- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
روئی کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث قیمت میں تیزی سے اضافہ
کراچی: ٹیکسٹائل سیکٹر کی مقامی برآمدی صنعتوں کی پوری استعداد کے ساتھ پیداواری سرگرمیوں اوربڑھتی ہوئی طلب کے باعث روئی کی قیمتوں میں زبردست تیزی کا رجحان غالب ہوگیا۔
ذرائع نے بتایاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے مقامی برآمد کنندگان کو اپنے بیرونی خریداروں کی جانب سے مختلف ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل پراڈکٹس کے نئے برآمدی آرڈرز موصول ہورہے ہیں لیکن ان نئے آرڈرز کی تکمیل کے لیے ملک میں معیاری روئی کی دستیابی محدود ہے جس کے باعث ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بڑے پیمانے پر روئی درآمد کرنے کے معاہدے شروع کردیئے ہیں۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ ٹیکسٹائل ملوں کی جانب سے ایک بار پھر روئی کی بھرپور خریداری شروع ہونے سے گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں روئی کی قیموں میں زبردست تیزی کا رجحان سامنے آیا ہے اور فی من روئی کی قیمت میں 200 سے 250 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے نتیجے میں پنجاب میں فی من روئی کی قیمت بڑھ کر 9 ہزار 250 روپے جبکہ سندھ میں 9 ہزار 100 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے، توقع ہے کہ رواں ہفتے روئی کی قیمتوں میں مزید اضافےکا رجحان سامنے آنے کا امکان ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا کے باعث متعدد یورپین ممالک نے بنگلہ دیش اور بھارت کی بجائے اب پاکستان سے مختلف ٹیکسٹائل پراڈکٹس خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے جس کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کے پاس اس وقت تاریخ کے سب سے زیادہ برآمدی آرڈرز موجود ہیں تاہم اندرون ملک معیاری روئی کی محدود دستیابی کے باعث بڑے ٹیکسٹائل گروپس نے بیرون ملک سے روئی درآمدی معاہدے کرنا شروع کر دیئے ہیں اور توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگلے 40 روز کے دوران یہ درآمدی روئی پاکستان پہنچنا شروع ہو جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر ٹیکسٹائل گروپس برازیل، امریکا اور تنزانیہ سمیت دیگر چند افریقی ممالک سے روئی درآمد کرنے کے معاہدے کر رہے ہیں، وزارت خزانہ نے پچھلے چند ماہ کے دوران ٹیکسٹائل انڈسٹری کے پچھلے کئی برس سے رکے ہوئے انکم اور سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی شروع کر دی ہے جبکہ بنک مارک اپ کی شرح میں بھی نمایاں کمی کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری اب مالی طور پر کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے جسے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بہتری کی ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے تاہم برآمدی ٹیکسٹائل سیکٹر کے زیرو فیصد اسٹیٹس بحال ہونے سے ملکی ٹیکسٹائل برآمدات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
احسان الحق نے بتایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک بھر میں کراپ زوننگ قوانین پر سختی سے عمل درآمد شروع کروانا چاہیے تاکہ کاٹن زونز میں گنے کی کاشت مکمل طور پر ختم ہونے سے پاکستان نہ صرف کپاس کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکے بلکہ گنے کی کاشت انتہائی محدود ہونے سے لاکھوں ملین ایکڑ پانی کی بچت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کمی سے پاکستانی روئی کا معیار بھی بہتر ہونے سے روئی کی درآمد مکمل طور پرختم ہونے سے سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ بچایا جا سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پنجاب بھر کپاس کی فصل پر اس وقت سفید مکھی اور گلابی سنڈی کا شدید حملہ بتایا جا رہا ہے جس سے کپاس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کےساتھ اس کا معیار بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے اس لیے محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر سفید مکھی کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرے تاکہ کپاس کی فصل محفوظ رہ سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔