تاریخ کا ایک سیاہ باب

مقتدا منصور  بدھ 18 دسمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس اظہاریے میں میرا ارادہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے آٹھ سالہ دور کا جائزہ لینے کا تھا۔ مگر میرے کچھ دوستوں کا اصرار تھا کہ بنگلہ دیش میں آزادی کے 42برس بعد جو اقدامات کیے جا رہے ہیں،ان پر قلم اٹھاؤں۔دوستوں کا اصرار سر آنکھوں پر،لیکن معاملات اتنے سہل نہیں ہیں کہ ان کے بارے میںکوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے۔اس کے علاوہ جب بھی اس نوعیت کے مسائل کو کریدنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو پرنالہ اپنی ہی طرف گرتا ہے۔ساتھ ہی ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ42برس پہلے کی سانجھی تاریخ خاصی بھیانک رہی ہے۔یہی سبب تھا کہ اس موضوع پر گفتگو سے گریز کر رہا تھا لیکن اب چونکہ بات نکلی ہے تو پھر مجھ سے تاریخ کو مسخ نہ کیا جاسکے گا،اس لیے جو کچھ دیکھا،سنا، پڑھا اور محسوس کیا وہ سینہ قرطاس پر لانے پر مجبور ہوں۔

وہ حلقے جو بنگلہ دیش میں ملاعبدالقادرنامی شخص کودی جانے والی پھانسی کی سزا پر سیخ پا ہیںاور ظلم وستم کا شور وغوغا مچا رہے ہیں،وہ دراصل تاریخی حقائق کو مسخ کرنے پر آمادہ ہیں۔اس عدالتی فیصلے پر بنگلہ دیشی حکومت کو ہدفِ تنقید بنایاجانا سفارتی اوراصولی طور پر درست نہیں ہے۔کیونکہ کوئی بھی ریاست کسی بھی وقت جنگی جرائم یا دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف عدالتی کمیشن قائم کرکے مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے اور انھیں سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔البتہ اس عمل کے دوران اگر قانونی تقاضے پورے کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جارہا ہو،توپوری عالمی برادری تنقیدکرنے کا حق رکھتی ہے۔اسی طرح ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوںکو دفن کرنے کامشورہ تو دیا جاسکتا ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے کسی آزاد ریاست پر دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا۔ساتھ ہی اس قسم کے مشورے وہی ریاست اور سیاسی حلقے دے سکتے ہیں،جن کے دامن پر کسی کمیونٹی کے خلاف ظلم وزیادتی کے دھبے نہ ہوں اور جنہوں نے خود عدل وانصاف کی راہ اپنائی ہو۔

وہ حلقے جنہوں نے1971 میں گروپ تشکیل دے کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے بنگالی عوام کو خون میں نہلایا ہو اور آج بھی مذہبی جنونیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں،کیا اس قسم کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں؟آج ملاعبدالقادر کو دی جانے والی پھانسی کی سزا پر وہی حلقے واویلا مچا رہے ہیں،جن کے منہ سے کبھی معصوم و بے گناہ شہریوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں قتل کرنے، فوجی افسران اور سپاہیوں کے گلے کاٹنے اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سفاک درندوں کی مذمت میں ایک لفظ تک نہیں نکلا۔یہی سبب ہے کہ بنگالی عوام میں موجود غم وغصے کو سمجھنے کے بجائے انھیں ہدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے،جو سفاکانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے۔سوچ کا یہ انداز کسی بھی انصاف پسند معاشرے میں قابل قبول نہیں ہوتا۔آج جو لوگ بنگلہ دیش پر تنقید کررہے ہیں، وہ دراصل شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دے کر حقائق سے نظریں چرارہے ہیں،کیونکہ تاریخ کے تلخ ابواب کو فراموش کرنا زندہ قوموں کی سرشت نہیں ہوتی۔بلکہ وہ ان تلخیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ہمیں اس حقیقت کوفراموش نہیں کرنا چاہیے کہ آل انڈیا مسلم لیگ دسمبر1906 میں ڈھاکا کے نواب سلیم اللہ خان کے گھرقائم ہوئی تھی۔بنگالیوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر سیاسی جماعت کی تشکیل کے تصور کواس وقت عملی جامہ پہنایاتھا،جب موجودہ پاکستان کے عوام اور خواص اپنے مستقبل سے بے خبر تھے۔ 23مارچ1940ء کو لاہور کے منٹو پارک ( مینار پاکستان) میں ہونے والے جلسے میں ایک بنگالی رہنما شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی جو بعد میں قرارداد پاکستان کہلائی۔کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ اس مولوی فضل الحق کو یونینسٹ پارٹی سے مسلم لیگ میں آنے والوں نے غدار قرار دیا۔ اسی طرح حسین شہید سہروردی ،جنہوں نے خود اور ان کے خانوادے نے آل انڈیا مسلم لیگ کو بنگال میں مقبول بنانے کے لیے انتھک محنت کی،اسی یونینسٹی ٹولے سے تنگ آکر عوامی لیگ بنانے پر مجبور ہوئے۔کیا ہم بھول گئے کہ پاکستان سے وفاداری کا دم بھرنے والے ایوب خان جب انگریزسرکار کو سلامیاں دے رہے تھے،تو نوجوان مجیب الرحمان سائیکل پر سوار ہوکر پاکستان کے حق میں مہم چلارہا تھا؟ کیا بنگالیوں نے1955 میںParity کا اصول تسلیم کرکے پاکستان کے لیے عظیم قربانی نہیں دی؟ کیونکہ یہ اصول جمہوریت کے ساتھ ساتھ انسانیت کے منہ پر بھی زوردار طمانچہ تھا۔

کیا ہم نے جسٹس حمود الرحمان کمیشن رپورٹ اور بریگیڈیئر صدیق سالک مرحوم کی انگریزی کتاب Witness to Surrenderاوراس کے اردو ترجمہ ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں درج حقائق کوفراموش کردیا ہے؟ ائیرمارشل اصغر خان نے اپنی کتابGeneral in Politics میں مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے بنگالیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے،کیا اس کی صحت سے ہم انکار کرسکتے ہیں؟ سابق بیوروکریٹ حسن ظہیرمرحوم کی کتابSeparation of East Pakistanمیںجوواقعات نقل کیے گئے ہیں،کیاانھیں غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیاہم قدرت اللہ شہاب کی سوانح’’ شہاب نامہ‘‘ اور ایک اور بیوروکریٹ شہاب الدین رحمت اللہ کی سوانح حیات ’’شہاب بیتی‘‘ بھول گئے ہیں؟ جن میں بنگالی افسران کے ساتھ ہمارے افسران کے تضحیک آمیز رویوں کا جابجا ذکر ہے۔کیا ہم نے 28فروری1971 کو مینار پاکستان پرہونے والے جلسہ میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی اس تقریر کو بھی فراموش کردیا ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ڈھاکا میں ہونے والے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے والے پیپلز پارٹی کے اراکین کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔کیا یہ رویہ اس ملک میں عددی برتری رکھنے والے بنگالیوں کی توہین نہیں تھا؟ کیا اس رویے کے نتیجے میں سقوط ڈھاکا نہیں ہوا؟

2005ء میںسری لنکا کے شہر کینڈی میں جنوبی ایشیاء میں غربت کے خاتمے کے حوالے سے ہونے والی ایک پانچ روزہ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔اس کانفرنس میں بنگلہ دیش سے ایک پانچ رکنی وفد شریک تھا۔ وفد کے قائد ڈاکٹر صمد سابق بیوروکریٹ تھے،جو متحدہ پاکستان میں1964 کے بیج کےCSSافسرتھے۔ سقوط ڈھاکا کے وقت وہ ٹھٹھہ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔دوران کانفرنس ہماری شامیں ساتھ گذرنے لگیں۔ انھوں نے بتایاکہ1966ء میں فورڈ فاؤنڈیشن نے پچاس نئے سول سرونٹس کی امریکا میں ایڈوانس تربیت کے لیے اسکالر شپ دیا۔دونوں حصوں سے 25،25افسران کا انتخاب کیا گیا۔ وفد میںکل21بنگالی افسران تھے۔ڈاکٹر صمد کا کہنا تھاکہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران کی نسبت بنگالی افسران پابندی کے ساتھ کلاس اٹینڈ کرتے اور نوٹس لیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بنگلہ دیش آزاد ہوا،تو ہم نے اپنے ملک کی معیشت کو انھی نوٹس کی بنیاد پر اس کے پاؤں پر کھڑاکیا، جو ہم نے ٹریننگ کے دوران لیے تھے۔

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ روانگی سے ایک رات قبل ہم دونوں رات کو کھانے کے بعد سوئمنگ پول پر ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے کہ باتوں باتوں میں ان سے پوچھا کہ انھیں ٹریننگ کے دوران NIPAلاہور کا کوئی واقعہ یاد ہوتو سنائیں۔ وہ بولے ان گنت واقعات ہیں۔ میں نے کہاچلیے یہ بتائیے کہ اس زمانے میں کون سا گیت وہاںبہت مقبول تھا۔ انھوں نے برجستہ کہا کہ فلم تیس مارخان کا گانا ’’دو نبوواں دا جوڑا اساں باگے وچوں توڑیا۔ ‘‘میںنے پھر ٹہوکا دیا اور کہا ذرا گنگناکر سناؤ تو انھوں نے صحیح لحن کے ساتھ مکھڑا گایااور پھر میرے کندھے پر سر رکھ کر بلک بلک کر رونے لگے اور بولے”You people are responsible for making of Bangladesh”۔اب کوئی مجھے بتائے کہ میں ڈاکٹر صمد کے اس جملے پر کیا ریمارکس دوں؟

جناب والا،اپنی غلطیوںاور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنا جرأت مندی نہیں ہوتی، بلکہ کشادہ دلی کے ساتھ انھیں تسلیم کرنا بہادری ہوتی ہے۔ابن صفی نے کہا تھا کہ عملی لوگ کبھی دعوے نہیں کرتے،بلکہ دعوے ہمیشہ بزدل کیاکرتے ہیں۔ ہم یہ تسلیم کریں کہ ہم نے بنگالی عوام کے ساتھ زیادتیاں کیں،اب بلوچوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کررہے ہیں۔ ہم نے سندھیوں کو پاکستان کے حق میں پہلی قرارداد پیش کرنے کی یہ سزا دی کہ قیام پاکستان کے فوراً بعدکراچی میں سندھی زبان کے چار سو اسکول یک جنبش قلم بند کردیے۔ اردو جو سلہٹ سے کراچی تک اور بولان سے راس کماری تک بولی اور سمجھی جانے کے علاوہ پورے برصغیر میںرابطے کی زبان یعنی Lingua Franca تھی، اسے قومی زبان بناکر خوامخواہ متنازع بنادیا۔ ہم نے یہ کیوں فراموش کردیا کہ مذہب اور ثقافت ایک دوسرے سے قطعی الگ ہوتے ہیں۔ مذہب کی طرح ثقافت بھی انسانوں کا جذباتی معاملہ ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش اگر نصف صدی پر محیط تاریخ کو کرید کر غلطی کررہا ہے تو ہم ردعمل ظاہر کرکے مزید اپنی بھد کیوںاڑ وا رہے ہیں؟اس رویے سے بہر حال اب گریزکرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔