہے۔ شہدا کے لواحقین کے آنسوؤں کا سیل رواں رک نہ سکے گا، اس دن بربریت کی خونیں داستان رقم کی گئی، بلاشبہ اہل وطن کی ہمہ وقت سلامتی آج ہر شے پر مقدم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔