تنظیم سازی

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 28 ستمبر 2020

پولیس کی تحقیقاتی ٹیم جیسے ہی اسپتال پہنچی تو اْسے معلوم ہوا کہ ’’وہ‘‘ بِل ادا کیے بنا ’’ڈسچارج‘‘ ہوچکا ہے حالانکہ عمومی حالات میں ڈسچارج ہونے کے لیے ’’بل‘‘ کی ضرورت نہیں پڑتی، صرف چارج ہونا پڑتا ہے یعنی صحت مند ہوجائیے ، بل تو گھر والے ادا کرتے ہی رہیں گے  تاہم جہاں گھروالوں کے بجائے لڑکا خود ہی اپنی تنظیم دیکھنے جائے ، میرا مطلب ’’بھرا پْرا مرد‘‘صفر المظفر کے مہینے میں لاہورکی ’’مہنگی گلیوں‘‘ میں اگر رجب رجب گاتا پھرے تو پٹائی واجب ہے …اور پھر ویسے بھی یہ لکھنا بالکل بھی نامناسب نہیں کہ  ’’وہ‘‘ جہاں کھل کر پِٹے وہ گھر بھی الحمد للہ مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی کا تھا …بہرحال ابتدا یہاں سے ہوئی تھی کہ ’’وہ‘‘ اسپتال سے از خود ڈسچارج ہوکر نکل لیے اور پولیس کی تحقیقاتی ٹیم سرکھجاتی ہی رہ گئی ! … گو کہ یہ متوقع تھا۔

معلوم تھا کہ ’’وہ ‘‘ نہیں چاہے گا کہ اْس کے گندے کپڑے لانڈری میں دھلنے کے بجائے سر عام دھلیں ، اِس لیے  خاموشی سے پیٹھ دکھائے بنا غالباً (چھپنے کا بہترین مقام) جاتی عمرا کی جانب چل پڑا مگر کچھ سوالات کے جوابات جاننا نہایت ضروری ہیں … رات کے 2 بجے کس تنظیم میں تنظیم سازی ہوتی ہے؟ بالخصوص ایک ایسی تنظیم جو ولایت میں خودساختہ ولی بنے بیٹھے ایک شخص کے منتقمانہ ذہن کے سبب اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اب تو میاں  جلیل احمد شرقپوری جیسے جلیل القدر عالم دین اور علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے ایک سپوت عالی شان نے بھی بغاوت کر ڈالی ہے … سوچنا ہو گا !! بہت کچھ سوچنا ہوگا، تاریخ ایک ایسے موڑ پر تیزی سے رونما ہونے والے ایسے واقعات کی چشم دید گواہ بنتی جارہی ہے جو ’’تنظیم سازی‘‘ کے لیے مناسب نہیں …

میاں صاحب کو چاہیے کہ ایسے ’’عناصر‘‘ سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کریں جنہوں نے پہلے انھیں وزارت عظمی کی کرسی سے بے دخل کرایا، پھر جو منہ آیا بک دیا کے مصداق اعلیٰ عدالتوں کے باہر تین اخیر ’’لاموں‘‘ کے بے تْکے بیانات  نے انھیں تحمل کی سیاست سے دْور کیا، اْس کے بعد ان ہی لوگوں نے لے لیا دوپٹہ میرا کے بجائے ’’صدقہ میرا‘‘  اور سب ہدیے، صدقے ڈکار کر میاں صاحب کو کسی قابل نہ چھوڑا اور وہ ایسے دلبرداشتہ ہوئے کہ ’’بیمار ہوئے جس کے سبب…اْسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘یعنی اْن ہی تباہی پھیلانے والوں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے جو انھیں کبھی ایران کے خمینی بنانا چاہتے ہیں تو کبھی  فرانس کا روسو… ’’او! تْسی میاں صاب نوں میاں صاب رہن دو‘‘اور میاں صاحب آپ کو اللہ کا واسطہ! محاذ آرائی اور ہزیمت سے اپنے آپ کو بچائیے…جس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر آپ ٹوئٹ فرما رہے ہیں۔

آپ خود بھی جانتے ہیں کہ آپ کو اْن سے اتنا  پیار کیوں ہے ؟ عرفان صدیقی صاحب ایک بڑے اورقابل احترام صحافی ہیں اور واللہ کرائے کے مکان کے معاملے پر اْن کے ساتھ جو ہمارے اپنوں نے سلوک روا رکھا وہ انتہائی  افسوس ناک اور شرم سے عاری کردار کا عکس تھا لیکن ماموں کی محبت  میں آشفتہ سرجج اپنے فیصلوں سے کبھی نہیں بولا ، جب بولا منہ کھول کھول کر اتنا بولا کہ اب تک ’’بول‘‘ رہا ہے …

مہربانی فرمائیے ، بیمار تھے ، بیمار بنے رہیے… کیوں فضا کو مکدر کرنے پر تْلے ہیں؟ بات نہیں بن پا رہی، انتظار کر لیجیے ، آپ ہی کی صاحبزادی نے جناب راحیل شریف صاحب کے اعزاز میں آپ کی جانب سے دیے گئے الوداعی ڈنر میں جن کے ساتھ تصویرکھنچواکر ’’ٹوئٹ‘‘ کی تھی انھیں آپ  ہی نے ’’چْنا‘‘ تھا ……جب آپ اْن کے خلاف بولتے ہیں تو خود اپنی ’’سلیکشن‘‘ پر انگلی اُٹھاتے  ہیں  اور اگر آپ کو اپنی ’’سلیکشن‘‘ پر خفت ہے تو پھر جہانگیر کرامت، عبد الوحید کاکڑ اور پرویزمشرف بھی آپ ہی کی سلیکشن تھے ، اب خود ہی سوال کیجیے کہ سارے جرنیل غلط تھے یا آپ غلط ہیں؟ … پہلے آپ ہی چنتے ہیں اور پھر بعد میں سر دھنتے  ہیں!! آپ کو اپنے دل  کی thoracic سرجری کے ساتھ ساتھ دماغ کا آپریشن کرانے کی بھی ضرورت ہے … جس شخص نے صفدر، دانیال، طلال ، نہال اور ’’جیکال‘‘ چْنا  ہو اْس پر لازم ہے وہ صرف مرغ چنے کھایا کرے، چْنا نہ کرے……!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔