بھارتی فسطائیت امن کے لیے خطرہ

ایڈیٹوریل  اتوار 27 ستمبر 2020
دائمی امن سے جڑے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز آجائے۔ فوٹو: فائل

دائمی امن سے جڑے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز آجائے۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک ورچوئل خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آر ایس ایس نظریئے پر قائم بھارتی حکومت اسلاموفوبیا پھیلا رہی ہے، مسلمانوں،عیسائیوں اور سکھوں سمیت 30کروڑ اقلیتوں پر زندگی تنگ کردی۔ پاکستان کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی اشتعال انگیزکارروائیوں اورجنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزیوں کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کررہا ہے، اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے جارحیت کی تو قوم اس کا بھرپور جواب دے گی۔

عالمی ادارے کے فورم پر وزیراعظم کا یہ دوسرا اہم خطاب ہے جو عالمی ضمیر کے نام ایک چشم کشا بیانیے کی صورت سامنے لایا گیا ہے ،کورونا کے باعث خطاب ورچوئل رکھا گیا۔ دنیا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ انھیں اس خطے میں امن چاہیے یا بھارت کو ہندوتوا اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی، اسلاموفوبیا ، کشمیر میں استبدادیت،انسانی حقوق کی پامالی اور کشمیریوں کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ دی جاتی رہیگی۔

حقیقت یہ ہے کہ عالمی سیاست کی ڈائنامکس تبدیل ہورہی ہیں، دنیا ایک غیر مربوط انسانی رویے کے دباؤ میں ہے، سیاسی اخلاقیات کے پیرامیٹرز باہمی روابط اور نوع انسانی کے مشرکہ مقاصد سے الگ ہوتے جارہے ہیں، انسانیت کے وہ ابدی رشتے Human bondage جو دو عظیم جنگوں نے راسخ کرنے تھے آج کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

آج دنیا تجارتی جنگوں، باہمی مفادات، اسلحہ کی بلاجواز دوڑ، جنگ اور بربادی کے نئے منظر نامے کی سمت بڑھتی جارہی ہے جب کہ سیاست میں تدبر ،تحمل، دانش، مکالمہ اور دنیا میں دائمی امن و استحکام اور ٹیکنالونی کو ہاتھوں انسان کی غلامی کا نیا باب تحریر کرنے سے زیادہ بہتر اور صائب صورت عالمی امن اور عوام کے معاشی مسائل کے حل کی ہے،غربت اور بھوک کے خلاف اعلان جنگ کی ہے۔

بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں قتل وغارت، انسانی حقوق کی بے توقیری اور کشمیری قوم کے حق خودارادیت کو جس بیدردی سے پامال کیا ہے اس پر خود اقوام متحدہ کے عالمی تشخص پر سوال اٹھ رہے ہیں، وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے گزشتہ اجلاس میں کشمیر پر اپنا بیلاگ چارٹر اور استدلال سے بھرپور بیانیہ پیش کیا تھا، عالمی ادارے اور عالمی ضمیر کے لیے صائب تھا کہ وہ بھارتی ظلم وبربریت پر ایک آہنی چیک لگادیتی، نریندر مودی کو بربریت سے روکا جاتا، کشمیر سے بھارتی فوجیں نکالی جاتی، کرفیو اٹھایا جاتا۔

کشمیر کی ڈیموگرافی اور تقسیم کے یک طرفہ غیر اخلاقی اور غیر اصولی اقدامات واپس لیے جاتے، یہ عالمی برادی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے ،بھارت بدستور کنٹرول لائن پرشرارت آمیز خلاف ورزیاں کررہا ہے، اس کی قاتلانہ اور جنگی سرگرمیاں جاری ہیں، وہ امن ومزاکرات کی ہر کوشش کو بلڈوز کرنے پر تلا ہوا ہے، بھارت کو ادراک کرنا چاہیے کہ کشمیر کی صورتحال جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، پاکستان وبھارت دو ایٹمی ملک ہیں، بھارت دھونس دھمکی اور دھاندلی سے کشمیر کو ہڑپ نہیں کرسکتا، لاکھوں کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے لیے قربانیں دے رہے ہیں ان کا خون رائیگا نہیں جائے گا۔

عالمی برادری وقت کی للکار کا ادراک کرے اور سب سے بڑی زمینی حقیقت کو تسلیم کرے کہ کشمیر کا حل مزاکرات، سفارت کاری، خطے میں دائمی امن میں مضمر ہے اور یہ امن کشمیریوں کو بات چیت کے عمل میں شامل کرنا سے جڑا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے۔ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر وہاں جاری سنگین مظالم کی تحقیقات کرائے۔ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن ممکن نہیں ۔

وزیراعظم نے فلسطین کے مسئلہ کو بھی آج کا ایک رستا ہوا زخم قراردیا اورکہا مشرق وسطی ہی نہیں دراصل پوری دنیا کے لیے اس مسئلہ کا منصفانہ اور پائیدار حل ناگزیر ہے، وزیراعظم نے اس موقع پر نوم چومسکی کا حوالہ دیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ انسانیت کو اس وقت پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں ۔

وزیراعظم نے کہا کورونا کی وبا نے نوع انسانی کو قریب لانے کا ایک موقع دیا، بدقسمتی سے اس نے قوم پرستی کو ہوا دی، عالمی تنازعات میں اضافہ ہوا،ان رحجانات نے اسلامو فوبیا کو بھی مہمیز کیا ہے، اور یہ سب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ہورہا ہے۔کورونا کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی نتیجہ خیز پالیسی اپنائی۔

ضرورت اب اس بات کی ہے کہ دائمی امن سے جڑے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے باز آجائے، عالمی ادارے کی قراردادوں کی روشنی میںکشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دے ، عالمی برادری کو بھی کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر سخت سٹینڈ لینا چاہیے ورنہ عالمی برادری سے وابستہ امن کی وسیع ترانسانی توقعات کو شدید دھچکا پہنچے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔