افغانستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خدشات

نصرت جاوید  بدھ 18 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

چند ہفتے پہلے میں نے آپ کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کی قومی سلامتی پر نظر رکھنے والے ادارے افغانستان کے حوالے سے کچھ نئے مسائل کی توقع کررہے ہیں۔ نیٹو افواج ابھی اس ملک سے پوری طرح نکلی نہیں مگر ان سے متعلقہ NGOsاور ان کے لیے کام کرنے والے Consultantsبڑی تیزی سے اپنے دفاتر بند کررہے ہیں۔

غیر ملکی سویلین کا یہ انخلاء افغانستان کی معیشت کو بڑا نقصان پہنچا رہا ہے۔ مکانوں اور دکانوں کے کرایے تقریباً آدھے ہوگئے ہیں۔ غیر ملکیوں کے لیے کام کرنے والے ڈرائیوروں اور ان کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے والوں کو روزگار کے نئے ذرایع میسر نہیں۔ ان کے ساتھ ہی ساتھ ایک کثیر تعداد ان نوجوانوں کی بھی ہے جو مختلف ٹریولنگ ایجنسیوں کے لیے کام کررہے تھے اور آج کل شدید مندے کی تکالیف کا سامنا کررہے ہیں۔ غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد کی سہولت کے لیے کابل میں نت نئے طرز کے بے تحاشہ ریستوران بھی کھولے گئے تھے جہاں آنے والے گاہکوں کی تعداد میں اب بڑی ہی نمایاں کمی نظر آرہی ہے۔ کاروباری مندے اور بے روزگاری کے اس بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے یہ خدشات دن بدن مضبوط ہورہے ہیں کہ افغانستان میں گزشتہ دس برسوں میں تیزی سے اُبھرنے والے متوسط طبقے کی ایک کثیر تعداد اپنے ملک میں اپنا معاشی مستقبل محفوظ نہ دیکھتے ہوئے بیرونی ممالک منتقل ہونا چاہے گی۔

امریکا میں افغانوں کے لیے امکانات اب کوئی زیادہ روشن نہیں رہے۔ یورپ کے زیادہ تر ممالک میں شدید کساد بازاری بدستور جاری ہے۔ یورپی یونین کی سہولیات کے سبب اس اتحاد کے نسبتاً خوش حال ممالک اسپین، یونان اور پرتگال کے بے روزگاروں کو ٹھوس سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے ہاں افغانوں کے مقابلے میں کھپانا زیادہ پسند کریں گے۔ متحدہ عرب امارات میں نئے لوگوں کے لیے زیادہ گنجائش باقی نہیں رہی اور حالات قطر میں بھی اس حوالے سے زیادہ خوش گوار نہیں۔

ان سب وجوہات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ نیٹو افواج کے چلے جانے کے بعد افغانستان میں سیاسی استحکام کے بجائے خانہ جنگی شروع ہوگئی تو افغانوں کی ایک کثیر تعداد پاکستان منتقل ہونے پر خود کو مجبور پائے گی۔ تکنیکی طورپر یہ لوگ Economic Migrantsہوں گے۔ مگر ایک بڑی تعداد ان لوگوں پر بھی مشتمل ہوگی جن کے والدین افغان جہاد کے دنوں میں پاکستان آکر رہے تھے۔ ’’نئے‘‘ افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے امکانات اتنے واضح نظر آرہے ہیں کہ چند ماہرین کو ان کی تعداد کا تخمینہ لگانے کی ذمے داری سونپی گئی۔ ایسے ہی ایک فرد نے بڑے اعتماد سے مجھے بتایا کہ پاکستان کو تقریباََ 20لاکھ افغانوں کی اپنے ملک آمد پر خود کو ذہنی طورپر تیار کرلینا چاہیے۔

میں نے ان کی بتائی تعداد کو مبالغہ آمیز قرار دے کر رد کردیا۔ مگر وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ انھوں نے بجائے ممکنہ تعداد کی بحث میں اُلجھنے کے مجھے اس بات پر قائل کرنا شروع کردیا کہ پاکستان کو ڈیورنڈ لائن پر افغانستان سے آنے والے لوگوں پر نگاہ رکھنے کے لیے کم از کم 6نئے مراکز قائم کرنا ہوں گے۔ سچی بات یہ ہے میں نے ان کی اس بات کو بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ مگر ہفتے کے دن سیفما کی پاک۔افغان کانفرنس سے اپنا اختتامی خطاب کرنے کے بعد جب وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ وقومی سلامتی باہر نکل رہے تھے تو ہوٹل کی لابی میں چند افغان صحافیوں نے انھیں گھیر کر پشتو زبان میں کیے گئے تابڑ توڑ سوالات کے ذریعے یہ بتانے پر مجبور کرنا شروع کردیا کہ آیا پاکستان واقعی ڈیورنڈ لائن کے مختلف نئے مقامات پر امیگریشن کنٹرول کے مراکز بنا رہا ہے یا نہیں۔ انتہائی تجربہ کار سرتاج عزیز مسکراتے ہوئے بس یہی وضاحتیں کرتے رہے کہ پاکستان کو افغان سرحد کے قریب ’’اپنی حدوں‘‘ میں ’’دہشت گردوں‘‘ کی آمدورفت پر کڑی نگاہ رکھنے کی شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ منگل کے دن قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد اب یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ ’’سیکیورٹی‘‘کی خاطر پاک۔افغان سرحد پر ہونے والی لوگوں کی آمدورفت کو کسی نہ کسی صورت Regulateکیا جائے۔

ہم پاکستانیوں کی اکثریت جبلی طورپر قومی سلامتی کمیٹی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرے گی۔ کئی ایک تو اسے دیرآید درست آید بھی کہنا چاہیں گے۔ مجھے ذاتی طورپر خدشہ مگر یہ ہے کہ افغانوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے اس فیصلے کو ہضم نہ کرپائے گی۔ کئی افغان تو بلکہ اسے پاکستان کی طرف سے ’’ڈیورنڈ لائن‘‘کے سخت اثبات کی صورت پیش کرتے ہوئے پشتون قوم پرستی کے نام پر یہ کہانی پھیلانا چاہیں گے کہ ان کا ’’برادر اسلامی ملک‘‘ برطانوی سامراج کی طرف سے پشتونوں پر مسلط کی گئی ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ والی تقسیم کو اٹل حقیقت بنانے کی راہ پر چل نکلا ہے۔ یہ کہانی زیادہ پھیلی تو پاکستان میں موجود پشتون قوم پرست بھی کم از کم لفاظی کی حد تک ان کے ہمنوا بن جائیں گے۔

افغان صدر کرزئی ان دنوں اپنی صدارت کی دوسری معیاد کے آخری ایام میں داخل ہوچکے ہیں۔ افغانستان کے آئین کے مطابق وہ تیسری بار صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اپنے اقتدار کے اختتامی مراحل میں ان دنوں انھیں خود کو ایک ’’کٹر افغان قوم پرست‘‘ ثابت کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ برطانیہ کے ایک مشہور لکھاری William Dalrympleنے حال ہی میں افغانستان پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ شاہ شجاع اس کتاب کا موضوع ہے جسے انڈیا میں بیٹھے برطانوی سامراجیوں نے لدھیانہ سے بذریعہ شکارپور اور قندھار بھیج کر کابل پر مسلط کیا۔ اس کے وہاں پہنچنے کے بعد شجاع کی معاونت کے نام پر برطانوی افواج اور مشیروں کی ایک بڑی تعداد بھی کابل منتقل ہوگئی۔

ان سب باتوں کا انجام پہلی افغان جنگ کی صورت ہوا جس میں انگریزوں کو ذلت آمیز تاریخی شکست ہوئی۔ Dalrympleکی کتاب میں حامد کرزئی، شاہ شجاع کا تازہ ایڈیشن نظر آتے ہیں۔ حامد کرزئی کو یہ حوالہ پسند نہ آیا اور وہ Dalrympleسے اپنی ایک طویل ملاقات میں اسے بار بار کہتے رہے کہ وہ شاہ شجاع نہیں ہیں۔ شاید یہی بات ثابت کرنے کے لیے وہ ابھی تک امریکا سے وہ معاہدہ سائن کرنے پر تیار نہیں ہورہے جو ان کے ملک کا لویہ جرگہ منظور کرچکا ہے۔ مجھے پتہ نہیں کیوں یہ خیال آرہا ہے کہ افغان صدر پاکستان کی جانب سے افغان سرحد پر سیکیورٹی بڑھانے کے فیصلے کو بھی اسی نظر سے دیکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔