بھارت کے اصل عزائم

ایڈیٹوریل  پير 28 ستمبر 2020
بھارت منی لانڈرنگ کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بن گیا ہے۔

بھارت منی لانڈرنگ کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بن گیا ہے۔

عالمی ادارہ برائے فنانشل کرائمزانفورسمنٹ نیٹ ورک نے بھارتی بینکوں کے ذریعے ڈیڑھ ارب ڈالرسے زائد کی منی لانڈرنگ کے ناقابل تردید شواہد دنیا کے سامنے پیش کردیے ہیں، 44بینک مشکوک ٹرانزیکشنزمیں ملوث نکلے، جس کے بعد بھارت منی لانڈرنگ کرنے والا دنیا کا بڑا ملک بن گیا ہے۔

بھارت کی حقیقت دنیا پرآشکارہوتی جارہی ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولرجمہوریت کا دعوی دار ہے، جس نے پاکستان سمیت اپنے دیگر پڑوسی ممالک کا جینا مشکل کیا ہوا ہے اور بہتان تراشی کرتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ بھارت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سچ کو جتنا چھپایا جائے وہ اتنا ابھرکر سامنے آتا ہے۔ ساری دنیا جب یہ حقیقت جان لیتی ہے تو سوائے رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

بھارت جو منی لانڈرنگ کررہا ہے وہ سب خطے میں بالادستی کے لیے ہے۔ یقینا یہ رقم پاکستان سمیت دیگر ممالک میں دہشت گردوں گروپوں کی سرپرستی کے لیے استعمال ہوتی ہے،کیونکہ بھارتی بینکوں نے غیر ملکی بینکوں کے لیے کارسپونڈنٹ بینکوں کا کردار ادا کیا ہے،کارسپونڈنٹ بینکنگ میںصارفین کو سرحد پار بھی رقوم ادائیگی سمیت دیگر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

حقائق وشواہد کے مطابق بھارتی بینکوں نے2011سے2017 کے دوران 3201 غیر قانونی ٹرانزیکشنز کے ذریعے 1.53ارب ڈالرز منی لانڈرنگ کی ہے ۔ یہاں پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں گیا اورکس نے استعمال کیا ہے۔ یہ ایسے سوالات جنم لے رہے ہیں جن کا بھارت کے پاس تسلی بخش جواب نہیں ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیرالہ اورآسام میں دہشت گرد گروپس کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ سادہ سوال ہے کہ کیا یہ رقم ایسے گروپس کی معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

بھارت سے منی لانڈرنگ میں بھارتی نوادرات کے اسمگلر بھی ملوث ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سونے، ڈائمنڈ اور انڈین پریمیر لیگ کے ذریعے بھی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اور مزید حقائق دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔

ادھر وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب پر بھارتی مندوب کے بیان پرجواب دینے کا حق استعمال کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا ہے کہ نازیوں کو اکثر جھوٹ بولنے کے فن اورغلط اطلاعات پر مبنی پراپیگنڈہ کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ بھارت کا اقدام دراصل حقیقی مسائل سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی ایک اور شرمناک کوشش ہے۔

بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر اور ملک میں مقیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کیے گئے جرائم کے احتساب سے بچ نہیں سکے گا۔سچی بات ہے کہ چند دن پیشتر وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے دوران خطاب جو حقائق مدلل انداز میں بیان کیے، وہ ہضم نہیں ہو پارہے ہیں، کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں اورفلسطینیوں کے حقوق پر دو ٹوک موقف اپنایا ہے ، جہاں انھوں نے ایک طرف بھارت کا بھیانک چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے وہیں پر ذمے دار ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ہمسایوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر امن کا داعی ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے لیکن دوسری جانب بھارت کی نہتے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے ہندو تواکی ذہنیت اور سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ،جو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف روا رکھی جا رہی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی اپنے ملک کو بندگلی میں لے کر جا رہے ہیں۔ وہ بھارت کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو انتہائی متعصب سوچ رکھتی ہو، اور دنیا سے بالکل الگ تھلک ہو۔ وہ لا محدود اختیارات بالکل تاحیات وزیراعظم رہنے کے خواب دیکھ رہے ہیں جب کہ اس خواب کی بھیانک تعبیر بہت جلد ان کے سامنے آنے والی ہے، کیونکہ خود بھارت کے اندر ان کے خلاف شدید ری ایکشن پایا جاتا ہے۔

گزشتہ روز ہی شرومنی اکالی دل بھارتی حکمراں اتحاد این ڈی اے سے الگ ہوگیا ہے، اس نے زراعت سے متعلق قانون سازی معاملے پر علیحدگی اختیارکی ہے۔ شرومنی اکالی دل بی جے پی کی سب سے پرانی اتحادی ہے ، اس نے چارگھنٹے طویل اجلاس کے بعد حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے۔ یعنی سوچ اور فکر اتنی تنگ نظر ہے کہ پرانے ساتھی بھی ساتھ چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

بھارت نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو راستہ اختیارکیا ہے ، ظلم وبربریت پوری دنیا پرکھل کر عیاں ہوچکی ہے ۔ مسلمانوں،سکھوں اور نچلی ذات کی ہندو اور دیگر اقلیتوںکو تشددکا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نریندرمودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بھارت میں انسانی قدروں کو بری طرح پامال کر رہی ہے، انسانیت کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

مودی سرکار کے مظالم بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ مودی سرکارکے ظالمانہ اقدامات اقلیتوں اورکشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ بھارت نے انتہا پسندی اور تعصب کا جو راستہ اختیارکیا ہے وہ خود بھارت کے لیے خطرناک ہے، کاش یہ بات بھارت سرکارکو سمجھ آجائے لیکن ایسا ناممکن نظر آتا ہے ،کیونکہ آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ تکبر اور غرور سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

بھارت پہلے سوویت یونین اور اب امریکا کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے خطے میں اپنی بالا دستی کے خواب دیکھتا ہے، اس زعم باطل کی وجہ سے وہ چھوٹے ممالک کو تو اہمیت نہیں دیتا لیکن چین جیسی بڑی اور عالمی قوت سے بھی ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید چین کے مخالف مغربی ممالک اس کی مدد کو آجائیں۔ بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کا زیادہ اعتماد انحصار امریکا پر ہے جو خود افغانستان سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہا ہے اور بعد افغانستان سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کے لیے طالبان سے مذاکرات میں لگا ہوا ہے۔

جنوبی ایشیاء کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے ایک طرف چین سے اور دوسری طرف پاکستان سے اس کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں اور اگر امریکا نے بھی اس تنازع میں دخل اندازی کی کوشش کی تو اس کا بھی حشر افغانستان میں شکست اور پسپائی سے زیادہ خراب ہو گا ۔

دوسری جانب بھارتی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں حالات معمول کی طرف آتے جا رہے ہیں۔ لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ سچائی یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف مزید نفرت پیدا ہوئی ہے ۔ نئی دہلی حکومت نے اب تک کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں، ان سے کشمیری عوام میں پائے جانے والے غم و غصے اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ چکا ہے۔ مودی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ایک سال کے لاک ڈاؤن کے ذریعے انھوں نے کشمیری عوام کے دلوں میں موجود جذبہ حریت کو کچل ڈالا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت ایسا کب تک کر سکے گا؟ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ظلم وجبر کے نظام کے نقصان دہ نتائج ہی نکلے ہیں۔

جس امریکا کی دوستی پر مودی سرکار نازاں نظر آتی ہے اسی امریکا نے اپنے شہریوں کے بھارت کا سفر کرنے کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کی ہوئی ہے اور امریکیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھارت کا سفر نہ کریں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جاری ایڈوائزری میں بھارت کو کیٹگری 4 میں رکھا گیا ہے جو سفر کے حوالے سے بدترین درجہ بندی ہے۔ یہ درجہ بندی دہشت گردی، خانہ جنگی، منظم جرائم اور وبا جیسی وجوہات کی بنا پر دی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ آئینہ جس میں مودی سرکارکو اپنی صورت دیکھنی چاہیے کہ سچ کیا ہے امریکا ان کو کس نظر سے دیکھتا ہے ۔

پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ میں جو کہا ہے کہ بھارت کے نہتے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بربریت کے نتیجہ میں ہم اسے دہشت گردوں کی ماں کہہ سکتے ہیںتو یہ تاریخ کا بہت بڑا سچ ہے۔ یہ سچ سامنے لانے میں وزیراعظم پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہے ،کیونکہ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے موثر خطاب کے ذریعے کشمیریوں اورفلسطینیوں کے حقوق پر دو ٹوک موقف اپنایا ہے۔

جہاں انھوں نے ایک طرف بھارت کا بھیانک چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے وہیں پر ایک ذمے دار ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ہمسایہ ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر امن کا داعی ہونے کا ثبوت بھی دیا ہے۔ کاش! نریندر مودی بھی بھارتی صحافیوں ، دانشوروں کی رائے کو مانتے ہوئے جنگی جنون سے نکلنے کی سعی کرتے لیکن عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ یہاں پر عالمی برادری پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد پر یقینی بنانے کے لیے اپنا غیرجانبدارانہ کردار ادا کرے تاکہ مظلوم کشمیری اسیری سے رہائی پا سکیں اور ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لے سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔