ہم نے کیا بیچنا ہے؟

سالار سلیمان  منگل 29 ستمبر 2020
ہماری فارن پالیسی ٹھیک ہوگی تو ہی ہم پاکستان کا امیج بہتر کرسکیں گے۔ (فوٹو: فائل)

ہماری فارن پالیسی ٹھیک ہوگی تو ہی ہم پاکستان کا امیج بہتر کرسکیں گے۔ (فوٹو: فائل)

ہم ساجد تارڑ سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ایک لمحے کو اگر سوچیے تو اس کی باتیں ٹھیک بھی معلوم ہوتی ہیں۔ ساجد تارڑ کون ہے؟ ساجد تارڑ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین ہے جو امریکا میں مقیم ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کے گزشتہ صدارتی انتخابات میں ہوا کے مخالف جاتے ہوئے ٹرمپ کا ساتھ دیا۔ اب بھی مسلم وائسز فار ٹرمپ کے چیئرمین ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ بغیر کسی اگر مگر کے لیکن دلیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ معروف صحافی سلیم صافی کے پروگرام میں موجود تھے اور حقیقت بات تو یہ ہے کہ انہوں نے صافی صاحب جیسے انسان کو بھی خاموش کروا دیا تھا۔ ہم یہاں دو باتوں پر فوکس کریں گے اور ان کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

ٹرمپ کیوں اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے؟ اس لیے کہ اسرائیل کا ساتھ دینا فارن پالیسی کا حصہ ہے، امریکا کو اس کا ساتھ دینے میں فائدہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل کی لابی امریکا میں اتنی مضبوط ہے کہ کوئی بھی صدر اُس کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن اس سب کے باوجود ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی حل ہے۔ تاہم ساجد صاحب یہ بتانے سے قاصر رہے تھے کہ امریکا کیوں اسرائیل پر وہ عالمی پابندیاں نہیں لگاتا جو وہ ہیومین رائٹس کی خلاف ورزی پر دیگر ممالک پر لگاتا ہے؟ کیا اس معاملے میں دیگر ممالک کےلیے پیمانے الگ ہیں؟ تاہم، ان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ اسرائیل نے ہوم ورک کیا ہے، لابنگ کی ہے، کنوینسنگ کی ہے اور تب ہی اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔

کیا اسرائیل تقریباً 80 فیصد فلسطین پر قابض نہیں ہے؟ اگر دو ریاستی حل آتا بھی ہے تو اسرائیل کسی قیمت پر بھی مقبوضہ علاقے نہیں چھوڑے گا، لہٰذا یہ حل آئے یا نہ آئے، اس سے عملی طور پر کوئی اتنا فرق نہیں پڑتا۔ یہ حل بس اس مسئلے کو دفن کرنے اور اسرائیل کے ناجائز قبضے کو دوام بخشنے کی ایک کوشش ہوسکتی ہے۔

دوسری بات مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور انڈیا کی ہے۔ اس معاملے پر ساجد تارڑ کی اکثر باتوں سے اتفاق ہے۔ بھارت کی امریکا میں بہت مضبوط لابی ہے۔ بھارت کو فارن پالیسی اور ڈپلومیسی میں کمال بھی حاصل ہے۔ وہ اپنی ہر شکست اور ہر سبکی کو فتح میں بدلتا ہے، اس کو مارکیٹنگ اور پی آر کے جدید گُر بھی آتے ہیں۔ ابھی نندن کے معاملے کو ہی دیکھ لیجئے کہ یہ واضح طور پر پاکستان کی فتح تھی لیکن بھارت نے محض ایک مہینے میں ہی اس فتح کو ابہام اور مشکوک کردیا اور آج دنیا اس فتح کو بھی اگر مگر سے دیکھتی ہے۔ یہ کیا ہے؟ اس کو ڈپلومیسی کہتے ہیں، جس میں ہم بھارت سے کئی دہائیاں پیچھے ہیں۔

دوسری مثال لیجئے کہ انڈیا ایک جانب نمستے ٹرمپ کرتا ہے، امریکی صدر کی ناگواری کے باوجود بھارتی وزیراعظم ٹرمپ کو جھپیاں ڈالتا ہے اور کیمروں کے سامنے ایزی اینڈ فرینک ہونے کی کوشش بھی کرتا ہے اور دوسری جانب فرانس رافیل بھی خرید لیتا ہے۔ بھارت کی لابی کا اندازہ مزید دو باتوں سے بھی لگائیے کہ امریکا میں 5 سے 6 کانگریس مین بھارتی نژاد ہیں۔ پاکستانی کتنے ہیں؟ ایک بھی نہیں۔ امریکا میں آئی ٹی بزنس سمیت اکثر بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز بھارتی ہیں۔ اگر سی ای او بھارتی نہیں ہے تو وائس پریذیڈنٹ یا بورڈ میں بھارتی نژاد لازمی ہوگا۔ حتیٰ کہ صدارتی انتخابات میں بھارتی نژاد سامنے آرہے ہیں۔ امریکا میں سپریم کورٹ کے جج کے مسئلے میں وہ خاتون نہ ہوتی تو اگلا جج بھارتی نژاد ہی تھا۔ یہاں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بھارتی کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم پاکستانی کہاں کھڑے ہیں؟

ایک ملک جب بھی ملتا ہے تو پارٹنر کے طور پر ملتا ہے اور دوسرا ملک جب بھی ملتا ہے تو ایڈ لینے یا پیکیج لینے کےلیے ملتا ہے۔ تو کیا دونوں ملکوں کی حیثیت ایک برابر ہوگی؟ کشمیر کے مسئلے پر بھی بھارت نے زبردست قسم کی لابنگ کی ہے اور اگر آج اقوام عالم کے دماغوں میں اس معاملے کے حوالے سے ابہام موجود ہے تو یہ بھارت کی کامیابی ہے۔ ہم نے اس مسئلے پر کیا کیا ہے؟ کیا ہم مسلم ممالک کی حمایت ہی حاصل کرپائے ہیں؟ ہمارے فارن آفس نے اس حوالے سے کتنے دورے کیے ہیں؟ اگر صرف تقریروں سے ہی معاملات حل ہونے ہوتے تو کیا ہی بات تھی۔

پاکستان نے انٹرنیشنل ریلشن شپ کو بھی بیلنس نہیں کیا۔ ہم نے ایک دم ہی خود کو دوسرے بلاک میں جاکر کھڑا کردیا ہے۔ کیا ہم سی پیک رکھتے ہوئے امریکا سے رشتہ نہیں رکھ سکتے تھے؟ کیا امریکا بچہ ہے؟ اس کو نظر نہیں آرہا کہ پاکستان اپنا وزن کس بلاک میں ڈال رہا ہے؟ کیا ایک دم سے یہ شفٹ ہمارے لیے نقصان دہ نہیں ہوگا؟ ٹھیک ہے کہ دوسرے بلاک میں شمولیت ہمارے لیے فائدہ مند ہے لیکن پہلے بلاک کو یکسر نظر انداز کردینا بھی حماقت ہے اور ہم آہستہ آہستہ ان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔

پاکستان کو اب کچھ کام فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے فارن افیئرز کو مارکیٹنگ اینڈ سیلز کے اصول پر لے جائیں۔ ہماری فارن پالیسی ٹھیک ہوگی تو ہی ہم پاکستان کا منجن بیچ سکیں گے۔ اس کےلیے جدید مارکیٹنگ کے اصول اپنائے جائیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج ٹھیک کیا جائے۔ ہمیں تمام ہی بڑے ممالک میں گہری اور موثر لابنگ کرنی ہوگی۔ ہمیں اہل اور باصلاحیت پاکستانیوں کی قدر کرنی ہوگی اُن سے ملک کےلیے کام لینا ہوگا۔ یاد رکھیے! جو دکھتا ہے، وہ بکتا ہے۔ اگر پاکستان کا بین الاقوامی تصور ہی خراب ہے تو ہم نے کیا بیچنا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔