ہمیں ہرقسم کے مجرموں کا سامنا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 27 ستمبر 2020
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

وارنر رہرڈ نے کہا تھا ’’ سچائیاں آپ کو بالآخر آزاد کر دیں گی لیکن یہ پہلے آپ کو جی بھرکر تڑپائیں گی‘‘ اور مہاتما بدھ نے کہا ہے ’’ تمام انسانی دکھ سچائیوں کا سامنا نہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں ‘‘ آج کل ہمارے ملک میں ہر طرف مجرموں کی بہار آئی ہوئی ہے، آپ کو باآسانی ، بغیرڈھونڈے اور وافر مقدار میں ہر جگہ ہر قسم کے مجرم دستیاب ہیں ہر مجرم حسب اوقات اپنے اپنے کرتب اورکارستانی دکھانے میں مصروف اور مگن ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہر مجرم ہر موقع کو آخری موقع جانتے اورسمجھتے ہوئے اپنا کام کررہا ہے۔ انسانوں کی یہ نایاب قسم آپ کو بازاروں ، دفاتر، ایوانوں،گلیوں، محلوں ، عبادت گاہوں میں جا بجا اور خود بخود دیکھنا نصیب ہوجاتی ہے، ان مجرموں کو ملک بھرمیں کسی سے بھی اورکسی بھی قسم کا خطرہ نہ تو لاحق ہے اور نہ ہی آیندہ لا حق ہونے کا کوئی خطرہ ہے۔

ان کی بے فکری کا یہ عالم فکروں اور اندیشوں سے دیکھا نہیں جارہا ہے اور ان کو فکر ہو توکس بات کی ہو جب آپ ملک بھر سے سچ کو ڈھو نڈ ڈھونڈ کر اس کا قتل عام شروع کردیں گے اور ہر سچ کی ننگی اور ادھڑی ہوئی لاش کے چاروں طرف کھڑے ہوکر قہقہے لگا رہے ہونگے اور باقی زندہ بچے سچ آپ سے چھپتے پھررہے ہونگے تو اس سے مختلف نتیجہ جونکلا ہے کوئی دوسرا نکل بھی کیسے سکتا تھا۔ بے شرمی اور بے حیائی کی اس وقت حد ہوجاتی ہے جب مجرم سرے عام سچ کو ننگی ننگی گالیاں دیتے پھررہے ہوتے ہیں۔

ہمارے سارے دکھوں نے اسی سچ کی لاشوں اور بے حرمتی کی کوکھ سے جنم لیاہے پھر ان ہی دکھوں کو ہم نے بچوں کی طرح پال پوس کر بڑا کیا، اب جب ان دکھوں نے ہم پر اور ہمارے گھروں پر قبضہ کرلیاہے اور ہمیں اپنے آپ سے اور اپنے گھروں سے بے دخل کردیا ہے تو پھر رونا کس بات کا، دہائیاں کس لیے گریہ اور آہ وزاریاں کیوں۔کیا آپ نے کبھی اس بات پر غورکیا ہے کہ کسی جگہ سچ کا آزادانہ قتل کیوں کر ممکن ہوتا ہے۔ آئیں! آزادانہ سچ کے قتل کے محرکات اور پس منظرکو سمجھنے کی مل کرکوشش کرتے ہیں۔

روجر شیم نے ملکہ ایلزبتھ کے دربار میں جولوگوں کا چلن تھا ان باتوں کو اس طرح نظم کیا ہے ’’ مکاری ، جھوٹ ، خوشامد ، دیدہ دلیری یہ چار طریقے ہیں جن سے لوگ باتوقیرہوسکتے ہیں اگر تجھے ان میں سے کوئی نہیں آتا تو چل دے اورگھربیٹھ ‘‘ جب ان چارچلنوںکا کسی دربار یا ایوان یا پھر ملک میں غلبہ ہوجاتا ہے تو پھر آپ کو سچ کوکسی بھی وقت اورکسی بھی جگہ آزادنہ قتل کرنے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے ۔

شیکسپیئرکے ڈرامے ’’اوتھیلو(1604) میں ایاگو ،برائی، جھوٹ اور سازش کا نمایندہ ہے اور فتح مند رہتاہے ڈیسڈیمونا،نیکی، ایمانداری اور وفا ہے اور وہ قتل ہوجاتی ہے۔ شیکسپیئرکے دوسرے ڈرامے ’’میکبتھ میں قاتل زندگی پر بے رحم فیصلہ دیتا ہے کہ ’’ناتواں شمع بجھ گئی، زندگی محض ایک گریزاں سایہ ہے ،ایک لاچار سازندہ ، جو منڈپ پر اپنا مقررہ وقت پوراکرتا ہے اور پھرکبھی بھی اس کی آواز نہیں آتی ، یہ ایک کہانی ہے جو کسی احمق نے سنائی آواز اور غیض وغضب سے بھرپور، جس کا کوئی بھی مطلب نہیں ‘‘کیازندگی کے متعلق کوئی اس سے زیادہ ترش رائے دی جاسکتی ہے ؟

ہاں، ایتھنزکے ٹیمون کو یاد کریں جوکبھی ایک ایتھنی لکھ پتی ہوا کرتا تھا اور ہروقت خو شامدی دوستوں میں گھرا رہتا دولت کھوجانے پر اس نے دیکھا کہ دوست رات بھر میں غائب ہوگئے وہ تہذیب کی گرد اپنے پیروں سے جھٹک کرایک جنگل کی کج تنہائی میں چلا جاتا اور وہاں امید کرتا ہے کہ ’’نامہربان ترین درندے بھی نوع انسانی کی نسبت زیادہ مہربان ہوں گے ‘‘ وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش السی بیادیس ایک کتا ہوتا تاکہ میں تمہیں کچھ پیارکرسکتا وہ جڑیں کھا کر گذارہ کرتا ہے وہ مٹی کھودتا ہے اور سونا پا تا ہے دوست دوبارہ آجاتے ہیں وہ طعن وتشنیع کے ساتھ انھیں بھگا دیتا ہے لیکن جب فاحشائیں آتی ہیں تو اس شرط پر انھیں سارا سونا دے دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مردوں کو جنسی بیماریاں لگائیں گی۔

نفرت کے سرور میں وہ فطرت کو حکم دیتا ہے کہ انسانوں کی نسل کشی روک دے اور امید کرتا ہے کہ وحشی درندے تیزی سے تعداد میں بڑھ کر انسانی نسل کا صفایا کردیں گے ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر اِیاگوہمیشہ فتح مند رہتا ہے اور ہرڈیسڈ یمونا ہمیشہ قتل ہوجاتی ہے ۔کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اور اپنے ساتھ بد ترین سلوک پرکچھ نہیں بلکہ کروڑوں انسان ایتھنزکے ٹیمون نہیں بن چکے ہیں۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ سب کے سب بوائلر نہیں بن گئے ہیں کھولتے ، ابلتے بوائلر جو سب کچھ جلانے پرتلے بیٹھے ہیں جو ہر مکار جھوٹے ، خوشامدی اوردیدہ دلیراور ہرایا گوکو بھسم نہیں کرنا چاہتے ہیں کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ وہ ہر مجرم اور سچ کے قاتلوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔

پہلے چینی فلسفی لاوزے جو روسو اور تھامس جیفرسن سے کوئی 2300سال پہلے گزرا ہے۔ کہتا ہے ’’ فطرت میں تمام چیزیں خاموشی سے کام کرتی ہیں وہ ہست ہوتی اورکچھ بھی حاصل نہیں کرتیں وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہیں تمام چیزیں ایک ہی انداز میں کام کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں منتشر ہوتے دیکھتے ہیں ہر چیز اپنے عروج کو پہنچنے کے بعد ماخذ میں لوٹ جا تی ہے۔ اپنے ماخذکی جانب واپسی کا مطلب قسمت کا لکھا پورا کرنا ہے، یہ الٹا بہائو ایک ابدی قانون ہے جان لوکہ دانش ہی قانون ہے۔‘‘

ایوانوں میں بیٹھے میرے زمینی خدائو اور میرے ملک کے مجرمو یاد رکھو، الٹا بہائو ایک ابدی قانون ہے جلد ہی تمہاری زندگیوں کی رات ہوجائے گی اور جب رات ہوگئی تو تمہارے گرد جمع یہ سارے مکار، جھوٹے ، خوشامدیوں میں سے تم ایک کو بھی اپنے پاس نہیں پائو گے اور تمہیں اپنے سارے اعمالوں کا حساب کہیں نہ کہیں تو ضرور دینا ہی ہے۔ تم یہاں تو سزا سے ضرور بچ سکتے ہو لیکن وہاں کوئی بھی جی کوئی بھی سزا سے نہیں بچ پائے گا۔ عظیم ادیب وطنز نگار ایراسمس کے تصوراتی مکالمے میں پیٹر (پطرس) جو لئیس کو بہشت میں جانے سے روکتا ہے ، پطرس : مجھے کچھ قریب ہونے دو … پادری والا چولا، لیکن اس کے نیچے خونیں زدہ ،آنکھیں وحشی ، بولنے میں برا ، پیشانی پہ بل ، جسم گناہوں میں لتھڑا ہوا، سانس شراب سے لبریز، صحت بدکاری کے باعث تباہ ، چاہے تم کتنا بھی ڈرا دھمکا لو میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیا ہو تم جولئیس ہو جہنم سے واپس آیا ہوا شہنشاہ ، جولئیس: توکیا تم پھاٹک نہیں کھولو گے ؟ پطرس : بہت جلد لیکن کسی تمہارے جیسے شخص کے لیے نہیں۔ اگر تمہارے پاس کچھ وقت ہو تو خدارا شہنشاہ جولئیس کی کہانی ضرور پڑھ لینا۔ جب تم جولئیس کی کہانی پڑھ رہے ہوگے تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری ملاقات خود سے بھی ہوجائے ۔ یاد رکھنا،جولئیس جیسے انسانوں کے لیے کبھی بھی بہشت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔